سابق چیئرمین پاکستان فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن لاہور، پرویز راہی


رواں سال 26 فروری کو میں اور طفیلؔ ہوشیار پوری صاحب کے صاحبزادے عرفان باری پرویز راہی صاحب کے گھر پہنچے۔ عرفان باری نے ملک کے نامور فلمی صحافی اور محقق کی حیثیت سے ان کا تعارف کرایا کہ انہوں نے فلم انڈسٹری کے لئے بہت معلوماتی پروگرام کیے اور کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں۔ پرویز راہی صاحب عرفان کے بڑے بھائی مقبول سرمد صاحب (م) کے کلاس فیلو تھے۔ ان کی ساری زندگی تحقیق میں گزری۔

راہی صاحب نے اپنے بارے میں بتایا : ”میں لاہور کے موچی دروازے میں پیدا ہوا اور یہیں سے ادیب عالم، منشی فاضل اور ایف اے کیا پھر محکمہ انہار میں اسٹینو گرافر ہو گیا۔ یہاں تین بجے چھٹی ہوتی اور میں فلم انڈسٹری میں آتا۔ میں نے 27 سال سرکاری محکمہ انہار میں گزارے۔ اس کے بعد سعودی عرب میں تیل کی پائپ لائن بچھا نے والی ایک امریکی کمپنی میں فیلڈ اکاؤٹنٹ کی حیثیت سے چلا گیا۔ وہاں میں نے پانچ سال کام کیا۔ 1350 میل لمبی پائپ لائن بچھائی گئی“ ۔

” کیا کسی اخبار میں بھی آپ نے لکھا / ملازمت کی؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میں لاہور کے لئے کراچی سے شائع ہونے والے حکومتی پرچے ’مساوات‘ کا نمائندہ رہا ہوں۔ اس وقت شوکت صدیقی صاحب اس کے ایڈیٹر تھے۔ میں نے اس زمانے میں یہاں بہت سے مضمون لکھے۔ اس دور میں گلوکاروں کو رات کے دس بجے کے بعد پروگرام ملتے اور بہت کم پیسے ملتے تھے۔ میں نے اس کے بارے میں اخبار میں لکھا تو حکومت نے ان کو بھارت اور دیگر ممالک کے دوروں پر بھیجا جہاں انہوں نے بے شمار دولت کمائی۔ فنکاروں میں فریدہ خانم، استاد امانت علی اور استاد فتح علی خان تھے۔ واپسی پر فریدہ خانم میرے پاس آئیں اور ایک لاکھ روپیہ مجھے دیا“ ۔

” گویا اخبار میں آپ کے موضوع سیاسی نہیں بلکہ فنون لطیفہ اور فلم سے ہی متعلق رہے؟“ ۔

” جی ہاں سیاسی نہیں بلکہ فلم کے بارے میں لکھا۔ میری لکھی ہوئی تجویز پر ہی ان فنکاروں کو بیرونی ممالک ثقافتی دورے پر بھیجا گیا تھا“ ۔

” کیا کبھی کسی فلم کی کہانی اور مکالمے لکھنے کا سوچا؟“ ۔

” جی بالکل یہ شوق تھا! ایک دو فلموں کے لئے کام بھی کیا لیکن یہاں لوگ اس قابل نہیں تھے کہ ان کے ساتھ چل سکتا“ ۔

” ارے! وہ کیسے؟“ ۔
” اس وقت فلمی دنیا کے لوگ کم تعلیم یافتہ تھے۔ “ ۔

”“ لکھنے کے شعبے میں کیسے آنا ہوا؟ اور پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز میں میں آپ کا اولین پروگرام کون سا تھا؟ ”۔

” میرا شوق تھا کہ اخبار میں لکھوں اور موقع ملے تو فلمی صحافت میں آؤں۔ سب سے پہلے پی ٹی وی کے ڈائریکٹر فرخ بشیر صاحب نے ایک پروگرام دیا جو سپر ہٹ ہو گیا۔ وہ پروگرام ’سر تصویریں‘ تھا جو میں نے ڈرامے کی شکل میں لکھا۔ اس کے بعد میں نے پی ٹی وی لاہور مرکز میں ریسرچ کے بادشاہ، پروڈیوسر محمود عالی صاحب کے لئے فلمی ڈائریکٹروں پر تحقیق کا کام کیا۔ انہوں نے مجھ سے 80 پروگرام لکھوائے“ ۔

” ابھی انٹر ویو سے قبل گفتگو میں بڑے نامور لوگوں کے نام آئے۔ ان میں سے کس کس کو آپ نے خود دیکھا؟“ ۔
” سب سے پہلے تو میں بی آر چوپڑا کا نام لوں گا“ ۔
بی آر چوپڑا صاحب:
پرویز راہی صاحب کا بی آر چوپڑا صاحب سے ملنا اور دوستی بجائے خود ایک عجیب ماجرا ہے :

” یہ بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے صحافی تھے اور بمبئی میں میرے استاد نصیر عریبین کے پرچے ’آزاد‘ میں لکھتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ میں ان سے ملوں۔ اس وقت میں سعودی عرب میں واقع ’یمبا بحر‘ کی پورٹ سٹی میں امریکی کمپنی کا نمائندہ تھا۔ یہاں کے امریکیوں کے لئے قائم کردہ لائبریری کا نظم و نسق بھی میرے پاس تھا۔ میری نظر سے ایک انگریزی کتاب گزری جس کو پڑھ کے مجھے بے ساختہ چوپڑا صاحب یاد آئے۔ میں نے ان کو سعودی عرب سے ٹیلی فون کیا کہ میں آپ کو ایک کتاب بھیج رہا ہوں۔ پڑھ کر بتائیے کہ کیا اس پر فلم بنا سکتے ہیں؟ انہوں نے اس کو پڑھ کر کہا کہ یہ کہانی میرے دل کو لگی ہے۔ اس کا موضوع بہت اچھا ہے اور میں اس پر ضرور فلم بناؤں گا۔ جب ہٹ ہو گی تو میں آپ کا حصہ بھی نکال کر دوں گا۔ اس کے بعد سے میری چوپڑا صاحب اور ان کی بیوی سے بات چیت ہونے لگی“ ۔

” کیا پھر یہ فلم بنی؟“ ۔
” جی ہاں! “ انصاف کا ترازو ” ( 1980 ) کے نام سے وہ فلم سپر ہٹ ہوئی۔ فلم نے کروڑوں روپے کمائے“ ۔
” کیا انہوں نے اس فلم کے ہٹ ہونے پر آپ کو پیسے بھیجے؟“ ۔

” نہیں! البتہ خط و کتابت شروع ہو گئی۔ جلد ہی ان کی بیوی اور بیٹے نے بھی مجھ سے بات چیت شروع کر دی۔ اب تو چوپڑا صاحب آن جہانی ہو گئے ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں انہیں مسلمان کرتا اور وہ دفنائے جاتے“ ۔

” اندازہ چوپڑا صاحب کے کتنے خطوط آپ کے پاس ہوں گے؟“ ۔
” کوئی پچیس تیس ہوں گے“ ۔
” وہ کن موضوعات پر تھے؟“ ۔
” کچھ گھریلو اور کچھ فلموں سے متعلق تھے۔ “ ۔
” آپ کا رابطہ نامور موسیقار نوشاد علی صاحب سے کیسے ہوا؟“ ۔
اس سوال کے جواب میں جو کچھ پرویز راہی صاحب نے بتایا وہ ایک ہوشربا ماجرا ہے۔ لیجیے آپ بھی سنیے :
نا قابل یقین ماجرا :

” میرے پاس ایک علم تھا۔ وہ یہ کہ آپ اپنا کوئی بھی گراموفون ریکارڈ خود اپنے ریکارڈ پلیئر پر لگا کر بجائیں۔ جب گانا ختم ہو جاتا تو میں اس گراموفون ریکارڈ سے کہتا کہ میرا گانا واپس کرو۔ اب جب دوبارہ وہی ریکارڈ اسی مشین پر لگایا جاتا تو صرف موسیقی ہی سنائی دیتی۔ گلوکار کی آواز اور وہ گانا غائب ہو جاتا۔ میں نے یہ کام موچی دروازے میں رہنے والے اس علم کے ماہر سے سیکھا جو میوزک کی زبان تبدیل کر دیتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے علاوہ ان کے کوئی اور شاگرد بھی تھے؟ پھر میں نے گھنگھرووں پر خود ایک چھوٹا سا تجربہ کیا۔ گھنگھرو بولتے تھے ’السلام علیکم عید مبارک‘ ۔ میں نے گھنگھرو کی آواز کو تبدیل کیا۔ میرے علاوہ وہ تمام افراد جو اس منظر کو دیکھ رہے تھے انہوں نے بھی یہ واضح تبدیل شدہ آوازیں سنیں“ ۔

” موسیقار نوشاد علی جب لاہور آئے تو مجھے ٹیلی فون کیا کہ میں نے آپ کا ایک فلم کلپ دیکھا ہے جس میں آپ نے ایک نئی چیز کی ہے کہ میوزک گاتا ہے! میں وہ ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ جی انشاء اللہ۔ میں مظاہرہ کروں گا۔ میں نے دس پندرہ میوزیشن اکٹھے کیے اور نوشاد صاحب کے پاس پی سی ہوٹل چلا گیا۔ اداکار علا الدین نے نوشاد علی صاحب کے اعزاز میں ان میوزیشن کے ساتھ فلم“ میلہ ”( 1948 ) کا گیت ’یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے۔

‘ سنایا۔ علا الدین نے اس فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔ اس کے بعد اسی گیت کا گراموفون ریکارڈ وہاں پر موجود حاضرین کو سنوایا گیا۔ گانے کے اختتام پر میں نے کہا کہ میرا گانا مجھے واپس لوٹا دو۔ اس پر جب گراموفون ریکارڈ دوبارہ چلوایا گیا تو اس نے وہ گانا لوٹا دیا۔ یعنی اب صرف ساز بج رہے تھے گانے والے کی آواز جاتی رہی اور گانے کے بول بھی سازوں سے ہی بجے“ ۔

” اس مظاہرے کو کیا لوگوں نے فلم بند کیا تھا؟“ ۔
” جی ہاں! ایسا ہی ایک فلم کلپ دیکھ کر ہی تو نوشاد صاحب مجھ سے ملنے آئے تھے“ ۔
” کیا ایسی کوئی یادگار فلم آپ کے پاس ویڈیو کی صورت میں موجود ہے جو ہم بھی دیکھ سکیں“ ۔
” نہیں میرے پاس اب ایسا کوئی فلم کلپ یا ویڈیو ٹرانسفر موجود نہیں“ ۔
” کیا یہ عمل اب نہیں ہو سکتا؟“ ۔

” اب مجھے وہ چیزیں یاد نہیں ہیں جس کو کرنے سے یہ عمل ہوتا تھا۔ ویسے جس جس نے میرے وہ مظاہرے یا وہ فلمیں دیکھیں، وہ پریشان ہو گئے کہ یہ کیسے ہوتا ہے! “ ۔

” یہ نوشاد علی صاحب والی بات اندازہ کتنی پرانی ہو گی؟“ ۔ عرفان باری نے پوچھا۔
” مجھے یاد نہیں“ ۔
” اچھا اس مظاہرے کو دیکھ کر نوشاد علی صاحب کا کیا رد عمل تھا؟“ ۔

” انہوں نے کہا کہ یہ علم تو کسی کے پاس نہیں! یہ میں سیکھ بھی نہیں سکتا کیوں کہ اس میں سالوں لگیں گے۔ میرے لئے یہ ایک نئی چیز ہے! “ ۔

مولانا مودودی نے ڈیوٹی لگائی:

” ایک اور بات بتاتا ہوں : لاہور میں ہمارے موچی دروازے میں ایک ’گجی گلی‘ تھی۔ وہاں ایک صحافی تھے جو کتابیں چھاپتے تھے۔ ان کے دفتر میں جماعت اسلامی کے مولانا مودودی آتے تھے۔ مجھے مولانا صاحب نے کہا کہ میں تمہاری ڈیوٹی لگاتا ہوں۔ یوں کرو کہ اس علاقے میں جہاں سڑکوں کے پاس عمارتیں ہیں وہاں تم بلیک بورڈ بنا دو۔ میں نے 40 بورڈ بنا دیے۔ وہ جمعرات کی رات مجھے حدیثیں لکھ کر دیتے اور میں جمعہ کو ان بورڈوں پر لکھ دیتا۔ ہیرا منڈی میں جب میں احادیث لکھنے جاتا تو وہاں کی خواتین مجھے کھانا کھلاتیں اور چائے پلاتیں۔ پھر جاتے ہوئے میری جیب میں کچھ پیسے ڈال دیتیں کہ غریبوں کو دینا۔ میں نے ان خواتین کو یسرنا القرآن اور بعد میں قرآن مجید لے کر دیے“ ۔

” اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ آپ بہت خوش خط تھے! “ ۔

” پہلے تو میری لکھائی ایسی نہیں تھی۔ ہمارے محلے میں ایک بڑے خطاط تھے میں نے بعد میں ان سے کتابت سیکھی“ ۔

سلطان محمود کا سلطان راہی بننا:
سلطان راہی لوگوں میں تقسیم کرنے کے واسطے مجھے پیسے دیتا تھا۔ وہ میرا شاگرد تھا ”۔
” آپ کا شاگرد؟“ ۔

” یہ ( سلطان محمود ) پنڈی سے لکشمی چوک فلموں میں کام کرنے آیا۔ شاید میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے وہ ملا۔ اس کے پاس رہنے کی جگہ نہیں تھی۔ میں نے اس کا نام پوچھا جو اس نے سلطان بتایا۔ میں نے کہا کہ میں تم کو راہی کا نام دیتا ہوں اور آج سے تم سلطان راہیؔ ہو۔ اپنے دفتر میں انہیں رہنے کو جگہ دی اور اداکاری کے رموز سکھائے۔ پھر خرچا بھی دیتا رہا۔ مقدور بھر کوشش کی کہ اس کو نگار خانوں میں کوئی چھوٹا موٹا کردار مل جائے۔

یوں اس کا فلمی سفر شروع ہوا۔ پھر وہ فلموں اور عوام میں آخر تک سلطان راہی رہا۔ میں جب اسٹوڈیو جاتا اور گھومتا گھماتا اس فلور پر آتا جہاں سلطان راہی کی شوٹنگ ہو رہی ہو تو وہ مجھے دیکھتے ہی شوٹنگ بند کر دیتا تھا۔ اور میری خدمت پر معمور ہو جاتا۔ میں اس کے عروج کے زمانے میں بھی اس کے گھر جاتا اور وہ ہمارے ہاں آتا تھا۔ ایسے موقعوں پر وہ مجھے غریبوں کی امداد کے لئے پیسے دیتا“ ۔

ایک سوال کے جواب میں پرویز راہی صاحب کی صاحبزادی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا:

” فلمی دنیا میں سے صرف سلطان راہی صاحب کو ہی ہمارے گھر آنے کی اجازت تھی۔ در اصل میری والدہ فلم والوں کے لئے تھوڑا سخت گوشہ رکھتی تھیں۔ لیکن ان ہی والدہ نے سلطان راہی کو گھر میں آنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ نہایت شریف انسان تھے۔ وہ ہم بچوں سے بھی بہت اچھے طریقے سے ملتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے ابو نے انہیں اور اپنے کچھ دوستوں کو گھر بلوایا۔ سب سے پہلے سلطان راہی صاحب نے قرآن پاک سے سورۃ رحمن کی تلاوت کی۔ اس کے بعد گپ شپ ہوئی۔ جب بھی ہمارے ہاں آتے ہم انہیں دیکھ کر حیران ہوتے کیوں کے فلموں کے گیٹ اپ اور بڑی مونچھوں کے بغیر ہوتے تھے“ ۔

” اس کے علاوہ فریدہ خانم کے ہاں ابو کا بڑا آنا جانا تھا۔ وہ بھی ہمارے گھر فون کرتیں۔ ہم بچوں میں سے کوئی اٹھاتا تو کہتیں کہ میں تمہاری پھو پھو بات کر رہی ہوں۔ بہت نفیس خاتون ہیں۔ ڈریس ڈیزائنر بی جی بھی ہمارے ہاں آتی رہیں ہیں اور فون پر رابطہ ہے۔ اب تو فریدہ خانم بھی ضعیف ہو گئیں لہٰذا کم کم فون کرتی ہیں“ ۔

” میرے والد صاحب کا ہمیشہ ہی ہم سب سے شفقت آمیز سلوک رہا۔ ہمیں باہر جانا ہوتا تو ہم والد صاحب کو تنگ کرتے۔ امی نہ لے کر جاتیں اور نہ ہی جانے دیتیں۔ ابو کے پاس ایک سکوٹر ہوتا تھا۔ ہم تینوں بہن بھائیوں کو سکوٹر پر بٹھا کر لے جاتے۔ کوئی بچہ روتا تو ابو اسے کاندھے سے لگا کر کہتے چلو میں تم کو سیر کرا لاؤں!

پاکستانی فلمی موسیقار:
” پاکستان کے کن نامور موسیقاروں سے آپ کی ملاقات رہی؟“ ۔

” میرا روزانہ ہی فلم اسٹوڈیوز میں چکر لگتا اس لئے تقریباً سب ہی موسیقاروں کو کام کرتے دیکھا۔ سارے موسیقاروں سے میری سلام دعا تھی۔ ماسٹر عنایت حسین انتہائی نیک انسان تھے۔ نثار صاحب ( نثار بزمی) کام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ اس لئے ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے میوزیشن گھبراتے تھے (قہقہہ) ۔ ناشاد بہت پیارا اور قدر کرنے والا تھا۔ رشید عطرے سے میری روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ ان کے بیٹے وجاہت بھی مجھ سے ملتے تھے۔ میں سمن آباد ان کے گھر بھی جاتا تھا۔ فیروز نظامی بڑے نفیس انسان تھے۔ خواجہ خورشید انور کے دفتر کے ساتھ میرا دفتر تھا اور اکثر ان کے پاس چلا جاتا۔ میں نے انہیں دھنیں بناتے ہوئے بھی دیکھا“ ۔

” کیا یہ بات صحیح ہے کہ وہ کوئی ساز نہیں بجاتے تھے؟“ ۔
” میں نے انہیں کبھی کوئی ساز بجاتے نہیں دیکھا“ ۔
پنجابی اور اردو فلموں کے گیت نگار:

” تنویرؔ نقوی میرا دوست تھا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کا بیٹا بھی میرے پاس آتا رہا۔ انہوں نے کئی ایک گانے میرے سامنے لکھے۔ وہ اتنا اچھا لکھتے تھے کہ میں سوچ نہیں سکتا۔ احمد راہی مزاجاً سخت مگر میرے بڑے اچھے دوست تھے۔ قتیلؔ شفائی سے بھی اچھی علیک سلیک تھی۔ ان کو بھی لکھتے ہوئے دیکھا۔ بابا عالم سیاہ پوش میرے استاد کے شاگرد تھے۔ طفیلؔ ہوشیار پوری کے دفتر میں اکثر جاتا اور کھانا کھاتا جو وہ خود پکاتے تھے! “ ۔

” ارے! خود؟“ ۔
” جی ہاں! سبزیاں، دالیں، گوشت سب ہی کچھ بہت اچھا پکاتے تھے۔ میں نے انہیں بہت دفعہ لکھتے ہوئے دیکھا۔

” طفیلؔ ہوشیار پوری نے سیف الدین سیفؔ کو اپنے کچھ گیت تحفتا دیے تھے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟“ ۔ میں نے راہی صاحب سے سوال کیا۔

” یہ فلم“ ساتھ لاکھ ” ( 1957 ) کے دو عدد گانے ہیں جو طفیل صاحب نے سیفؔ صاحب کو دیے۔ یعنی گراموفون ریکارڈ پر ان گیتوں کے شاعر کا نام سیف الدین سیفؔ لکھا ہے“ ۔

” میڈم نورجہاں کے بارے میں بتائیے؟“

” میں نے نورجہاں کو سامنے گانا ریکارڈ کراتے دیکھا ہے۔ غریبوں کو دینے کے لئے مجھے پیسے دیتی تھی۔ فلم میں کام کرنے والی بوڑھی عورتوں کو میں ان پیسوں میں سے ہر ماہ کی 04 تاریخ کو مہینے بھر کا خرچا دیتا تھا۔

پرویز راہی صاحب کی کتابیں :

” میں نے ’آغا حشرؔ کاشمیری اور مختار بیگم‘ لکھی جس میں عوام کے لئے بے شمار معلومات ہیں۔ اس کے علاوہ میری فلمی تحقیق پر آٹھ دس کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی کتاب ’تخلیق کائنات‘ بھی ہے۔ میری پہلی کتاب ’پنجاب کے فلمی ہیرو‘ تھی۔ اس کے بعد ’دی گریٹ اے آر کاردار‘ ، ’پنجاب کی فلمی تاریخ‘ ، فلم کی لوک داستانیں ’، ‘ سنیما کی آدھی صدی ’، ‘ آواز کے بے تاج بادشاہ ’جو سہگل، رفیع صاحب، طلعت محمود کے بارے میں ہے۔ اسلامی کتاب‘ اللہ میاں ’اور‘ فریدہ خانم ’حال ہی میں آئی ہیں“ ۔

پہلا نگار ایوارڈ:

پہلے نگار ایوارڈ کے انعقاد کے بارے میں راہی صاحب نے حیرت انگیز بات بتائی: ”الیاس رشیدی صاحب ایور نیو اسٹوڈیو لاہور آئے تھے۔ آغا صاحب، علا الدین ، دلجیت مرزا اور انڈسٹری کے سب ہی لوگ موجود تھے۔ پھر پہلا نگار ایوارڈ منعقد کرنے کے لئے پیسے اکٹھے کیے گئے۔ پیسوں اور ہال کا انتظام اداکار علا الدین نے کیا۔ یہ ایوارڈ میں نے بھی دیکھا“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا : ”علا الدین بمبئی میں میرے استاد کے شاگرد تھے۔ لاہور میں وہ میرے بڑے اچھے دوست بن گئے۔ اسٹوڈیوز میں ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ پھر اس کے گھر میں موسیقی کی محفلیں ہوتیں جہاں میں بھی جاتا تھا۔ وہ گانا بہت اچھا گاتے تھے۔ منیر نیازی سے بھی ایسی محفلوں میں میری دوستی بڑھی۔ وہ مجھے اکثر نظم ’دیر ہو جاتی ہے۔ ‘ سناتے تھے۔ سنتوش کمار اور درپن میرے بہترین دوستوں میں سے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سنتوش کی شادی ہمارے موچی دروازے میں ہوئی تھی۔ ان کی ساس میری والدہ کی دوست تھیں۔ سنتوش کے والد بہت اچھے تھے“ ۔

” آپ نے اپنا یہ لکھنے لکھانے اور تحقیق کا فن آگے مزید کتنے لوگوں میں منتقل کیا؟“ ۔
” رشید ساجد صاحب، سعید ساحلی صاحب میرے شاگردوں میں سے ہیں“ ۔
” آپ نے علی سفیان آفاقیؔ صاحب کے ساتھ کام کیا؟“ ۔

” جی ہاں میں نے ان کے ساتھ بہت کام کیا ہے۔ وہ بہت جلدی لکھتے تھے۔ بہت اچھے رائٹر اور اچھی کہانی لکھتے تھے۔ میں ان کے پرچے میں لکھتا رہا ہوں اور پچیس تیس سال گزارے ہیں۔ وہ مجھے دو مضامین لکھنے کے دس ہزار روپے دلواتے تھے“ ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا : ”اس وقت اداکارہ اور گلوکارہ ’ثریا‘ اور گلوکارہ بہنوں ’سرندر کور اور پرکاش کور‘ کے مسودے تقریباً تیار ہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے ان کا مواد حاصل کیا ہے“ ۔

یہ نشست مزید جاری رہتی لیکن پرویز راہی صاحب کو بات کرنے میں دقت محسوس ہو نے لگی لہٰذا ان سے جانے کی اجازت لے لی۔ عرفان باری، میری اور آپ سب کی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو صحت اور عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).