خوشحالی کا دور ہنوز دلی دور است


کپتان کے اقتدار کو ختم ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں اور ان دو ماہ میں ہر روز ایک نئی کہانی سننے کو ملی ہے۔ تبدیلی سرکار نا ہوئی گویا عمر و عیار کی زنبیل ہو گئی کہ ہر بار کچھ نا کچھ نیا ہی نکل رہا ہے۔ توشہ خانے کی گھڑی سے شروع ہونے والی کہانی نے نیا موڑ اس وقت لیا جب فرح گوگی نامی خاتون کی ہوشربا کہانیاں سننے کو ملیں۔ فرح گوگی کی مبینہ کرپشن کی داستان سننے کے بعد پتہ چلا کہ اقتدار کے ایوانوں کے چال چلن کیسے ہوتے ہیں۔

ابھی یہ بازگشت کم نہیں ہوئی تھی کہ پانچ قیراط ہیرے کی کہانی بذریعہ آڈیو لیک سنی۔ تاحال محو حیرت ہوں کہ ہیرے جمع کرنے کا شوق کیونکر پیدا ہو گیا۔ مگر عوام کو کیا خبر کہ دولت کے انبار کا نشہ کیا ہوتا ہے اور ویسے بھی ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے ہم جیسے کروڑوں مفلوک الحال لوگوں کو تو دو وقت کی روٹی کے ہی لالے پڑے رہتے ہیں

سر سے لے کر پاؤں تک چومنے والی ویڈیو فیم طیبہ فاروق کو جب میڈیا پر بلایا گیا تو وہ الگ ہی کہانی سنانے بیٹھ گئیں۔ اسی شور شرابے کے درمیان سے ڈاکٹر عامر لیاقت خاموشی سے بھری محفل چھوڑ گئے۔ نصف صدی پر مشتمل سفر کا اختتام اچھا نہیں ہوا مگر کیا کر سکتے ہیں ہم تو وہ کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈوریں کہیں اور بندھی ہیں بس جتنا اجازت ہوتی ہے اتنا ہی ہلتی ہیں اس سے زیادہ نہیں۔

اسی دوران وفاقی بجٹ پیش ہوا اور منظور بھی ہو گیا۔ اس بار عجیب طرز سے بجٹ کا موسم آیا کہ نا تو اپوزیشن کی چیخ و پکار سنائی دی اور نا ہی حکومت کی طرف سے کامیابی کے شادیانے بجائے گئے۔ مطلب موجودہ بجٹ بھی غم و خوشی کے درمیان کی کوئی چیز تھی۔ بجٹ کے بعد توقع تھی کہ کپتان ضرور بولیں گے مگر انہوں نے بھی بنی گالہ میں معاشی ماہرین کے ساتھ بیٹھ کر من پسند میڈیا کے سامنے ہلکی ہلکی ڈھولکی بجائی۔ اس پر حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ شاید اجازت ہی اتنی ملی ہو کیونکہ گھر میں بھی تو رہنا ہے اب بھلا کب تک پشاور میں بندہ مہمان بن کر رہے۔

بہرحال کپتان نے دو باتیں کی ہیں ایک تو یہ کہ معاشی بحران کی وجہ سے طاقتور لوگ بھی پریشان ہیں کہ کیسے اس مشکل سے نکلیں اور دوسری بات یہ کہ بجٹ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ انتخابات جلد ہوں گے اور شاید اگلے ڈیڑھ سے دو ماہ تک نئے انتخابات ہوجائیں۔ دوسری بات زیادہ توجہ طلب ہے کہ شاید یہی وجہ تو نہیں کہ کپتان پرسکون ہیں نا لانگ مارچ اور نا ہی جلسے جلوس کا کوئی پروگرام ہے۔ نا ہی کپتان کی گرفتاری کے لیے رانا جی کی دھمکی آمیز پریس کانفرنسز ہو رہی ہیں۔ جو بھی ہے لگ یہی رہا ہے کہ معاملات طے پا گئے ہیں۔

معاملات تو مخلوط حکومت کے اتحادیوں کے بھی طے پا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین بشمول وزیراعظم اور علیل چوہدری شجاعت جمع ہوئے۔ اور طے پایا کہ مل کر چلیں گے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے مل کر کریں گے۔

عمران پراجیکٹ کی ناکامی کے بعد سنبھلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ساڑھے تین سال میں چو کچھ کیا گیا ہے اس کے آفٹر شاکس ایک مدت تک محسوس ہوتے رہیں گے اور یہ حالات ٹھیک ہو بھی سکتے ہیں اگر معاشی پالیسیوں کو استحکام نصیب ہو گیا۔ وگرنہ ہر آنے والا ہر جانے والے پر ملبہ ڈالتا رہے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میں ذلیل و خوار عوام نے ہی ہونا ہے۔ معاشی حالت بہتر ہو بھی گئی تو ابھی لیے گئے قرض کی ادائیگیوں کا سلسلہ شروع ہونا ہے

مطلب یہ کہ عام آدمی کو خبر ہو کہ اچھے دن ہنوز دلی دور است کی طرح ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کل بھی کسان کھاد کے لیے ذلیل و خوار ہو رہے تھے اور آج بھی کسانوں کا برا حال ہے۔ بجلی، پٹرول اور گیس کے نرخوں میں اضافہ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ بدترین معاشی بحران میں کپتان کی نئے انتخابات کی ضد سے لگتا ایسے ہے کہ جیسے کپتان دودھ اور شہد کی نہریں چھوڑ کر گئے تھے۔

بالفرض کپتان دوبارہ برسراقتدار آ بھی گئے تو کون سا نیا چاند چڑھا دیں گے۔ مقروض معیشتوں میں عوام کو سہولتیں نہیں دی جاتیں بلکہ عوام سے قربانیاں مانگی جاتی ہیں ان قرضوں کی ادائیگی کی خاطر جو انہوں نے لیے ہی نہیں ہوتے۔ جو معاشی بحران شروع ہو چکا ہے اس کے فی الوقت ٹلنے کے امکانات نا ہونے کے برابر ہیں بلکہ اس بحران کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جائے گا اور وہ لوگ جو اب تک بچے ہوئے تھے اس بار وہ بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے

اگر معاشی حالات کو ٹھیک کرنا ہے تو نئے انتخابات اس کا حل نہیں ہیں بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف مل بیٹھ کر معاشی بحران سے نکلنے کی تدبیر کریں۔ الزامات کی سیاست بند ہونی چاہیے۔ عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے متفقہ لائحہ عمل سوچنا چاہیے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا حرج ہے کہ موجودہ معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے آئندہ پانچ سال کے لیے قومی حکومت بنا دی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو اور سب سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ملک کو اس معاشی دلدل سے نکالیں۔

رواں معاشی حالات اور معاشی بحران میں نئے انتخابات بھی بے معنی ہوجائیں گے۔ اب کون سی جماعت ایسی ہے جو اتحادیوں کے بغیر اکیلے حکومت بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اگر آئندہ بھی مخلوط حکومت ہی بننی ہے تو کیوں نا اسی مخلوط حکومت میں تحریک انصاف کو شامل کر کے پانچ سال کا وقت دیا جائے کہ ملکی معیشت کو ٹھیک کریں۔ عام آدمی کو اس معاشی دلدل سے نکالیں۔ بیرون اور اندرونی قرضوں کا دباؤ کم کریں غیر ضروری ترقیاتی منصوبوں اور اخراجات کو کنٹرول کریں۔ تب جاکر شاید حالات بہتر ہوں وگرنہ خوشحالی کا دور ہنوز دلی دور است۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments