سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال


کوئی کام ہو یا نہ ہو سوشل میڈیا تو سب سے اہم کام ہوتا ہے۔ جس طرح لوگ چائے کافی کے عادی ہوتے ہیں اور وقفے وقفے سے طلب محسوس کرتے ہیں عین اس طرح سوشل میڈیا کی طلب بھی محسوس ہوتی ہے۔ جب سوشل میڈیا کا پہلا باضابطہ پلیٹ فارم متعارف ہوا تو ہمیں بھی ایک دوست نے امریکہ سے فون کر کے بتایا کہ اس طرح کا ایک پلیٹ فارم لانچ ہوا ہے آپ بھی رجسٹر ہو جاؤ۔ اور یوں ہم بقول شاعر ”بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے“ ۔ شروع میں تو بہت مزہ آتا تھا۔

نئے نئے دوست مل گئے۔ دنیا کے ہر خطے سے لوگوں سے روشناس ہو گئے۔ ان کے خیالات اور افکار جاننے کا موقع بھی ملا اور ہم اپنے خیالات ان تک بھی پہنچا نے لگے۔ یوں ایک عالمگیر برادری کے ساتھ تعلق بن گیا۔ بہت پڑھے لکھے عالموں کی باتیں سننے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا اور بہت سے پڑھے لکھے جاہلوں کے افکار جاننے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ یقین کریں کہ شروع میں سب کچھ بہت اچھا لگنے لگا۔ اور تھا بھی اچھا۔ لیکن پھر اچانک فیس بک نے پاکستانی معاشرے کو لپیٹ میں لیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون اگیا اور ہمیں دھڑا دھڑ فرینڈز ریکویسٹ آنے لگے۔ کچھ سکول کالج کے پرانے دوست کچھ نئے دوست بھی بن گئے۔ پھر پڑوسیوں کی جانب سے ریکویسٹ آنے شروع ہو گئے۔ ایڈ تو کرنا تھا۔ سو ان کو بھی ایڈ کر لیا اس کا یہ فائدہ ہوا کہ ہمیں پڑوسیوں کے مینیو کا روزانہ پتہ چلنے لگا کہ آج کیا بنا ہے۔ ناشتے میں کیا کھایا۔ ویک اینڈ کون سے پارک میں گزاری، سسرال والوں کا ٹرپ کب لگا۔ الغرض فیس بک جام جہاں نما بن گیا۔

زیادہ تر پوسٹ تو کاپی پیسٹ والے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار کچھ تخلیقی پوسٹس بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جن سے کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔ کچھ دوستوں کو اپنی تصویریں بہت اچھی لگتی ہیں روزانہ اپنی تصاویر شیئر کرنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ ان کو لائیک کرنا ہماری قومی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ سو ہم لائیک کرتے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں تو کمنٹس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ تو کمنٹس بھی کرنے پڑتے ہیں۔ کسی کو super، کسی کو شاندار اور کہیں ماشاءاللہ اور سبحان اللہ سے کام چلانا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک کے emojis بھی کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

کچھ حضرات نے تو فیس بک کو باقاعدہ ثواب کمانے کا بھی ذریعہ بنایا ہے۔ ہزاروں نیکیوں والے پوسٹ کو آگے شیئر کرنے کا بھی کہتے ہیں اور شیئر نہ کرنے پر عذاب سے ڈرانے کی دھمکیاں بھی ہوتی ہیں۔ جیسے تیسے کر کے اس سے بھی گزر جانے ہیں۔

اصل مسئلہ تب آتا ہے جب معاملہ کسی فوتگی کے بارے میں ہو۔ روزانہ کسی نہ کسی فوتگی کی خبریں تھوک کی حساب سے لگی رہتی ہیں۔ کسی علاقے میں اگر کوئی فوت ہو جائے تو ہمارے سارے فیس بکی بھائیوں میں ایدھی صاحب کی روح حلول کر جاتی ہے۔ ہر ٹائم لائن پر باقاعدہ فاتحہ خوانی کا اہتمام ہوتا ہے۔ اکثر اس چکر میں اصلی سوگواران رہ جاتے ہیں اور ہم کہیں اور فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ جب سے فیس بک پر آیا تو سب سے زیادہ کمنٹس میتوں کو دعائیں دینے کے بارے میں کیے۔ اب تو میرے فون کا auto suggest والا سسٹم بھی گڑ بڑ کرنے لگا ہے۔ کوئی بھی کمنٹ لکھنے کے ساتھ ہی ”خدائے داوبخی“ یا

” اللہ مغفرت نصیب کرے“ یا ”Rest in peace“ جیسے الفاظ سامنے آتے ہیں۔ اپنے فون کو دیکھ کر طالبان کا بیل یاد آتا ہے۔

پرانے زمانے کی بات ہے کسی مسجد میں طالب رہتے تھے (اصلی طالب جو پڑھتے تھے لڑتے نہی تھے ) عید

قرباں آئی تو انھوں نے بھی قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔ آپس میں پیسے جمع کر کے بیل خرید لیا اور مسجد کے باہر باندھ لیا۔ اب جو بھی طالب آتا وہ بیل کا منہ کھول کے اس کے دانت چیک کرتا۔ اور مطمئن ہو کے دوسرے کو موقع دیتا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہوا۔ اب گاؤں کے لوگ مسجد آنے شروع ہو گئے۔ اب جو بھی بیل کے پاس سے گزرے وہ بیچارہ خود ہی منہ کھول دے۔ یہی حال ہمارے فون کا ہوا ہے۔ پوسٹ کیسا بھی ہو اس کو فاتحہ پڑھنے کی عادت ہو گئی ہے۔

دنیا کے تمام یونیورسٹیوں نے ابھی تک اتنے دانشور پیدا نہیں کیے ہوں گے جتنے سوشل میڈیا نے چند سالوں میں پیدا کیے ۔ سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنا پڑتا ہے تب جا کے کہیں پڑھانے کی باری اتی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسی کوئی قید نہیں۔ کوئی بھی بغیر پڑھے لکھے دانشور بن سکتا ہے۔ ماہر تعلیم بن سکتا ہے۔ ماہر اقتصادیات، دفاع غرض دنیا میں جتنے بھی شعبے ہیں اور جو مستقبل میں آنے والے ہیں ان سب کے ماہرین چٹکیوں میں حاضر ہیں۔

آپ غلطی سے کہیں اپنی کسی فرضی بیماری کا ذکر کر کے دیکھ لیں اچانک ڈاکٹروں کا ایک جم غفیر اپ کو نظر آئے گا۔ آپ دنیا کے اس دعوے کو فوراً رد کر دیں گے کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ اپ کو چند منٹ کے اندر ایسے ایسے نسخے اور گھریلو ٹوٹکے مل جائیں گے کہ آپ اپنی بیماری بھول کر ڈاکٹر بننے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگیں گے۔ کہیں کسی نے مکان بنانے کا ذکر چھیڑ دیا تو آپ کو لگے گا کہ وطن عزیز میں تو 90 فیصد انجنئیر ہیں اور ہم ویسے تعلیم کی کمی کا رونا روتے ہیں۔

سیاست اور امور مملکت چلانے کی بات ہو تو آپ اس دعوے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ تو ہمارے پاس ہیں اور اس میدان میں ہم 100 فیصد خودکفیل ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کسی تعلیمی ڈگری کی کوئی ضرورت نہیں۔ دو چار چیزیں ہیں جن کے کرنے سے بندہ فل ٹائم سپیشلسٹ بن سکتا ہے۔ سب سے اہم کام کاپی پیسٹ کرنا جس میں ہماری قوم سب سے زیادہ ماہر ہے۔ کسی کا بھی پوسٹ اٹھا کر کاپی کرلو۔

اپنے ٹائم لائن پر لگاؤ۔ وہ پوسٹ آپ کا۔ بس یہ خیال رہے کہ جس کا پوسٹ ہو اس کا نام غلطی سے بھی نہ آئے۔ دوسری بات یہ کہ بندے کو ڈھیٹ ہونا چاہیے۔ جب ایک بات کسی کی نقل کردی تو کردی۔ بس اب اسی بات پر قائم رہنا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر کچھ نہیں اتا تو اپنے سیاسی مخالفین کے ٹائم لائن پر جاؤ۔ اور وہاں پر بلا سوچے سمجھے گالیاں لکھتے جاؤ۔ یقین کریں جلد ہی کوئی سیاسی جماعت اپ کو گود لے کر اپنے خصوصی ہراول دستے میں شامل کر کے آپ کے نان نفقے کا بھی بندوبست کر لے گی۔ یوں گھر والوں کی طعنوں سے بھی نجات مل جائے گی اور آپ گالیاں دینے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر ڈاکٹر بن جائیں گے۔ اور مستقبل میں پارٹی ٹکٹ کے چانسز بھی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments