بشیرا اعلانی


بشیر عرف بشیرا اعلانی کسی دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں کا ایک بڑا مشہور و معروف کردار تھا۔ گاؤں میں زندگی ویسے ہی سست روی سے چلتی ہے۔ بشیر عرف بشیرا غربت اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے علم تو حاصل نا کر سکا مگر پاپی پیٹ تو یہ سب نہیں دیکھتا لہٰذا اس نے محنت مزدوری کر کے پیٹ پالنا شروع کر دیا۔ ریڑھی پہ آوازیں لگا کے مختلف چیزیں بیچتا اور ایسے گزر بسر کرتا۔ کچھ عرصہ پہلے تک پرانے دیہاتوں میں یہ رواج تھا کہ شب جمعہ یعنی جمعرات کو بعد از غروب آفتاب مولوی، موذن، متولی یا پھر مسجد کا خادم سپیکر پہ جم جاتا اور چندے کے لیے صدائیں بلند کرنے لگ جاتا۔ اس گاؤں میں کسی نے کسی بھی قسم کا اعلان کروانا ہوتا تو وہ بشیر کو تلاش کرتا اور بشیر مل گیا تو سمجھو اطلاع پورے موضع میں ہو جائے گی۔ کسی کی خوشی، غمی، جنازہ، ختم، مجلس، محفل حتی کہ پولیو کے ٹیکے اور پانی کا خراج ان سب کا اعلان وہ بخوبی کر دیتا۔

اب آتے ہیں اصل معاملے کی جانب۔

اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں کہ جب ہر شے ہماری دسترس میں ہے۔ ایک کلک پہ سینکڑوں ہزاروں میل کے فاصلے ختم ہو جاتے ہیں۔ بیک جنبش انگشت ہم سات سمندر پار کسی سے بھی کانٹیکٹ کر سکتے ہیں۔ جہالت اور جاہلیت والا دور گیا۔ تعلیم کا دور دورہ ہے۔ ریڑھی والے کے پاس بھی آج سمارٹ فون ہے اور وہ انگلش موویز دیکھ رہا ہے۔ لوگ بظاہر ماضی کی نسبت زیادہ سلجھے ہوئے ہیں۔ اگر ایسے میں پرانے وقتوں کا کوئی بادشاہ بھی آ جائے تو شدت حیرت سے دماغی توازن کھو بیٹھے گا کہ اس کے وہم و گمان میں بھی اس قدر سہولیات نہیں تھیں جو آج ایک عام انسان کی دسترس میں ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود آج ہم سب بشیرے بن چکے ہیں۔ ویسے بشیر ہم سب تعلیم یافتہ اور جدید ترقی یافتہ لوگوں سے زیادہ بہتر تھا۔ اسے جو بتایا جاتا وہ کر دیتا اور ظاہری سی بات ہے کہ کسی نے جھوٹا اعلان تو کروانا نہیں ہے۔ مگر یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔

ہم پہ سوشل میڈیا، کا ایسا بھوت سوار ہوا ہے جو اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بطور انسان دیکھیں یا بطور مسلمان کچھ تقاضے ہیں جو بہرطور ہمیں پورے کرنے ہوتے ہیں مگر مجال ہے جو ہمیں ذرا بھی احساس ہو۔ اخلاقی اور معاشرتی اقدار اس قدر زوال پذیر ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ عقل جو کہ رسول باطنی ہے ہمیں بلٹ ان فنکشن کے طور پر ودیعت کی گئی ہے مگر استعمال نا کی جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان بنے 75 سال ہونے کو آئے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم آج تک قوم نہیں بن پائے۔ ایک بے ہنگم ہجوم ہے جو منہ اٹھائے ہر جانب بھاگنے کو ہر لمحہ تیار ہے۔ اس ہجوم کی کوئی اخلاقی و سماجی قدریں نہیں ہیں اور اس حد تک اخلاقی انحطاط کا شکار ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ: ”یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود“

مسلمان تو کیا ہم انسان بھی نہیں بن پائے ابھی تک۔ نیوز چینلز ہیں تو چوبیس گھنٹے سنسنی پھیلانے میں مگن ہیں۔ جس نے زیادہ سنسنی پھیلائی وہی نمبر ون۔ عجیب ہے نا ویسے اگر سوچیں تو۔ مگر ہمارے پاس تو سوچنے کو وقت ہی نہیں ہے نا۔ چلو نیوز چینلز کا تو کام ہی یہی مگر عوام الناس کا کیا کیا جائے!

ہر بندہ یہاں بشیرا بن چکا ہے۔
مگر بشیرے کا تو کاروبار یہی تھا۔ ہر ایک کا تو نہیں ہے نا۔

یار آپ سوشل میڈیا استعمال کرو۔ شغل میلا کرو مگر کیا ہر ایک خبر کو پڑھ کے یا بغیر پڑھے (ثواب کی نیت سے ) فارورڈ کرنا کون سی دانشمندی ہے؟ کیا ایسا کرنے سے کچھ گناہ جھڑ جاتے ہیں یا پھر مفت ایم بیز ملتے ہیں۔ یاد آیا کہ کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچھے خاصے معزز (بظاہر) افراد بھی 100 اور 300 جی بی مفت ملیں گے والے میسجز فارورڈ کر رہے ہوتے ہیں۔ بھئی کیا کر رہے ہو اور کس سمت میں جا رہے ہو۔ ہر طرف سے ہمیں بشیرے گھیر چکے ہیں۔ کوئی ایک خبر آئی نہیں اور انہوں نے ثواب سمجھ کے پھیلائی نہیں۔

سابق آرمی چیف و صدر پرویز مشرف کی وفات کی افواہ چند لمحوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اور یہ پھیلائی انہی بشیروں نے۔ بھئی اگر کسی ایک کا واٹس ایپ پہ سٹیٹس لگا ہوا ہے تو کاپی پیسٹ کرنے سے پہلے اس سے پوچھ تو لو کہ یار اس کا سورس کیا ہے؟ کیا یہ مستند ہے یا نہیں؟ سورس مستند ہے یا بس سنسنی پھیلانے کے لئے ہے! اور کتنی سہولت سے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ کیا یہی کام رہ گیا ہے اب کرنے کو کہ فلاں شخص فوت ہو گیا۔ چلو سب لگ جاؤ سٹیٹس اپڈیٹ کرنے پہ، فلاں کی فلاں کے ساتھ شادی ہو گئی۔ ہو جاؤ شروع شاباش۔

دکھ زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اور اپنے بے تکے فعل کی ایسی ایسی تاویلیں گھڑتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ۔ چلیں رہنے دیں۔ بھئی کیا تمہارا کام اطلاع دینا ہے؟ جاؤ اپنا کام کرو

ہم نئے بشیرے نہیں بنے۔ اس سے قبل بھی ہم علامہ طالب جوہری، علامہ ضمیر اختر نقوی، الطاف حسین وغیرہ کی موت کی خبر بغیر کسی تحقیق کے چلا چکے ہیں۔ مگر ہم نے سیکھنا ہی نہیں ہے۔

اگر سیکھ لیں تو پھر ہم کیسے پاکستانی ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments