ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات


ریاست پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان افغان دارالحکومت کابل میں 3 روزہ مذاکرات کا اہتمام کیا گیا جس کے دوران افغانستان کی حکومت نے سہولت کار اور ثالث کا کردار ادا کیا۔ ابتدائی طور پر اس کاوش کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے سیز فائر میں غیر معینہ مدت تک توسیع کا اعلان کیا جبکہ ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ مذاکرات کے دوران اہم معاملات پر فریقین کے مابین مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور یہ کہ یہ عمل جاری رہے گا۔

اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان سے آیا ہوا وفد عوامی نمائندوں، علماء اور قبائلی عمائدین پر مشتمل تھا جس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کی گئی۔ دوسری طرف پاکستان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے جمعہ کے روز ایک بیان میں کہا کہ یہ مذاکرات ایک آئینی طریقہ کار کے مطابق ہو رہے ہیں اور اس امن کے تناظر میں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

مذکورہ مذاکراتی عمل کا آغاز سال 2021 کے میٔ یا جون کے مہینے میں اس وقت ہوا تھا جب دوحہ مذاکراتی پراسیس ایک حتمی فیز میں داخل ہو گیا تھا اور پاکستان نے افغانستان میں موجود 5000 سے زائد ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 15 اگست کو جب غیر متوقع طور پر افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا تو پاکستان کا اصرار اور مطالبہ رہا کہ پاکستانی طالبان کے معاملے کا حل نکالا جائے کیونکہ وہ مختلف حملوں میں ملوث تھے اور ان کی خیبر پختون خوا میں سرگرمیوں میں اضافہ ہونے لگا تھا۔

چونکہ افغان حکومت کو دوسرے مسائل کے علاوہ داعش کے مسلسل حملوں کا بھی سامنا تھا اس لیے اس معاملے پر اس کے باوجود کوئی اہم پیشرفت نہ ہو سکی کہ افغان حکومت کے بعض اہم عہدیداروں کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ اس تاخیر پر افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان کافی تلخی بھی ہوئی اور پاکستان نے سرحد پار دو تین کارروائیاں بھی کیں۔ اسی دوران پشاور کے کور کمانڈر اور ان کی ٹیم نے جہاں قبائلی علاقوں کے امن اور ترقی کے لئے متعدد اہم اقدامات سمیت ایک مشاورتی عمل کا آغاز کیا وہاں اس عمل کے دوران قبائلی عمائدین کی یہ تجویز بھی بار بار آتی رہی کہ مستقل امن کے لئے اگر ان پر اعتماد کیا جائے تو وہ جرگوں کی شکل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

اس تجویز کا خیرمقدم کیا گیا اور 2022 کے دوران تین بار ان جرگوں کے ذریعے ملاقاتیں کی گئی۔ اس دوران ٹی ٹی پی پر جہاں افغان حکومت کا دباؤ بڑھتا رہا وہاں پاکستانی فورسز نے بھی متعدد کارروائیوں کے ذریعے ان کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان نے خود سے مذاکرات کی بحالی کے لئے رابطے کر کے موجودہ بڑی پیش رفت کا راستہ ہموار کیا۔ ریاستی اداروں نے اب کے بار 53 متعلقہ مشران، مختلف علاقوں اور پارٹیوں کے نمائندوں اور بعض حکومتی عہدیداروں پر مشتمل ایک نمائندہ وفد کابل بھیج دیا جس نے افغانستان کی حکومت کی نگرانی اور سرپرستی میں ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مختلف شرائط اور دو طرفہ مطالبات، تجاویز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور یوں نہ صرف غیر معینہ مدت تک سیز فائر کا اعلان ہوا بلکہ اس بات پر بھی اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ فریقین اس سیشن یا پراسیس پر مشاورت کر کے ایک مجوزہ امن معاہدے کا راستہ نکالیں گے۔

اگر چہ بعض حلقے بوجوہ اس عمل پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر امریکہ اور نیٹو جیسی طاقتیں افغان طالبان سے مذاکرات اور معاہدہ کر سکتی ہیں تو پاکستان اپنے قومی مفاد میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ دوسرا اہم نکتہ اس والے مذاکراتی عمل میں یہ ہے کہ اس میں دو مزید فریقین یعنی افغان حکومت اور قبائلی مشران کو بنیادی کردار دیا گیا ہے اور یہ لوگ نہ صرف رابطہ کاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں بلکہ مجوزہ معاہدے کے بعد گارنٹرز بھی بنیں گے۔

ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اس لئے اب کے بار صورتحال مختلف ہے۔ اس ضمن میں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ اب طالبان وغیرہ کے پاس امریکی مداخلت یا قبضے پر مبنی بیانیہ بھی نہیں رہا اور ان کے پاس مزاحمت کی وجہ نہیں رہی۔ ایسے میں توقع کی جا رہی ہے کہ یہ عمل کامیابی سے ہمکنار ہو گا تاہم اس ضمن میں متعلقہ ریاستی اداروں کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ قومی قیادت کو مناسب وقت پر اعتماد میں لیا جائے جس کا یقیناً ان اداروں کو ادراک اور احساس ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments