دلبروں سے بیوروکریٹس ملتے کہاں ہیں


میری پہلی ملاقات تھی چنانچہ میں حسب عادت ان کے مزاج کو سمجھ ہی کر ملنا چاہتا تھا، مدنظر یہ بھی تھا کہ، ملنا بھی چاہیے کہ نہیں؟ ، دوسری طرف ہمارے دوست مرتضیٰ درانی کی خواہش اور حکم کئی ماہ سے تھا کہ ڈاکٹر آصف حسین سے ہم کلام ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ گفت و شنید جہاں کئی سوالوں کو جنم دے گی وہاں کئی گتھیاں سلجھائے گی بھی۔

خیر، میں نے پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر شاہد محی الدین ( سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کے چارج کے بھی تاحال حامل) سے پوچھا کہ، کہیں ملاقات سے میں اپنا اور صاحب کا وقت تو ضائع کرنے نہیں جا رہا، مگر انہوں نے دریا کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا ”جانا آپ پر فرض ہے، متاثر ہوئے بغیر آئے تو مجھے کہئے گا“ کیونکہ میں آپ دونوں سے بخوبی آشنا ہوں، اس کے علاوہ جو تعریفیں شاہد محی الدین نے کی اس کے لئے ایک الگ صریر خامہ کی ضرورت ہے۔ شاہد محی الدین کی تعریف سے ذہن میں آیا کہ، واقعی، حسن وہ جس کی سوتنیں بھی تعریف کریں!

صاحب کے متعلق یہ تو مجھے معلوم ہی تھا کہ، این ایم سی ایک کورس میں جناب ٹاپر تھے باوجود اس کے ڈاکٹر اعجاز منیر اور سکندر سلطان راجہ سے صاحب افتخار اور انتظامی امور کے ماہر اسرار لوگ بھی ہم سفر تھے۔

میرے میزبان خواجہ انیس و پروفیسر نرگس سعید کی نظر میں بھی ڈاکٹر آصف ایک مدبر، موثر اور محب وطن افسر ٹھہرے، پروفیسر نرگس سعید نے KIM میں ان کا ایک مینجمنٹ کے حوالے سے لیکچر سن رکھا تھا، پروفیسر عائشہ سہیل بٹ (رجسٹرار) یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر نے بھی کہا کہ ملیں گے تو لاہور سے آنے کی تھکن ختم، اور جانے کی تازگی لے کر لوٹیں گے! بہرحال ایوان صدر آزاد جموں و کشمیر خوش قسمت ہے، کہ ریاست کو ڈاکٹر آصف حسین شاہ سے فرض شناس اور پروفیشنل بیوروکریٹ میسر ہیں، اور صدر بیرسٹر سلطان محمود اس سے بھی زیادہ خوش بخت کہ انہیں ایسے زود فہم اور زیرک پرنسپل سیکرٹری ملے۔ چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو افسر شاہی میں ایسی مثالیں آٹے میں نمک برابر ہیں!

تعریف اس لئے نہیں کہ انہوں نے اچھی چائے پلائی یا چشم ما روشن دل ما شاد کہا، وہ حقیقت میں انسان دوست اور معاملہ فہم ہیں ورنہ پورے پاکستان میں افسر شاہی میں اکثریت سکھا شاہی ہی پر مشتمل ہے۔ جس چیز نے مجھے یہ سطور رقم کرنے پر مجبور کیا، یہ ان کا خاصا ہے وہ عام فہم گفتگو کرتے ہیں مگر گہرائی میں اتر کر، چلتے موضوع کو فریب دیتے ہیں نہ کنی کتراتے ہیں، سطحیت کے بجائے وسعت نظر اور چشم بینا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ یوں سلمان فاروقی سے بیدار مغز سابقین، اور بی اے ناصر و اشفاق خان جیسے پولیس افسران (سول سرونٹ) اور ارم بخاری و حنیف گل سے باوقار و قابل اعتبار لوگ بھی یادوں میں انگڑائی لینے لگتے ہیں جو اس گلستان میں ہیں، تو کانٹوں کی چبھن کے سنگ خوشبوؤں کا اثر و تصور بھی قائم ہے۔

وہ بات کہ جس کا اب تک درج بالا حقیقت میں ذکر نہیں اور جو کشش تاحال سپرد قلم نہ ہوئی، وہ یہ، 22 ویں گریڈ کے اس افسر میں روایتی افسر شاہی نہ تھی، تعلیم دوستی اور حب الوطنی کا بحر بیکراں لگا وہ۔ سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی وکٹ پر عمدہ کھیلے اور ڈویلپمنٹ سے ان کا ماضی کا لگاؤ آج کی جھلک کا ہم پلہ تھا، اور اپنی مثال آپ بھی۔ شاید محققین سی ساری ادائیں اس لئے سمیٹ رکھی ہیں کہ، ایگریکلچرل ریسرچ رگ و پے میں ہے۔

جنگلات اور زراعت کا ڈی این اے کا رشتہ ہے سو اگر دوسری طرف ہمارے پیارے دوست چوہدری امتیاز سیکرٹری نہ ہوتے، تو ہم یہ کہتے کہ جنگلات سے بھی محبت کا بندن باندھ لیجیے آصف صاحب کہ فضاؤں کے پھیپھڑوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے! کم ہی بیوروکریٹ ہوتے ہیں جو محبت کے بندن میں بندھتے ہیں ورنہ صاحبان کو تو افسری پسند ہے سول سروس کی روح نہیں۔ جس منصب پر ہیں اس پر کام تو آصف شاہ کے بے شمار ہیں کیونکہ ایوان صدر کی ایک ریاستی ذمہ داری اور ریاستی بردباری ہوا کرتی ہے۔ لیکن!

لیکن، صاحب جوئے شیر لانے کی جستجو میں دکھائی دیتے ہیں، ان میں سے کچھ امور قانون ساز اسمبلی کی قانون سازی سے متعلق ہیں، اور کچھ ریاستی دلنوازی و دل سوزی کے زمرے میں آتے ہیں :

ان کی تمنا ہے کہ نرسنگ اسٹڈیز کا اہتمام ہو، اور مرد بھی تعلیمی و عملی استفادہ کریں۔

ریاستی فارمیسی کونسل کی کوئی صورت گری ہو کہ ماہر ادویہ، ادویہ سازی اور ادویہ فروخت میں پروفیشنلزم ہو، بے قاعدگی و ناسمجھی نہیں۔

یونیورسٹیوں کی وی سی سرچ کمیٹی وہ جو دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنے والی ہو، اور یونیورسٹیوں کے سربراہان کا قد کاٹھ مقامی کے بجائے عالمی و قومی سطح کا ہو۔

وہ یونیورسٹیوں میں ORIC اور QEC کو بطور لطیفہ نہیں دیکھنا چاہتے گویا پروفیسر کو قیادت کے رنگ روپ میں دیکھنے کے خواہاں لگے! ۔ سوال اٹھانے کی آماج گاہ اور محقق کی آرزو گاہ ہی کو وہ دانش گاہ سمجھتے ہیں۔

وہ خود جس طرح تعصب کی آلودگیوں سے پاک ہیں اسی طرح ہائر ایجوکیشن کو تعصبات سے پاک رکھنے کے درپے ہیں (جو بہرکیف مشکل ترین امر ہے ) ۔

یونیورسٹیوں کے ایکٹ کو وہ دوربینی و خوردبینی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ چاہتے ہیں پروفیسرز کو ایکٹ، رولز اینڈ ریگولیشن کے فرق کا بھی معلوم ہو۔ گویا ثمربار اور شہریار کے سنگم والا ایکو سسٹم کو تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ خواہش یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر آصف وی سی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب، وی سی قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی شاہ، وی سی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر ضیاء القیوم، پروفیسر ڈاکٹر غلام یاسین میاں (سرگودھا یونیورسٹی) ، طارق بٹ KIM اور اکرم سہیل (مظفرآباد) سے گفتگو کے در وا رکھیں تو تعلیمی برکات کی آمد رہے گی۔ (آہ، ہماری اس دفعہ وی سی جامعہ کشمیر ڈاکٹر کلیم عباسی سے ملاقات نہ ہو سکی)

ڈاکٹر آصف شاہ جس طرح بات سنتے ہیں، اور پوری سنتے ہیں، ان سے بات کہی جا سکتی ہے، ان کہی رہ گئی تو زمانے بھر کا نقصان ہے۔ الائیڈ ہیلتھ سائنسز، قومی و بین الاقوامی اداروں کے مابین کنسورشیم سازی، ہائر ایجوکیشن میں انٹر پرنیورشپ، جامعات کا ٹورازم لنک انڈسٹریل لنکس کی طرح کا، جامعات سوک سینس رکھیں اور کمیونٹی سنٹرز ہوں، مرکزی کالج برائے خواتین، گورنمنٹ فاطمہ جناح پوسٹ گریجویٹ کالج فار وومن کو خودمختاری دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، چاہوں گا کہ آپ کی ایک ون آن ون نشست اس ادارے کی سربراہ محترمہ نائلہ مصور سے ہو، پھر گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج کی پرنسپل محترمہ شائستہ صاحبہ سے ایک نشست ہونے بعد سارے کالجوں کا عکس سامنے آ جائے گا، پھر ایک پرنسپل کانفرنس بھی ممکن ہو، ڈی پی کالجز کی خالی ڈیسینسی ڈاکخانہ تو ہو سکتی ہے کسی کامرانی یا ترقی کا باعث نہیں، کگھو کوڑے سے ربط، افسر یا رابطہ کار بے سوڈ ہوتے ہیں یا سفید ہاتھی لہذا ان سے کام لیا جائے یا کام دیا جائے اب سیریمونیل نمائشوں کا زمانہ نہیں ڈیجیٹل دنیا ہے، المیہ یہ کہ، کالجز نظر انداز ہو رہے ہیں اور یونیورسٹیاں پنپنے نہیں رہیں!

پہلے مرحلے میں کیپیٹل کالجز کو توانائی کے اس بحران میں سولر سسٹم پر شفٹ کرائیں، تمام یونیورسٹیوں کو سولر پر جانا چاہیے، یہ بھی سولر پر ادارے انویسٹمنٹ تو کرلیتے ہیں مگر بحال نہیں رکھ پاتے، عارضی یا ڈیلی ویجز پر ایک ٹیکنیشن کی تقرری بچت بھی ہے اور بہت سے سر درد کا علاج بھی۔ تحقیق کے نام پر بننے والے ادارے گر توانائی کے بحران سے لڑ نہیں سکتے تو کیا یونیورسٹیوں کے فزکس ڈیپارٹمنٹ اور کیا انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے؟ سب وائس چانسلرز، پرنسپلز اور ڈینز کو کہیں کہ، جائیے ذرا آئی بی اے سکھر کو دیکھ کر آئیں۔ وہ جو ہمارے ہاں روش ہے کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا، یہی بربادی کے دریچے کھولتی اور ترقی کے باب بند کرتی ہے۔

قبلہ! آپ صرف ایوان صدر ہی کا مرکزہ نہیں چانسلر شپ کا بھی نیوکلیس ہیں سو آپ سا کوئی ملتا ہے تو زنجیر عدل ہلا دیتے ہیں کہ دل کے پھپھولے جینے نہیں دیتے! سب کو عیاں ہے یہ بھی کہ، دانش گاہ والے اپنی بقا اور پلیجر ازم وفا کی بدولت چانسلر آفس کو محض پرستش گاہ بنا بیٹھتے ہیں پس آپ سربراہان اور چانسلر کے درمیان وہ پل ہیں جو تربیت گاہ بھی ہے۔

المختصر، آپ کا کردار ضیائی تالیف کو تقویت بخش سکتا ہے! ایسے دلبر بیوروکریٹس گر میسر رہیں تو گلشن کے کاروبار کو زوال کبھی نہ آئے۔ کاش حکومتیں بھی دریافت اور مردم شناسی میں ماہر ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments