سیاست دانوں کے پیروں میں بندھی زنجیر


سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے ہی پبلک میں یہ تاثر قائم کر دیا تھا کہ انھیں ایک امریکی سازش کے تحت نکالا جا رہا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتے ہی جب عمران خان نے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکلنے کی کال دی تو نا صرف پورے پاکستان سے بلکہ پوری دنیا سے پاکستانی اپنے گھروں سے نکل آئے۔ پبلک کا ایسا ردعمل دیکھ کر پاکستان کے طاقتور حلقے ہی نہیں پوری دنیا بھی حیران رہ گئی۔

عمران خان کا یہ بیانیہ پبلک میں اس قدر مقبول ہوا کہ آج تک شاید ہی کسی سیاسی لیڈر کو اتنی پذیرائی ملی ہو۔ پاکستانی پبلک کے ردعمل نے عمران خان صاحب کے کانفیڈنس میں اضافہ کیا اور ان کی عوامی سپورٹ بڑھتی چلی گئی۔

یہاں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ عمران خان کو اتنا کامیاب بیانیہ قدرت نے پلیٹ میں رکھ کر دیا۔ جس کی وجہ سے ان کا ڈوبتا سیاسی مستقبل دوبارہ روزے روشن کی طرح چمکنے لگا۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ نکالے گئے وزیراعظم کے لئے پبلک باہر نہیں نکلا کرتی۔ ڈوبتے سورج کی طرف موڑ کر کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن عمران خان کے لئے پبلک اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کی کال دینے سے پہلے لوگوں کا ذہین بنا دیا تھا کہ ہم الیکشن کی تاریخ لئے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ لانگ مارچ والے دن ان کی اپنی جماعت کے عہدیدار بڑے بڑے نام غائب تھے۔ لیکن پبلک عام شہری عورتیں، بزرگ، بچے، سوسائٹی کا ہر طبقہ باہر نکلا تھا دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما اور تجزیہ نگار کہتے تھے کہ عمران خان کا سپورٹر برگر سپورٹر ہے یہ مار نہیں کھا سکے گا۔ یہ آنسو گیس برداشت نہیں کر سکے گا۔

لیکن پوری دنیا نے اس دن دیکھا کہ عام پاکستانیوں نے یہ سب برداشت کیا، لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ پولیس کا بہیمانہ تشدد، گرفتاریاں اور گھر کی چادر، چار دیواری کا تقدس تک پامال کیا گیا۔ لیکن لوگ نہیں ڈرے۔ رینجرز تک نے سرعام شیلنگ کی۔ ریاست نے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے پبلک کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کی۔

پھر اس دن ایسا کیا ہو گیا کہ عمران خان کا اپنا لانگ مارچ ختم کرنا پڑا اور سب کو واپس اپنے گھروں کو واپس جانا پڑا؟ عمران خان کو کسی نے کیا گارنٹی دی کہ وہ الیکشن کی تاریخ لئے بغیر ہی واپس چلے گئے؟ وہ تو اب کسی پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ پھر وہ شخص کون تھا جن کے کچھ الفاظ کہتے ہی عمران خان کو یقین ہو گیا اور وہ اس چیز کی پروا کیے بغیر کہ ان کو اپنے بیانیے سے پھرنے اور یو ٹرن لینے کا سیاسی نقصان ہو سکتا ہے ان کا ووٹر، سپورٹر مایوس ہو سکتا ہے وہ واپس چل دیے؟

عمران خان اس لانگ مارچ کو ختم کرنے کی لاکھ دلیلیں دیں، لیکن میرے تجزیے کے مطابق ان کو اس کا سیاسی نقصان ہوا ہے۔ مجھے اب ان کا وہ جذباتی سپورٹر نظر نہیں آتا۔ اب وہ عام گھریلو خواتین میں وہ پاگل پن وہ جنون نظر نہیں آتا۔ نقصان تو ہوا ہے اور اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔

اس عوامی طاقت میں زیادہ تر وہ پاکستانی تھے جو شاید پی ٹی آئی کے نا ہی ووٹر تھے اور نا ہی سپورٹر، یہ وہ طبقہ تھا جو پاکستان کے سیاسی دو پارٹی نظام سے متنفر تھا اور سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ یہ طبقہ اس دو پارٹی سسٹم کی نفرت میں عمران خان کے ساتھ جڑ گیا۔ دوسرا بڑا وہ طبقہ ہے جو شاید سویلین سسٹم کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا تھا ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کی فیملیز، جنہوں نے کھل کر عمران خان کو سپورٹ کیا پھر چاہیے وہ گراؤنڈ پر سپورٹ ہو یا پھر سوشل میڈیا ہر جگہ پر عمران خان کو سامنے آ کر سپورٹ کیا۔

ریٹائرڈ آرمی افسرز سوسائٹی کا فوج کے ادارے پر اتنا زیادہ پریشر پڑا کہ ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو انھیں بلا کر اعتماد میں لینا پڑا۔ ان سے ایسی باتیں شیئر کیں جو وہ کھلے عام بات نہیں کر سکتے تھے۔ تب بھی اس میٹنگ میں راز داری کے ساتھ ہونے والی باتیں آڈیو اور ذرائع کے نام پر لیک ہوئیں۔

لیکن اب چند دن پہلے پریس کلب کے باہر ریٹائرڈ آرمی افسرز نے پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ 90 دن بعد الیکشن اناونس ہو جایں گے۔

ان سے وعدہ کس نے کیا تھا؟ کیا وہ وعدہ کرنے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے؟ یہ سب اپ سوچیں!

اب بات کر لیتے ہیں اس نئی حکومت کی جنہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ قوم کو بتایا تھا کہ اگر عمران خان اور اس کی حکومت رہ گئی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ احسن اقبال نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر ملکی معیشت ڈوبی تو ہمیں اپنے ایٹمی اثاثوں پر کمپرومائز کرنا پڑ جائے گا۔

پاکستان کی تمام جماعتوں نے مل کر مہنگائی مارچ، لانگ مارچ، حکومت گراؤ مارچ، پتہ نہیں کیا کیا اور کون سے کون سے لانگ مارچ کیے، یہ سب شاید پبلک کو موڈ بنا رہے تھے۔ کیونکہ عمران خان اور ان کی حکومت کو گھر بھیجنے کا پلان بن چکا تھا۔ بس اس کے لئے راہیں تلاش کی جا رہی تھیں راستے بنائے جا رہے تھے۔

اب وزیراعظم شہباز شریف کی اس اتحادی حکومت کو آئے دو ماہ ہو گئے ہیں۔ روپیہ دن بدن گرتا جا رہا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں لوگ تباہ ہو رہے ہیں۔ ڈالر کسی کے قابو میں نہیں آ رہا۔ مہنگائی کا طوفان ہے جس میں غریب تو کیا مڈل کلاس، امیر طبقہ بھی متاثر ہوا ہے۔ مہنگائی نے پچھلے تیس سال کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔

شہباز شریف صاحب اور ان کی اتحادی جماعتوں لوگوں کو ریلیف دینے آئی تھیں۔ ان کی ٹیم تو تیار تھی پاکستان کو مشکل سے نکال کر ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے، پھر اب ایسا کیا ہو گیا انھیں آئی ایم ایف کے اس پلان پر بھی عمل درآمد کروانا پڑ رہا ہے جو ابھی ملا بھی نہیں؟ آئی ایم ایف نے اتنی زیادہ پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نہیں کہا تھا۔ پھر پبلک کو مہنگائی کی چکی میں کیوں پیسا جا رہا ہے؟ انھیں کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے؟

کیا یہ سب پبلک کو ایک ڈمی بجٹ سے خوش کرنے کی بھونڈی کوشش تو نہیں؟ کیا یہ تو نہیں کہنے والے دیکھیں ہمیں مجبوری میں پچھلے آئی ایم ایف کے معاہدوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا کرنا پڑا؟ لیکن ہم بجٹ میں لوگوں کو ریلیف دیں گے؟

شہباز شریف صاحب نے یہ وزیراعظم بننے کی اپنی خواہش تو پوری کر لی ہے لیکن انھوں نے اپنے سیاسی مستقبل کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اگر ان سے یہ معیشت نہیں سنبھلی تو ان کے نام کے ساتھ لگا پنجاب کو سنوارنے کا تمغہ بھی چھن جائے گا۔ پاکستان کے طاقتور حلقوں کے ساتھ ساتھ ان جا ووٹر اور سپورٹر بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا شاید وہ صرف ایک صوبہ ہی چلانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ پاکستان کو لیڈ کرنا ان کے بس کی بات نہیں!

کیا یہ حکومت پبلک دوست بجٹ دے کر الیکشن میں جانا چاہتے ہیں؟ اگر یہ سب اتنے ہی اہل ہیں تو شوکت ترین نے یہ کیوں کہا کہ مجھے اور چند اور لوگوں کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک میٹنگ میں بلا کر کہا کہ ملک میں مشکل حالات ہیں۔ اپ حکومت کے ساتھ مل کر آئی ایم ایف کے پروگرام کی راہ ہموار کریں؟

ہمارے ادارے اور ان کے سربراہان تو نیوٹرل نہیں تھے؟

کیا نواز شریف صاحب کے ووٹ کو عزت مل گئی؟ ان کی بیٹی مریم صفدر اعوان اب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیوں نہیں لگوائیں؟ اب انھیں نئے نعرے کی کیوں ضرورت پیش آ گئی؟ وہ اب یہ کیوں کہہ رہی ہیں مسلم لیگ نون نے پبلک کو مشکلات سے پہلے بھی نکالا ہے آئندہ بھی نکالے گی؟

جب سب اچھا ہے تو ان کے والد ابھی تک پاکستان واپس کیوں نہیں آ رہے؟ کیا انھیں پاکستان کی فکر نہیں؟ اب تو ان کی جماعت کی حکومت ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ جنہیں انھوں نے یا ان کی جماعت نے وزیراعظم نہیں بنایا بلکہ ان دیکھی اسی طاقت نے وزیراعظم بنوایا جو ماضی میں انھیں بھی وزیراعظم بنوا چکے۔ تو پھر اب کیسا ڈر؟ انھیں پاکستان واپسی پر کون سی ڈیل ان کے پاؤں کی رینجر بنی ہوئی ہے؟

اس وقت پاکستان کا ہر سیاستدان ایک ان دیکھی زنجیر میں باندھ دیا گیا ہے۔ اور پاؤں میں بندھی اس رینجر سے یہ لوگ ایک خاص حد سے اگے نہیں جا سکتے۔ یہ سیاستدان اب اس غلامی کی زنجیر کے طوق سے آزادی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ جو بھی اپنی دی ہوئی آزادی اور احاطے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا۔ مالک زنجیر کھینچ کر زمین پر منہ کے بل گرا دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments