ماں

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


 

پچھلے دنوں بونیر یونیورسٹی کی ایک طالبہ اپنے شیر خوار بچے سمیت ادارے کے جنریٹر روم میں دم گھٹنے کے باعث وفات پا گئی۔ یہ خاتون وہاں اس لیے موجود تھیں کہ اپنے شیر خوار بچے کو لوگوں کی کھوجتی نظروں سے بچا کے دودھ پلا سکے۔

یہ خبر، چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے جنگل میں کہیں کھو گئی۔ کسی کو احساس نہ ہوا کہ مردوں کی گھورتی نظروں کا شکار ان ماں بچے کا صرف یہ ہی قصور تھا کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو گئے جہاں عورت کے جسم کو کبھی ماں کا جسم نہیں سمجھا گیا۔

ہر بات پر ماں کی گالی دینے والے ہر دوسری عورت کو جھٹ بہن کہہ کے سر پر ہاتھ بھی رکھتے ہیں مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ اسی معاشرے میں عورت کو گھورنا، اس کے ملفوف جسم کو بھی تاڑنا ایک عادت ثانیہ بن چکی ہے۔

شیر خوار بچوں کی ماؤں کو بھی عام انسانوں کی طرح باہر نکلنا پڑتا ہے۔ دفاتر میں کام بھی کرنا ہوتا ہے، پڑھنے والی خواتین پڑھ بھی رہی ہوتی ہیں۔ وہی معاشرہ جو چلا چلا کر یہ کہتا ہے کہ ہم سے زیادہ کوئی عورت کی عزت نہیں کرتا، ان عورتوں کے لیے بچے کے پیدائش پر سال بھر کی چھٹی اور اداروں میں ریٹائرنگ روم کی موجودگی کے لیے کبھی آواز نہیں اٹھاتا۔

باہر کی بات چھوڑیے، گھر کے اندر بھی حالات کیا مختلف ہیں؟ شیرخوار بچے کی ماں گھر کے مردوں سے چھپ کر کہیں بیٹھتی ہے تو یہ بات بہت معیوب سمجھی جاتی ہے کہ بچے کو لے کر کمرے میں چھپ گئی۔

چادروں کی اوٹ میں گرمی سے بلبلاتے، گرمی دانوں میں پھلے شیر خوار بچوں اور ماؤں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ یہ ہی خیال آیا کہ یہ خوبصورت فعل ایک جرم کی طرح کیوں چھپایا جاتا ہے۔

اسی معاشرے میں جہاں سر عام پیشاب کرنے والے مرد ذرا نہیں شرماتے، شیر خوار بچوں کی مائیں کسی اوٹ میں بھی خود کو بے پردہ ہی سمجھتی ہیں۔ ماں بچے کے اس تعلق کو سمجھنے کے باوجود گھورتی نظر کیوں ڈالی جاتی ہے؟

بونیر یونیورسٹی میں پیش آنے والے اس واقعے نے جانے کیا کیا واقعات یاد دلا دیے۔ ماں ہونا آسان نہیں خاص کر اس دور میں جب عورت کی معاشی ذمہ داریاں اسے گھر سے باہر لا رہی ہیں۔

ماں بچے کا رشتہ پہلے ہی بہت مشکلات کا شکار ہے۔ بہت سی مائیں اپنے بچوں کو دودھ ہی نہیں پلا پاتیں کیونکہ ان کے کام کرنے کے اداروں میں ڈے کیئر موجود نہیں۔ معدودے چند جن اداروں میں ہیں ان کے احوال چند ایک کو چھوڑ کر ناگفتہ بہ ہیں۔

گھر پر بچہ چھوڑ کر جانے والی ماں کا دل کیسا بے چین ہوتا ہے یہ ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ گھر پر موجود ملازمہ یا رشتے دار جو بچے کو سنبھالتے ہیں ان کے نخرے تو خیر کیا کہنے۔

اس پر یہ بھی سننا پڑتا ہے کہ کیسی ماں ہے بچے کو چھوڑ سرخی پاوڈر لگا کر، باہر نکل گئی۔ باہر نکلنے والی یہ عورت کبھی بچے کو چھوڑ کر نہ نکلتی اگر اس کے کام کی جگہ پر اس کے بچے کے لیے بھی گنجائش ہوتی۔

ہمارے تمام اداروں، ان گھروں میں جہاں گھر کے کام کاج میں مدد کرنے والی خواتین آتی ہیں، دفتروں، انتظار گاہوں، شاپنگ پلازوں اور دیگر جگہوں پر جہاں ان ماؤں کو جانا پڑتا ہے، بچوں کے لیے بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے۔

ایسے کمرے ہونے چاہئیں جہاں مائیں شیر خوار بچوں کو لے جا سکیں، کچھ دیر چھوڑ کر اپنا کام بھی کر سکیں۔ بونیر کی اس ماں کا درد کم سے کم ہم مائیں تو محسوس کر سکتی ہیں۔

آج سیاست میں ہی نہیں اقتدار میں بھی کتنی ہی خواتین ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ آج عورت کو ماں کے روپ میں بھی تحفظ ملے؟ وہ اپنے شیرخوار کے ساتھ کہیں چھپنے کی بجائے ایک محفوظ ماحول میں بیٹھ سکے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments