ووٹر لسٹیں اور جنرل الیکشن


گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر حتمی ووٹر لسٹوں کا اجراء ہوا جس میں بڑے پیمانے پر غلطیاں سامنے آئیں۔ اور اس کی تصحیح کے لیے 19 جون تک کی تاریخ دی گئی۔ اس میں کئی سوال اٹھتے ہیں ایک تو بہت سے لوگوں کے ووٹ جو کہ ان کے صحیح پتوں پر درج تھے ان کو بدل دیا گیا۔ اور کچھ لوگوں کے ووٹ جو کہ 2018 کی شائع کردہ حتمی ووٹر لسٹوں کے مطابق ٹھیک تھے مگر موجودہ شائع ہونے والی غیر حتمی لسٹوں کے مطابق ان کے ووٹ ان کے رہائشی علاقوں بلکہ شہروں سے باہر ٹرانسفر کر دیے گئے۔

اس کے بعد جو ڈسپلے سینٹر ان ووٹوں کی تصحیح کے لیے بنائے گئے وہ ان کے علاقوں سے دور ہیں جو کہ تعداد میں بھی پچھلی دفعہ بنائے گئے ڈسپلے سینٹرز سے بہت کم ہیں۔ ان ڈسپلے سینٹرز کا ٹائم بھی سرکاری اوقات کے مطابق ہی ہے اب لوگ کیا اپنی روزی روٹی کمانے اپنے کاروبار یا دفتروں یا ملازمت پہ جائیں گے یا ڈسپلے سینٹرز مین جا کے ووٹ ٹھیک کروائیں گے؟ موجودہ حالات میں لوگوں کا اعتماد ہی ووٹ کی طاقت سے اٹھ گیا ہوا ہے راقم کی جتنے لوگوں سے اس سلسلے میں بات ہوئی ان میں سے اکثریت سسٹم سے اکتائی ہوئی نظر آئی اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ ڈسپلے سینٹرز گھر سے بہت دور دور ہیں اب روزگار کمانے جائیں یا ووٹ ٹھیک کروانے؟

پچھلے دنوں الیکشن کمیشن نے ووٹ کے درست اندراج کی ایک مہم چلائی جس میں سکول کے اساتذہ کو گھر گھر جا کے لسٹیں بنانے کا ٹاسک دیا گیا جن کی بنیاد پہ ووٹر لسٹوں کی تصحیح ہونا تھی مگر اس میں کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن۔ کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی کے مصداق دو مسائل آئے ایک تو لوگوں کے زیادہ تعاون نہیں کیا دوسرے اساتذہ کی ڈیوٹی دوپہر تین بجے کے بعد شروع ہوتی تھی جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ کچھ تو لوگوں نے تعاون نہیں کیا دوسرے وہ خود بھی کام کرنے سے کتراتے تھے۔

راقم نے خود ایک پارک میں کچھ لوگوں کو سرکاری کاغذات لیے بیٹھے دیکھا تو وہاں دوست سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اس نے بتایا کہ یہ لوگ پارک میں بیٹھے ووٹر لسٹیں ٹھیک کر رہے ہیں حالانکہ انہیں ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ گھر گھر جا کر شناختی کارڈ دیکھ کر لسٹیں بنائیں مگر وہ پارک میں بیٹھے اپنی ذمہ داری سر انجام دے رہے تھے۔ جب یہ مہم شروع ہوئی تو راقم نے لاہور میں مختلف علاقوں میں موجود دوستوں سے اس بارے پوچھا تو تقریباً نوے فیصد لوگوں کا جواب یہی آیا کہ ان کے ہاں ووٹ کی تصدیق یا تصحیح کرنے کوئی بندہ نہیں پہنچا اور مہم اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

حالانکہ الیکشن کمیشن نے قومی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ایمانداری سے یہ مہم شروع کی ہو گی اور اس کے عوض ان اساتذہ کو معقول معاوضہ بھی لازم دیا گیا ہو گا مگر اس کا رزلٹ یہ آیا کہ پورے پاکستان میں جس سے بھی پوچھو اکثریت کا ووٹ ہی اس کے حلقہ انتخاب سے کسی اور جگہ منتقل ہو چکا ہے۔ اس بابت میری الیکشن کمیشن سے استدعا ہے کہ اس کی پوری انکوائری کروائی جائے اور ملکی خزانے سے کروڑوں روپے ضائع کرنے والوں اور ان کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

اب جبکہ ڈسپلے سینٹرز کیے ذریعے ووٹوں کی درستی مہم چل رہی ہے مگر میری ناقص رائے میں یہ بھی اتنی کامیاب شاید نا ہو کیونکہ ایک تو ڈسپلے سینٹرز کی تعداد بہت کم ہے دوسرے ٹائم صبح سے کے کے تین بجے تک ایسا ہے کہ لوگ ڈسپلے سینٹرز پہ نہیں پہنچ پائیں گے۔ الیکشن کمیشن حکام سے گزارش ہے کہ ایک تو ڈسپلے سینٹرز کی تعداد بڑھائی جائے اور صبح کی شفٹ کے ساتھ ساتھ ڈسپلے سینٹرز کی ایک شفٹ دوپہر تین بجے سے رات آٹھ بجے تک کی جائے تاکہ دو شفٹوں میں کام ہو اور اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں۔ الیکشن تبھی صاف اور شفاف ہوں گے جب سارے پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے آسانی ہو تبھی جمہوریت سہی معنوں میں پنپ سکے گی۔

دوسرے ایک اور گزارش الیکشن کمیشن کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح موبائل سم حاصل کرنے کے لیے جگہ جگہ بائیو میٹرک مشینیں موجود ہیں اور وہاں ان مشینوں کو ایک وینڈر آپریٹ کر رہا ہے اسی طرح ایک سافٹ وئیر بنوایا جائے اور یہ اتنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اور وہ سافٹ وئیر نادرا کے ساتھ آن لائن کنیکٹ ہو اور سرکاری دفاتر یا مارکیٹوں میں جس طرح سم حاصل کرنے کے لیے صرف انگوٹھا مشین پہ لگایا جاتا ہے اور اس کا شناختی کارڈ نمبر سامنے آ جاتا ہے بالکل اسی طرح انگوٹھا لگایا جائے اور نادرا کے تعاون سے بندے کا شناختی کارڈ نمبر، اس کا مستقل پتہ اور اس کا عارضی پتہ سامنے آ جائے۔

اور اسے آپشن دی جائے کہ وہ کہاں اپنا ووٹ کا اندراج چاہتا ہے وہاں کلک کرے اور اسے آن لائن ہی جمع کروا دے۔ اور وہ ڈیٹا ڈائریکٹ الیکشن کمیشن پہنچ جائے نادرا پہلے ہی اس کی تصدیق کر چکا ہو گا اور الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹ ٹھیک کرنے پہ زیادہ کام بھی نہیں کرنا پڑے گا خود کار نظام کے تحت اس کا ووٹ اس کے حلقے میں چلا جائے گا۔ اور سب سے بڑی بات کاغذ کے فارم سے جان چھوٹ جائے گی جس سے قومی خزانے کو فائدہ ہو گا۔

فارم کو بھرنے اور جمع کروانے کی جھنجھٹ سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔ اور غیر حتمی لسٹوں کے اجراء اور پھر ان کو ٹھیک کرنے کی دوہری اذیت سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اور یہ کام سارا سال چلتا رہے اور الیکشن ہونے سے دو یا تین ماہ قبل ووٹر لسٹ کا اندراج روک کے حتمی لسٹیں جاری کر دی جائیں۔ اساتذہ یا پٹواریوں کے ذریعے ووٹر لسٹوں کی تصحیح کا نظام پرانا اور فرسودہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اکثریت موبائل فون استعمال کرتی ہے اور لوگوں کو سم کے اجراء کا طریقہ کار ازبر ہو چکا ہے۔ بالکل ویسا ہی ملتا جلتا نظام لایا جائے اور الیکٹرانک نظام سے ووٹر لسٹوں کی تصحیح یا تصدیق کی جانی چاہیے۔ اور اگر پانچ سال کے بعد بھی کوئی اپنا ووٹ ٹھیک یا تصدیق نہیں کرواتا تو اس کا ووٹ لسٹ سے خود کار نظام کے تحت خارج کر دیا جائے۔

اب جبکہ ساری دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی طرف جا رہی ہے اور پاکستان میں ای وی ایم مشین کا قانون پاس ہوا جس میں کہ دوبارہ ترمیم کر کے اسے ختم کر دیا گیا۔ کیونکہ ای وی ایم مشین کو ایک دم سے لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ الیکٹرانک طریقے سے ووٹر لسٹوں کی درستگی سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارا الیکٹرانک ووٹنگ کی طرف پہلا قدم ہو گا جس سے صاف اور شفاف الیکشنز کروانے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح الیکشن کے دوران امیدواران کے کاغذات نامزدگی بھی آن لائن جمع کروانے کا طریقہ کار الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پہ متعارف کروایا جائے۔

ان اقدامات کے کرنے سے ہم آہستہ آہستہ ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کروانے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس سے ایک تو کاغذ کے استعمال اور ان فارموں کو چھپوانے میں خرچ ہونے والے قومی خزانے کی بچت ہو گی دوسرے وہ الیکٹرانک کاغذات نامزدگی کے فارم ہمیشہ کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس محفوظ رہیں گے اور امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرنے کے وقت پچھلے کاغذات نامزدگی سے موازنہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اور اس سے شفافیت کا عنصر بھی واضح ہو گا۔

اب جبکہ پوری دنیا پیپر لیس انوائرنمنٹ کی طرف جا رہی ہے تو ہمیں یہ کم خرچ بالا نشیں اقدامات کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ اسی طرح حلقہ بندیوں پہ اعتراضات کرنے کے لیے آبجیکشن پٹیشن دائر کرنے کے لیے ایک تھکا دینے والا طریقہ کر رائج ہے جیسے کہ ابھی جو حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کی طرف اے کی گئی ہیں ان پہ اعتراض دائر کرنے کے کیے طریقہ کار قانون میں وضع کیا گیا ہے کہ ایک آبجیکشن پٹیشن کے ساتھ اس حلقہ کے آٹھ نقشہ جات لف کرنے ضروری ہیں اس میں یہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر حلقے کا نقشہ آن لائن موجود ہو اور اعتراض دائر کرنے والا وہیں سے اپنے حلقے کا نقشہ ڈاؤن لوڈ کرے اور وہیں آن لائن حلقہ بندیوں پہ اعتراض دائر کر دے۔ اور اس کی ہیرنگ ان پرسن ہو تاکہ وہ اپنے اعتراضات کی وضاحت کر سکے۔

یہ الیکشن کمیشن کے حکام بالا سے کچھ گزارشات ہیں اگر ان پہ غور فرما لیا جائے تو اس سے الیکشن منعقد کروانے اور الیکشنز کی شفافیت میں بہتری آ سکتی ہے۔ کیونکہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو وقت کے ساتھ چلتی ہیں اور خود کو نئے آنے والے وقت کے مطابق ڈھالتی ہیں۔ ورنہ یہ پرانا اور فرسودہ نظام تو کسی نا کسی طریقے سے رینگ ہی رہ ہے اور رینگتا ہی رہے گا۔ مگر کسی نا کسی کو تو یہ کرنا ہی پڑے گا۔ تو چیف الیکشن کمشنر صاحب یہ سہرا آپ کو اپنے سر پہ کیوں نہیں باندھنا چاہیے تاکہ تاریخ میں آپ کا نام رقم ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments