عمران خان کا کوئیک مارچ


عمران خان نے وزارت عظمی سے نکالے جانے کے بعد بڑے بڑے جلسے کیے پبلک ان کے لئے بڑی تعداد میں نکل آئی اسٹیبلشمنٹ جو ان کی کم ہوتی مقبولیت کے بعد پر اعتماد تھی کہ ان کے لئے پبلک نہیں نکلے گی اس صورتحال میں کافی پریشر میں تھی اس طرح کئی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد کی حکومت بھی پریشر میں آ گئی تھی اور اس تذبذب میں تھی کہ اسے مشکل فیصلے لینے چاہیں جن کے نتیجے میان مہنگائی ناگزیر ہو گی یا الیکشن میں جانا چاہیے۔ ان حالات مین عمران خان نے جب لانگ مارچ کا اعلان کیا تو ایک غیر یقینی کی صورتحال چھا گئی۔ اس لانگ مارچ کی ٹائمنگ کیا درست تھی؟ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس لانگ مارچ کے بعد حکومت پریشر سے نکلتی ہوئی نظر آئی عمران خان کا لانگ مارچ پر تشدد کارروائیوں کے بعد کوئیک مارچ ثابت ہوا۔

عمران خان جو لاکھوں لوگوں کا اس مارچ میں شرکت کا کہہ رہے تھے چند ہزار لوگ ہی اسلام آباد میں لے جا پائے۔ رانا ثنا اللہ نے ریاستی مشینری کا جس دھڑلے سے استعمال کیا اس وجہ سے پنجاب سے پبلک کی شرکت محدود تھی صرف گنے چنے کارکن ہی اسلام آباد پہنچ پائے اور ان پر بھی بیہمانہ قسم کی شیلنگ کی گئی۔ سپریم کورٹ نے کارکنوں کو ڈی چوک آنے سے روکا اور کہا عمران خان مارچ کے شرکا کو ایچ نائن پارک میں اکٹھا کر سکتے ہیں۔

لیکن عمران خان کی ہدایت پر کارکن ڈی چوک پہنچ گئے مگر شدید ترین شیلنگ کے ذریعے ان کارکنوں کو تتر بتتر کیا گیا۔ اگرچہ عمران خان ایک بہت بڑی ریلی کے ہمراہ اٹک کے مقام پر رکاوٹوں کو عبور کر کے اسلام آباد تو پہنچ گئے اور یقیناً اگر وہ ڈی چوک پہنچتے تو ایک جم غفیر نے جمع ہونا تھا۔ اسی طرح رانا ثنا اللہ نے بھی پولیس کے بھی ہزاروں جوانوں کو اکٹھا کیا گیا تھا اور ایک بڑے تصادم کا خطرہ تھا۔ عمران کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ بہت سے پٹھان قبائلی دشمنیوں کی وجہ سے اپنے ساتھ اسلحہ لے کر چلتے ہیں اس طرح عمران خان کے ایک غیر متوقع اعلان نے اس خوف ناک صورت حال کو ٹال دیا۔

پنجاب کی پولیس اور کے پی سے آئے پٹھانوں کے درمیان ایک قسم کی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی اور عمران خان کا اعلان سامنے آیا کہ لانگ مارچ ختم کر دیا گیا ہے اور حکومت کو چھ دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس موقع پر دور دراز کے اضلاع سے آئے ہوئے پی ٹی آئی کے کئی کارکنان نے مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ عمران خان کو کم از کم کچھ دیر کے لئے سہی ڈی چوک میں آنا چاہیے تھا اور ساری رات شیلنگ کا سامنا کرنے والے اپنے کارکنان کی حوالہ افزائی کرنا چاہیے تھی۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پہلی دفعہ ریاستی طاقت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کارکن جو اپنی فیملیز کو لے کر آئے تھے کہ وہ دو ہزار سولہ کے دھرنوں کی طرح آرام سے حکومت کی رٹ کو للکاریں گے کچھ ناچ گانا ہو گا ان کو بدترین شیلنگ دیکھ کر وہاں سے ہٹنا پڑا۔ مگر اس مارچ کے دوران پی ٹی آئی کارکنان نے جس ہمت کے ساتھ ریاستی تشدد کا سامنا کیا اس سے پارٹی کا امیج بہتر ہوا ہے اور اب ان کے کارکنان کو صرف ناچ گانے والوں کا طعنہ نہیں سننا پڑے گا اور نون لیگ کو اسی طرح ایک بدنامی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس طرح کا تشدد پاکستانی کی سیاسی تاریخ میں پہلا کبھی نہیں کیا گیا۔

جبکہ لانگ مارچ کو روکنے کا فیصلہ سب اتحادی جماعتوں کو بٹھا کر کروایا گیا تھا مگر اس کا سارا نقصان مسلم لیگ نون کو ہوا۔ نون لیگ کے رانا ثنا اللہ جن کے ساتھ پی ٹی آئی دور میں اچھا سلوک نہیں کیا گیا تھا انھوں نے بھی خوب ہاتھ کھولے اور پنجاب میں ایک سخت کریک ڈاؤن کے بعد جس میں اسلام آباد جانے والے راستوں کو کئی جگہ سے بند کیا گیا تھا پی ٹی آئی کسی بھی شہر سے کوئی بڑا قافلہ یا ریلی نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکی اگرچہ عمران خان کے بہت سے متوالے یا تو پہلے اسلام آباد پہنچ چکے تھے یا لانگ مارچ والے دن تمام تر مشکلات عبور کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچے جہاں ان کے استقبال کے لئے ہزاروں پولیس اہلکار آنسو کیس کے زہریلے شیلوں کے ساتھ موجود تھے۔

اس تمام ہیروانہ جدوجہد کے باوجود یہ لانگ مارچ کوئیک مارچ ہی ثابت ہوا۔ ریاستی اداروں کے بے پناہ پریشر کے آگے عمران خان کو ایک دفعہ پھر پسپا ہونا پڑا جیسا ان کو دس اپریل کو عدم اعتماد کی ووٹنگ کے وقت ہونا پڑا تھا۔ عمران خان کو ریاست کی بے پناہ طاقت کا اندازہ ہوا ہے اس لئے اب وہ خیبر پختونخوا بیٹھے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے سوچ رہے ہیں، اور اب انھوں نے نہ صرف لانگ مارچ ٹو ملتوی کر دیا بلکہ پنجاب اسمبلی کا ضمنی الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی کیا ہے اس کا مطلب ہے وہ نارمل سیاست کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ان کا نئے الیکشن کا مطالبہ تو جائز ہے مگر اس کے لئے ان کو اگر چودہ ماہ انتظار کرنا پڑے تو کرنا چاہیے اس دوران وہ جلسے کر کے اپنی سپورٹ بیس محفوظ رکھ سکتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم مہنگائی کے مشکل فیصلوں کی بدولت اپنا ووٹ بنک کھو سکتی ہے۔ جمہوریت میں زبردستی نہیں چلتی معاملات کو پارلیمان میں بیٹھ کر چلانا چاہیے اس لئے اب پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اپنے استعفے کسی طرح واپس لے کر پارلیمنٹ میں بیٹھے اور ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments