یہی تو زندگی ہے


زندگی کو سمجھنے کے لیے انسان کو ہزاروں سال جستجو کرنا پڑی ہے۔ مگر پھر بھی کچھ ایسے لمحات ہوتے ہیں جن کو سمجھا نہ ممکن ہوتا ہے ہزاروں کیا لاکھوں ایسے لوگ جو بنا کچھ حاصل کیے اس زندگی کو الوداع کہتے ہوئے یہاں سے دور چلے جاتے ہیں جن کو بعد میں لوگ فقط اپنی زندگی کی یادوں میں اچھے یا برے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ یہ زندگی کا تسلسل ہے جو کبھی رکنے کا نام نہیں لیتا۔ مگر حقیقی بات کا پتا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہاں پر میں دنیا کی بات تو نہیں کرتا مگر ایک ایسے معاشرے کی بات کرتا ہوں جہاں میں بڑا ہوا ہو محنت مزدوری کی تب ہی مجھے اس معاشرے میں مجھے اپنی ذات کے وجود کو محسوس کرنے کی کچھ صلاحیت حاصل ہوئی۔

اکثر اوقات انسان بڑی مشقت بھری زندگی سے گزرتا بلکہ ہر وقت گزر رہا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں بھی وہ زندگی کے طور طریقے کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ کیو کہ وہ دو وقت کی روٹی اور زندگی کی کچھ ایسی خواہشات جو اسی معاشرے سے جڑی ہوتی ہے۔ اسے کہیں اور جانے کا موقع ہی نہیں دیتی ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہو انسان اپنے گاؤں کی گلیوں اور چوک چوراہوں کو ہی اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ پھر ایک وقت آ تا ہے جب اس کی ذات میں دنیا کی سوچ گھر کرتی ہے۔

اور اس وقت فقط پچھتاوا ہی رہے جاتا ہے۔ اور روایتی سوچ کے مطابق سارے کا سارا ملبہ اسی خالق حقیقی کے نام کر دیا جاتا ہے۔ یہاں ایک ادنی سی سوچ سوال عرض کرتی ہے کیا ہم ہر اپنے منفی پہلو میں اس پاک ذات کو شامل کرتے رہیں گے۔ ہمیں تو اپنی ذات کے لیے آ گے بھڑنے کی جستجو اور فکر کرنی چاہیے۔ تاکہ خود کو اندھیری رات کے حوالے کی گی اپنی زندگی کے اس روشن باب کو پڑھ سکے دیکھ سکے۔ مگر کیا کریں ہم اکثر اوقات اپنی آنکھوں سے اندھے، کانوں سے بہرے، ہاتھ پاؤں سے لولے لنگڑے اور دماغ کے سوچنے کے عمل سے بھی محتاج ہوتے ہیں۔

کیو کہ ہم جانتے ہیں اگر ان سب خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا اگر بر وقت استعمال کر لیا تو ہمیں راتوں کو جاگنا پڑے گا ہمیں سوچ بچار کرنا پڑے گا اور ہمارے اندر انسانیت کا مادہ زندہ ہو جائے گا جو ہمیں اس منفی زندگی سے کہی میل دور لے جائے گا۔ مگر کیا کریں ہم وہ باتیں کیسے بھول سکتے ہیں جو ہمیں بنیادی زندگی میں دکھائی جاتی ہے کہ چھوڑو یار ہمیں کیا مطلب ان کے مسائل سے ان کی اپنی زندگی ہے۔ وہ خود دیکھیں گے۔ شاہد ہم بھول چکے ہیں کہ اللہ کریم کی ذات نے لاریب کتاب قرآن مجید میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی بنایا ہے۔

اگر ہم انسانیت کی تاریخ کی بات کریں تو کہی صدیوں پر مشتمل ہے۔ مگر اس تاریخ میں دو کرداروں کو ہمیشہ زندگی کا حصہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایک مثبت کردار دوسرا منفی مثبت تو دل میں گھر کر جاتا ہے اور منفی میرے لحاظ سے فقط ذہنوں کے فتور میں ہی جگہ بناتا ہو گا۔ اسی لیے اہل دانش لوگ اپنی ذات میں اچھی چیز کو ہی جگہ دیتے ہیں اور وہ ہمیشہ ایک اچھے کردار کو نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری بھی یہ خواہش ہے کہ میں بھی اچھی زندگی جی سکوں اور اچھا کردار ادا کر سکوں تاکہ معاشرے میرے والدین کی تربیت کی مثالیں پیش کی جائے۔ اور یہ مان لیا جائے کہ اولاد حقیقت میں خدا کی طرف ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں یہی تو زندگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments