نامعلوم فضائی و خلائی مظاہر پر مزيد تحقيق کی تیارياں


امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے۔ ’نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن‘ (المعروف ”ناسا“ ) ، نامعلوم فضائی مظاہر ( ”ان آئیڈنٹیفائڈ ایریل فینامنا“ / ’یو اے پیز‘ ) کی نوعیت اور ماخذ کی

جانچ کرنے کے لیے اس برس کے موسم خزاں میں شروع ہونے والی ایک جامع تحقیق کے لیے ایک باصلاحیت تحقیقی ٹیم تشکیل دے رہا ہے، جو آسمان/ فضا میں ایسے واقعات و اجسام کا سائنسی نقطۂ نظر سے مشاہدہ کرے گی، جو نہ کسی بھی قسم کے ہوائی جہاز جیسی کوئی چیز ہو اور نہ ہی پہلے سے معلوم شدہ اور شناخت شدہ قدرتی مظاہر میں سے کوئی حقیقت۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ ممکنہ نامعلوم فضائی یا خلائی مظاہر/ ’یو اے پیز‘ اصل میں ماورائے ارضی ہیں یا نہیں۔

چونکہ ان نامعلوم فضائی مظاہر/ ’یو اے پیز‘ کے مشاہدات کی اب تک دستیاب محدود تعداد فی الحال حتمی سائنسی نتائج اخذ کرنے کے حوالے سے ناکافی ہے، لہاذا یہ تحقیق دستیاب مواد کی شناخت، اس کو اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کے تکنیکی طریقۂ کار کو لاگو کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی، اور یہ طے کرے گی کہ ’ناسا‘ کس طرح ان نامعلوم فضائی مظاہر سے متعلق ملنے والی نئی معلومات اور سائنسی سمجھ کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

فضا میں موجود ممکنہ نامعلوم مظاہر عالمی اقوام کی قومی سلامتی اور فضائی حفاظت دونوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ اس بات کا تعین کرنا کہ آیا یہ واقعات قدرتی دنیا کا حصہ ہیں، یا نہیں، ایسے مظاہر کی شناخت یا تخفیف کے لیے ایک اہم اور پہلا قدم ثابت ہو گا، جو فضا میں اڑنے والے ہوائی جہازوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ’ناسا‘ کے اہم اہداف میں سے ایک ہے۔

آئندہ چند ماہ میں ہونے والی یہ نئی، متنوع اور آزاد تحقیق، سائنسی، فضائی خواہ خلائی اعداد و شمار میں ملکا رکھنے والے ماہرین کے اس موضوع سے متعلق خیالات کو جمع کرے گی۔ ’ناسا‘ کی اس مطالعاتی ٹیم کی قیادت دنیا کے معروف ماہر فلکیات ’ڈیوڈ اسپرگل‘ کر رہے ہیں، جو امریکا کے شہر نیویارک میں قائم ’سائمنز فاؤنڈیشن‘ کے صدر ہیں، اور اس سے قبل وہ امریکی ریاست ’نیو جرسی‘ میں پرنسٹن کے علاقے میں واقع ’پرنسٹن یونیورسٹی‘ میں فلکیاتی طبیعیات (ایسٹرو فزکس) کے شعبے کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ جبکہ اس پراجیکٹ میں ہونے والی تحقیق کو ترتیب دینے کے لیے، ’ناسا‘ کے سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے محقق، ’ڈینیل ایونز‘ بطور ”نائب ڈپٹی ایسوسی ایٹ منتظم“ اپنی خدمات انجام رہے ہیں۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ’ناسا‘ کے ہیڈ کوارٹرز میں سائنس کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر ’تھامس زربوچن‘ نے اس تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ ”سائنسی دریافت کے حوالے سے ’ناسا‘ کے پاس طاقتور وسائل موجود ہیں، جو اس تحقیق کے لئے بھی بروئے کار لائے جائیں گے۔ ہمارے پاس خلا سے زمین کے مشاہدات کی ایک متنوع رسائی موجود ہے اور یہ سائنسی تحقیقات کا جاندار انداز ہے۔ ’ناسا‘ کے پاس ایسا طریقۂ کار، آلات اور اذہان و افرادی قوت موجود ہے، جو ان نامعلوم اجسام یا وجودوں کے بارے میں ہماری سمجھ کو بہتر بنانے میں ہماری معاونت کریں گے۔“

’ناسا‘ نے امریکی حکومت میں وسیع پیمانے پر اتفاق پیدا کیا ہے کہ کس طرح دستیاب سائنسی وسائل و آلات کو ان غیر دریافت شدہ فضائی مظاہر کی نوعیت اور اصلیت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

اسپرگل کے بقول ”مشاہدات کی کمی کو دیکھتے ہوئے، اس ضمن میں ہمارا پہلا کام صرف مضبوط اعداد و شمار جمع کرنا ہو گا، جو ہم کر سکتے ہیں۔ ہم اس تحقیق کی بدولت اس بات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کریں گے، کہ اس موضوع پر کون سا مواد پہلے سے موجود ہے اور ہمیں اور کیا جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور اس کا بہترین تجزیہ کیسے کیا جائے۔“

اس تحقیق کو مکمل ہونے میں تقریباً نو ماہ لگنے کی امید ہے، جو سائنسی، خلائی اور ڈیٹا اینالیٹکس (اعداد و شمار کے گورکھ دھندے ) کے ماہرین کے مشوروں کو یکجا کرے گی، تاکہ اس بات پر توجہ مرکوز کی جائے کہ ان ان دیکھے مظاہر کے مشاہدات کو بہتر اور سب کے لیے کیسے قابل مشاہدہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے سے ’ڈینیل ایونز‘ نے کہا کہ ”ناسا کی، شفافیت اور سائنسی سالمیت کے اصولوں سے ہم آہنگ، اس رپورٹ کی تشہیر و ابلاغ عوامی سطح پر سب کے ساتھ کیا جائے گا۔“

’ناسا‘ کے پاس ایک فعال فلکیاتی پروگرام پہلے سے موجود ہے، جو زمین سے باہر زندگی کی ابتدا، ارتقا اور پھیلاؤ کے بارے میں تحقیق پر دن رات کام کرتا رہتا ہے۔ مریخ پر پانی کے مطالعے سے لے کر، ’ٹائٹن‘ اور ’یورپا‘ جیسی امید افزا ”سمندروں کی دنیاؤں“ کی تحقیقات تک، ’ناسا‘ کے سائنس مشنز زمین سے باہر زندگی کے آثار تلاش کرنے جیسے مقاصد کے حصول میں جٹ کر کام کر رہے ہیں۔

مزید برآں، ’ناسا‘ کی زندگی کی تلاش میں انسان کے لیے قابل رہائش ”ایگزو پلینیٹ“ کی ممکنہ تلاش کے لیے ”ٹرانسٹنگ ایگزو پلینیٹ سروے سیٹلائٹ“ اور ”ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ“ جیسے مشنز اور مہمیں بھی شامل ہیں، جبکہ ’جیمز ویب خلائی دوربین‘ (اسپیس ٹیلی سکوپ) دوسرے سیاروں کے آس پاس کے ماحول میں زندگی کے آثار کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گی۔ ان دوسری فضاؤں میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کر سکتی ہے کہ ایک ”ایگزو پلینیٹ“ ان دنیاؤں میں ہمارے جیسے پودوں اور جانوروں کی زندگی جاری رکھنے میں مدد کرتا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments