شدت احساس کی ٹیسیں


جناب الطاف حسین حالیؔ نے تقریباً 65 ؍اشعار پر مبنی اپنی گزارشات ’عرض حال‘ کے عنوان سے پیش کیں جن کے شعر تاثیر میں ڈوبے ہوئے اور سسکیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ چند حاضر خدمت ہیں۔ ؎

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی سیرز و کسریٰ
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے

اس عرض حال کے بعد مسدس میں دور جاہلیت کی اندوہناک خرابیاں بیان کی گئی ہیں۔ کچھ اشعار اس لیے درج کیے جاتے ہیں کہ بدقسمتی سے وہ دور جاہلیت ہمارے ہاں لوٹ آیا ہے۔ ؎

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
بلند اک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

ان بدترین انسانی، اخلاقی، سماجی خرابیوں اور ان کے غیرانسانی رویوں کے تفصیلی ذکر کے بعد مولانا حالیؔ نے طلوع اسلام کی نہایت شاندار انداز میں تصویر کشی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کے نغموں کے پہلو بہ پہلو رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی کے اوصاف آفاتی تناظر میں پیش کیے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے نعتیہ اشعار کی دنیا بھر کی شاعری میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ چھوٹے بڑوں کی زبان پر رواں رہتے اور ان کے اندر جوش ایمانی ابھارتے تھے۔ ؎

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
خطاکار سے درگزر کرنے والا
بداندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا

حالیؔ نے آگے چل کر دنیا کے سب سے بڑے صادق اور امین حضرت محمد ﷺ کی زبان حقیقت کشا سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے پہلو بہ پہلو ان کی ذات گرامی کی اعلیٰ مرتبت کا واضح تعین کرایا ہے۔ ؎

کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ

مسدس حالیؔ کی پہلی اشاعت کے بعد اس کے خالق نے مسدس کی پذیرائی کے حیران کن مناظر دیکھتے ہوئے اس پر نظرثانی کی اور کسی قدر امید کے دریچے وا کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسدس حالیؔ برصغیر کے طول و عرض میں ایسے ایسے گوشوں تک پہنچی جہاں سرسید اور شبلی کے مقالے بھی نہیں پہنچ پائے تھے۔ الطاف حسین حالیؔ کو ان کی دقیع تصانیف، حیات جاوید، یادگار غالبؔ، مقدمہ شعر و شاعری اور سیرت شیخ سعدی پر شمس العلماء کا خطاب ملا، مگر پژمردہ دلوں کو بیدار کرنے والی ان کی تخلیق مسدس حالی زندہ جاوید ہے جس کی قومی عظمت آج بھی پوری طرح جلوہ فگن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments