انتخابی اصلاحات


کسی بھی ریاست کی عمارت اچانک منہدم نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات کار فرما ہوتے ہیں، اگر ان محرکات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک ریاست کو زمین بوس کرنے میں ملوث کردار بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بدامنی کے واقعات کا ”کھرا“ بھی بدعنوانی اور بدانتظامی تک جا پہنچتا ہے۔ بدعنوانی اور بدانتظامی کا سدباب کیے بغیر بدامنی ختم نہیں ہوگی۔

قومی وسائل کے درست اور بروقت استعمال جبکہ اہل قیادت کے انتخاب اور بے رحم احتساب سے پائیدار امن کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ مختلف طبقات کا احساس محرومی دور اور حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پر اعتماد بحال ہو گا۔

جہاں عوام کو ان کا بنیادی حق اور انصاف ملتا ہے وہاں تبدیلی کے لئے شہریوں کا شاہراہوں کا رخ نہیں کرنا پڑتا۔ حکومت انصاف کی فراوانی سے تحریک انصاف کا گراف بلند کر سکتی ہے۔

اگر پاکستان کے نوجوانوں نے کپتان عمران خان کو مینڈیٹ دیا تھا تو اس کا بنیادی سبب انصاف کی عدم دستیابی ہے لیکن سائل آج بھی انصاف سے محروم رہے۔ پاکستان کے انتخابی نظام کو سو فیصد شفاف قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس میں اصلاحات ناگزیر ہیں ورنہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت بھی ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔ حکومت انتخابی اصلاحات کے لئے اہم سیاسی پارٹیوں سے سفارشات طلب کرے۔

پاکستان میں جمہوریت کے دوام اور استحکام کے لئے انتخابی اصلاحات کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم اس کا راستہ منتخب پارلیمنٹ سے ہو کر جاتا ہے۔

اپوزیشن کیمپ میں بیٹھی چند مخصوص پارٹیاں انتخابی اصلاحات سے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے بھرپور دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے تحفظات اور اپنی اپنی سفارشات پیش کریں۔

جو لوگ کئی دہائیوں سے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتے، یقیناً اصلاحات سے ان کا انتخابی نظام پر اعتماد بحال ہو گا اور کسی بھی منتخب حکومت کو خود اعتمادی اور خودداری کے ساتھ ڈیلیور کرنے میں آسانی گی۔

پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے لہٰذاء دوررس انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمنٹ سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا ۔ انتخابی اصلاحات کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے،

اگر اس بار بھی انتخابی اصلاحات کا راستہ ہموار نہ ہوا تو پھر شاید آئندہ بھی نہ ہو۔ پارلیمنٹ کے آئینی کردار کی مدد سے انتخابی اصلاحات کے لئے قانون سازی یقینی بنائی جائے۔

پاکستان انتخابات میں دھاندلی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یقیناً اصلاحات سے عام آدمی کی انتخابی سیاست میں دلچسپی اور کامیابی کا راستہ ہموار ہو گا۔ ناکام ہونے والی اقوام کی بعض مخصوص عادات انہیں ناکام بناتی ہیں اور یہ اقوام زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ پاکستانیوں کا برسراقتدار آنے والے ہر حکمران کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کی غیر معمولی عزت افزائی کرنا اور پھر چند ماہ بعد اس سے نجات کے لئے شاہراہوں پر آ جانا اور مخالفانہ نعرے لگانا ان کے سیاسی شعور پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ان کی شامت اعمال کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر اس قسم کے حکمران مسلط کر دیے ہیں جو انہیں مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔ احتجاج تک کرنے کا حق بھی ان سے چھین لیا گیا ہے۔

ان کے حکمران ان کی آنے والی نسلوں تک کا رزق ہڑپ کر جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی ناقص معاشی منصوبہ بندیوں کے سبب پیدا ہو نے والے بچے بھی ناحق مقروض ہوتے ہیں۔

اس قرض کا بوجھ ان کے کندھوں پر ڈال دیا جا تا ہے۔ جو ان بیچاروں نے لیا بھی نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کے ماں باپ اس قرض سے مستفید ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر بحیثیت قوم اپنا جائزہ لیا جائے تو یہ تمام برائیاں ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔

ہمارے ہاں جمہوریت کو ایسا مقدس لفظ بنا دیا گیا ہے کہ شاید اگر جمہوریت نہ ہو تو خدانخواستہ بربادی ہمارا مقدر بن جائے گی، خدانخواستہ ہمارا شیرازہ بکھر جائے گا۔

ہمیں باور کروایا جاتا ہے کہ ہم سب کی بقاء اور سلامتی جمہوریت میں ہی مضمر ہے لیکن چودہ سو سال قبل اس قسم کی جمہوریت کا کوئی تصور تک نہیں تھا بلکہ نظام خلافت تھا۔ جمہوریت کو آمریت سے بہتر قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ کس قسم کی جمہوریت ہے جس میں بائیس کروڑ عوام کے حقوق پر آٹھ دس سرمایہ دار سیاسی خاندانوں اور مٹھی بھر اشرافیہ کا غاصبانہ قبضہ ہے اور یہ لوگ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کے مختار بنے بیٹھے ہیں۔ ان پر کسی قانون اور ضابطہ اخلاق کا اطلاق نہیں ہوتا اور یہ عناصر قوم کے ٹیکسوں پر کسی مقدس گائے کی طرح پل رہے ہیں۔

جہاں عوام زندگی بچانے اور بھوک مٹانے کے لئے ایڑیاں رگڑتے ہوں وہاں ان کے لئے جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ پاکستان میں نظام کوئی بھی ہو عام آدمی کی زندگی سہل بنانے کا انتظام و اہتمام کرنا ہو گا۔

ہماری جمہوریت کا دائرہ کار چند خاندانوں اور شخصیات کے گرد ہی کیوں گھومتا ہے۔ اگر حکمران اشرافیہ کا بس چلے تو نادار و مفلس پاکستانیوں کو روٹی کے نوالے سے بھی محروم کر دیں۔

گھر گھر میں بھوک اور بیروزگاری کے باو جود ان بیچاروں سے ٹیکس کے نام پر جگا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ حالیہ چار دہائیوں نے کئی کردار اقتدار میں آئے لیکن ان میں سے کوئی نہیں جس نے ڈیلیور کیا ہو۔

عوام نے ان میں سے ہر کسی کو اپنا مسیحا اور ہیرو مانا لیکن یہ زیر و آسانی سے زیر ہو جاتے ہیں۔ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے مسلح انتہا پسند عناصر کی سر کوبی اور حکومتی رٹ کو قائم کرنے کے لئے قانون کا طاقتور اور انصاف کو فعال کرنا ہو گا۔

پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا گٹھ جوڑ پاکستانیوں پر آشکار ہوا ہے۔ بد عنوان عناصر کو لگام ڈالی جبکہ بد انتظامی پر قابو پایا جائے۔ بدعنوانی اور بدانتظامی کے نتیجہ میں عام آدمی مہنگائی کی چکی پس رہے ہیں۔

شہریوں کی خوشحالی کے لئے دوررس معاشی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ہنرمند افراد کو باعزت روزگار کی فراہمی یقینی بنائی جائے، کاروباری افراد کو بینکوں سے کاروبار کے لئے باآسانی اور آسان شرطوں پر قرض فراہم کیے جائیں، جو صرف اشرافیہ کو ملتا ہے اور وہ بھی ناقابل واپسی اور قابل معافی ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں کے ساتھ کچھ ٹریجڈیز بھی ہو جاتی ہیں ہمارے حکمرانوں کے پاس جہاں باوفا اور باصفا افراد کا فقدان ہوتا ہے وہاں پیشہ ور اقتدار پرست عناصر انہیں ہر وقت گھیرے ہوئے ہوتے ہیں۔

آج حکومت کے ساتھ وفا کا دم بھرنے والے زیادہ تر وہ لوگ بھی ہیں جو چند برس قبل پرویز مشرف کے حق میں قراردادیں پاس کرنے اور انہیں بار بار باوردی صدر منتخب کرنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔

مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل مفاد پرست اور اقتدار پرست عناصر ہر حکمران کو بند گلی میں لے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات کون سمجھائے کہ خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے لوگ دوست نہیں بلکہ بدترین دشمن ہوتے ہیں۔

جو چرب زبانی سے انسان کی روح پر ضرب لگاتے اور اس کی صلاحیتوں کو نا کارہ بناتے ہیں۔ مشاورت اور اختلاف رائے کی آزادی سے زیادہ بہتر اور دوررس فیصلے ہوتے ہیں

لہٰذاء تنقید کرنے والے افراد کو غور سے سنا جائے۔ بدعنوانی کی طرح بدانتظامی بھی کسی ریاست کے لئے زہر قاتل ہے۔ میں ٹی وی پر ان لوگوں کو بھی عمران خان اور نواز شریف کے حق میں بولتا ہوا دیکھتی ہوں جو کل تک پرویزمشرف کا دفاع کرتے ہوئے بہت دور نکل جاتے تھے تو مجھے تعجب ہوتا ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے جو سب کو دوست ہوتا ہے وہ کسی کا دوست نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں فوجی آمروں کو برا کہا جاتا ہے لیکن ان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد جبکہ آمروں کی وکالت کرنے والے بعد میں منتخب حکمرانوں کا طواف کرتے ہیں تو انہیں سینے سے لگا لیا جاتا ہے

جبکہ دور آمریت میں بحالی جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے کارکنان اپنے پارٹی قائدین کی طوطا چشمی کے شکوے کرتے سنائی دیتے ہیں۔

فوجی ڈکٹیٹر ہو یا منتخب حکمران ان کی شاہی سواری آنے پر شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں اور بیچارے ”اچھوت“ عوام بھوکے ننگے سڑکوں پر کھڑے رہ جاتے ہیں۔

شاہراہوں پر جہاں بچے پیدا ہونے کی اطلاعات سننے اور پڑھنے میں آتی ہیں وہاں گاڑیوں کی بندش سے کئی شہری بھی بے موت مارے جاتے ہیں۔

یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ حکمران مخدوم نہیں عوام کے خادم ہیں۔ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک روز تنہا کسی بازار سے گزر رہے تھے۔

انہیں کسی غیر ملکی سیاح نے دیکھا تو حیرت سے پوچھا آپ کے ساتھ کوئی محافظ نہیں ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا شہریوں کی حفاظت کرنا میرا فرض منصبی ہے۔

وہ میرے محافظ نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر آنے والی حکومت میں بدعنوانی اور بدانتظامی جانے والی حکومت کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

دعا ہے پاکستان کے عوام ہوش کریں، انہیں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا آ جائے ورنہ ہونی کو کون روک سکتا ہے شاید ہماری نسلیں بھی حکمرانوں کے بچوں کی غلامی کرتی رہیں کیونکہ اقتدار اور قومی و سائل پر ان کا قبضہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments