کسی کے مرنے پر کیا لکھا جائے؟ (مکمل کالم)


کیا یہ ضروری ہے کہ کسی کے مرنے پر اس کی مغفرت کی دعا ہی کی جائے؟ کیا کسی کے مرنے سے اس کے تمام گناہ از خود معاف ہو جاتے ہیں؟ کیا مرنے والی کی صرف خوبیاں ہی بیان کی جانی چاہئیں کیونکہ دنیا کا یہی رواج ہے؟ کیا مرنے والا شخص کے مقام کا تعین اس کے اعمال سے نہیں کیا جانا چاہیے جو وہ اپنی زندگی میں کرتا رہا؟ کیا مرنے والے شخص کی ذات کی تمام خرابیاں محض اس وجہ سے بھلا دی جائیں کہ وہ اپنا دفاع کرنے کے لیے اب موجود نہیں؟

23 مارچ 2022 کو ایک عورت چوراسی برس کی عمر میں فوت ہوئی، عورت کا نام تھا میڈلین البرائٹ، یہ امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ تھی، بنیادی طور اس کا تعلق چیکو سلواکیہ سے تھا اور اس کے خاندان کے کئی لوگ جرمن حراستی مراکز میں ہولوکاسٹ کے دوران مارے گئے تھے۔ میڈلین البرائٹ کی وفات پر امریکی سیاست دانوں، میڈیا اور کسی حد تک عوام نے بھی افسوس کا اظہار کیا اور اس کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔ جارج بش، جو بائیڈن، بل کلنٹن، ہلیری کلنٹن، باراک اوبامہ اور ٹونی بلئیر سمیت جمہوریت اور انسانی حقوق کے کئی ٹھیکیداروں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں البرائٹ کو ایک عظیم خاتون رہنما قرار دیا اور کہا کہ وہ جمہوری اقدار کی چمپئن تھی۔ میڈلین البرائٹ نے 1996 میں ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا، انٹرویو کرنے والی بھی خاتون صحافی تھی، اس نے عراق پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں اور عراقی بچوں پر اس کے اثرات سے متعلق سوال کیا کہ ”ہم نے سنا ہے کہ ڈیڑھ ملین بچے مر چکے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ تعداد ہیروشیما میں مرنے والے بچوں سے زیادہ ہے تو کیا آپ کے خیال میں عراق پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں کی یہ قیمت مناسب تھی؟“ البرائٹ نے جواب دیا: ”میرے خیال میں یہ بہت مشکل انتخاب ہے، لیکن قیمت۔ ہمارے خیال میں قیمت مناسب تھی۔“ البرائٹ کے الفاظ میں لکھوں تو اس نے کہا تھا کہ ’We think the price is worth it‘ ۔ اپنے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے البرائٹ نے اس بیان پر کہا تھا کہ اس سے ’لوڈڈ سوال‘ پوچھا گیا تھا تاہم اس نے تسلیم کیا کہ اس کا جواب احمقانہ تھا جس پر وہ معافی مانگتی ہے۔ البرائٹ کی یہ بات درست نہیں کہ سوال غلط انداز میں پوچھا گیا، خاتون صحافی نے ایک سیدھا سادا سوال کیا تھا جس کا البرائٹ نے نہایت پر اعتماد لہجے میں پوری قطعیت کے ساتھ جواب دیا تھا، اصل میں یہ وہ امریکی رعونت تھی جو اس وقت اچانک بے نقاب ہو گئی۔ تعزیت کرنے والے امریکی حکمرانوں نے البرائٹ کی اس سفاکیت پر اظہار خیال کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ ان کے نزدیک بھی غیر امریکی بچوں کا مر جانا کوئی معنی نہیں رکھتا چاہے بے گناہ مرنے والے بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ اب اگر کوئی مجھ سے کہے کہ مرنے والی مر گئی، اب اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، ہمیں اس کی برائی نہیں کرنی چاہیے تو میرا سوال ہو گا کہ پھر تو ہمیں کسی دہشت گرد کے مرنے پر بھی خوشی نہیں منانی چاہیے، جب ہر شخص کا معاملہ اللہ نے روز قیامت دیکھنا ہے تو کیوں نہ ہر دہشت گرد کے بارے میں بھی یہی لکھا جائے کہ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ میڈلین البرائٹ ہو، جارج بش ہو یا ٹونی بلئیر، یہ تمام سفاک دہشت گرد ہیں، ان کو دہشت گرد کہنے میں ہمیں تامل محض اس لیے ہوتا ہے کہ یہ سفید فام ہیں اور سوٹ اور ٹائی پہنتے ہیں۔ اس لیے مجھے کم ازکم میڈ لین البرائٹ جیسی سفاک عورت کے مرنے پر کوئی افسوس نہیں ہوا، خس کم جہاں پاک۔

9 جون 2022 کو ایک شخص پاکستان میں فوت ہوا، اس شخص کا نام تھا ڈاکٹر عامر لیاقت، پاکستان میں شاید ہی کوئی بندہ ہو جو عامر لیاقت کے نام سے واقف نہ ہو، عامر لیاقت کی عمر کچھ زیادہ نہیں تھی اس لیے ان کی موت سے لوگوں کو دھچکا سا لگا، فی الحال موت کی وجہ تو سامنے نہیں آ سکی لیکن خیال ظاہر کیا جا رہا ہے جیسے وہ تنہائی یا ڈپریشن کا شکار تھے اور کسی قسم کی ادویات کے زیر اثر بھی تھے۔ وجہ جو بھی ہو ملک بھر میں ان کی موت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم زیادہ تر لوگ انہیں ایک ایسا شخص قرار دے رہے ہیں جو اپنی شہرت کو سنبھال نہیں پایا اور وقت گزرنے کے ساتھ زوال کا شکار ہو گیا۔ ملک کی ممتاز شخصیات نے بھی ڈاکٹر عامر لیاقت کی وفات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا عامر لیاقت واقعی ایسے انسان تھے جن کے لیے مغفرت کی دعا کی جانی چاہیے؟ ان کی قابلیت میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی اور ان کی ذات کی خرابیاں یا ان کی شادیاں بھی موضوع بحث نہیں ہونی چاہئیں، ایک شخص اپنی ذاتی زندگی میں کیسا ہے، کیا کرتا ہے، کیا کھاتا ہے، کیا پیتا ہے، کتنی شادیاں کرتا ہے، کتنی نہیں کرتا، یہ سب اس کا ذاتی فعل ہے، وہ جانے اور اس کا رب جانے، اب وہ اگلے جہان چلا گیا، وہاں رب اپنے بندے سے کیا معاملہ کرتا ہے، یہ ہم نہیں جانتے۔ بات اگر عامر لیاقت کی ذات تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔

ڈاکٹر عامر لیاقت وہ بندہ تھا جس نے مذہبی منافرت کو ایک نئی بلندی پر پہنچایا، انہوں نے لوگوں پر غداری اور کفر کے فتوے لگائے، لوگوں کی زندگیاں اجاڑ دیں، لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ معمولی باتیں نہیں جنہیں ہم مرحوم کی ذاتی خرابیوں کے کھاتے میں ڈال کر ان کے حق میں دعائے مغفرت کرواتے پھریں۔ عامر لیاقت نے پاکستان کے نوجوان دانش ور اور انسانی حقوق کے علمبردار عمار علی جان کی بیوی کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا، عمار کے خاندان نے اس الزام کے بعد کیا عذاب بھگتا، وہ ایک الگ داستان ہے۔ ’سو لفظوں کی کہانی‘ کے مصنف مبشر زیدی نے، جو ایک صاحب طرز لکھاری ہیں اور بڑی کاٹ دار نثر لکھتے ہیں، عامر لیاقت کی وفات پر ایک مضمون لکھا ہے، جس میں انہوں نے عامر لیاقت کے وہ تمام گناہ گنوائے ہیں جو ان کے ذاتی خرابیوں کے زمرے میں نہیں آتے، مبشر زیدی کا مضمون بہت سخت ہے لیکن انہوں نے جو درست سمجھا وہ لکھا اور پروا نہیں کی کہ لوگ مرنے والے کی صرف تعریفیں ہی سننا چاہتے ہیں۔ بقول منٹو: ’میں ایسی دنیا پر، ایسے مہذب ملک پر، ایسے مہذب سماج پر ہزار بات لعنت بھیجتا ہوں، جہاں یہ اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کا کردار اور تشخص لانڈری میں بھیج دیا جائے جہاں سے وہ دھل دھلا کر آئے اور رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا جائے۔ ‘ عامر لیاقت کا معاملہ بے شک اللہ کے سپرد ہے مگر ان لوگوں کا معاملہ بھی اللہ ہی کے سپرد ہے جو عامر لیاقت کی مذہبی منافرت اور فتوے بازی کا شکار ہوئے۔ بے شک اللہ سب سے بڑا منصف ہے۔

کالم کی دم: 10 جون 2022 کو سابق صدر پرویز مشرف کے خاندان نے ٹویٹ کی کہ ’وہ گزشتہ تین ہفتوں سے اپنی بیماری کی پیچیدگی کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہیں اور ایسے مشکل مرحلے میں ہیں جہاں ان کے اعضا نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، ان کی بحالی صحت اب ممکن نہیں، ان کی آسانی کے لیے دعا فرمائیں۔ ‘ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تھا، پاکستان کی عدالت اسے ماورائے آئین قرار دے کر انہیں آئین کی شق 6 کا مجرم قرار دے چکی ہے، لال مسجد، بلوچستان اور دہشت گردی کی جنگ میں انہوں نے جو کردار ادا کیا وہ علیحدہ سے ایک داستان ہے۔ ذاتی طور ممکن ہے کہ وہ ایک بہترین اور آزاد خیال انسان ہوں، مگر کیا ان کی ذاتی خوبیاں کوئی معنی رکھتی ہیں؟ کیا جنرل ضیا الحق کی شخص خوبیاں ان سے کہیں زیادہ نہیں تھیں؟ کیا ہم ان کے حق میں بھی دعائے مغفرت کریں؟ کیا ہمارا کام اب صرف دعائے مغفرت کرنا ہی رہ گیا ہے؟ ہم کیوں خدا کو سفارش کریں کہ ان لوگوں کو معاف کردے جو اپنی طاقت کے عروج پر ہزاروں، لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اجاڑنے کے ذمہ دار بنے تھے؟ اگر یہ تمام معافیاں عوام نے ہی دینی ہیں تو پھر عوام کو اس کام سے معاف ہی رکھا جائے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments