یونان میں دس روز


پچھلے مہینے مئی 2022 راقم کو یونان کی سیر و سیاحت کا موقعہ نصیب ہوا۔ ہمارے دس روز یونان کی راجدھانی ایتھنز میں ہی گزرے۔ ٹورنٹو سے ائر کینیڈا کی ایتھنز تک فلائٹ ساڑھے نو گھنٹے کی تھی۔ یہ سفر اس لحاظ سے مشکل اور تکلیف دہ تھا کہ سفر شام کے وقت شروع ہوا اور ساری رات جہاز کی سیٹ میں بیٹھ کر گزارنا پڑا۔ اگرچہ جہاز 777 اور بہت بڑا تھا جس میں پانچ سو سے زیادہ لوگ سفر کر رہے تھے مگر جب رات بستر میں گزارنے کی عادت ہو تو سیٹ میں بیٹھ کر نیند کے بغیر گزارنا کٹھن تھا۔

ایتھنز کے ائرپورٹ سے ٹیکسی کا کرایہ ڈاؤن ٹاؤن ایتھنز ہمارے ہوٹل تک پینتیس یورو تھا۔ ہوٹل میں ہمارے کمرے میں ہر آسائش موجود تھی۔ پہلی منزل پر ریستوران میں آسانی سے کھانا کھا یا جا سکتا تھا۔ ہوٹل کی لابی میں کلرک ہر وقت موجود رہتا تھا اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو وہ ہر وقت حاضر ہو تا تھا۔ اس لحاظ سے سکیورٹی کا بھی اچھا انتظام تھا۔ روانگی سے قبل راقم نے یونان کے متعلق کتابوں کا مطالعہ کر لیا تھا اور فہرست بنا لی تھی کہ ہم نے کون کون سے تاریخی مقامات کی سیاحت کرنی ہے۔

ایکرو پولس Acropolis

ایکرو پولس ایتھنز کی سب سے مشہور اور تفریح والی جگہ ہے۔ کووڈ 19 کے شروع ہونے سے پہلے ایک سال میں یہاں تین سے چار ملین سیاح آئے تھے۔ ایکرو کے معنی ہیں سب سے اونچا مقام اور پولس کے معنی ہیں شہر، یعنی شہر کا سب سے اونچا مقام۔ واقعی یہ اونچا مقام ہے کیونکہ یہ پہاڑیوں کے اوپر واقع ہے۔ یہاں دیکھنے کے کئی مندر اور مقامات ہیں جیسے the Parthenon، the Propylaea، the Erechtheion and the Temple of Athena Nike۔

ہم ہوٹل سے ٹیکسی لے کر یہاں پہنچ گئے۔ داخلہ ٹکٹ دس یورو تھا مگر ایک سے زیادہ شہر کے مقامات دیکھنے ہوں تو اس کی شرح تیس یورو تھی۔ ہم نے تیس یورو کی ٹکٹ خرید لی۔ داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ لوگ ایک پہاڑی پر چڑھ کر گھوم پھر رہے ہیں۔ میں نے پولیس افسر سے پوچھا کہ اس کی کیا اہمیت ہے؟ اس نے بتایا کہ آج سے ڈھائی ہزار سال ایتھنز کی سپریم کورٹ کے اجلاس یہاں ہوتے تھے جس میں ایک جج اور شہری مل کر ملزم یا قیدی کا مقدمہ سن کر فیصلہ سناتے تھے۔ گویا جمہوریت کی ابتدا یہاں سے ہوئی تھی۔

پہاڑ کے اوپر تک جانے کے لئے آرام دہ راستہ اور بعض سیڑھیاں تراشی گئی ہیں۔ نیچے سے دیکھیں سے تو لگتا کہ اوپر تک پیدل جانا مشکل ہو گا مگر جب چڑھنا شروع کیا تو آسان لگا۔ اوپر جانے سے قبل دائیں طرف دیکھا تو ایک پتھر سے بنا رومن تھیٹر نظر آیا۔ اس کی تعمیر 161 بعد مسیح مکمل ہوئی اور تعمیر نو 1950 میں ہوئی تھی۔ اس کا نام اس کے معمار کے نام پر Odeon of Herodes Atticus ہے۔ یہاں میوزک کنسرٹ ہوا کرتے تھے جس میں پا نچ ہزار افراد بیٹھ سکتے تھے۔ آج کل یہاں ایتھنز فیسٹیول منعقد ہوتا ہے جو مئی سے اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ بلندی سے دیکھیں تو نیچے کی طرف جاتا تھیٹر بہت ہی دلکش نظر آتا ہے۔

جس مندر یا یونانیوں کی پرانی عبادت گاہ کے آثار قدیمہ سے ہم سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ پار تھے نان تھا۔ اس کی تعمیر 447 قبل مسیح میں شروع ہوئی اور 432 ق م میں اس کو کھول دیا گیا تھا۔ یہ Athena دیوی کے لئے تعمیر کیا گیا تھا جو عقل و دانش، آرٹس اور لٹریچر اور جنگ کی علامت جانی جاتی تھی۔ اسی سے ایتھنز کا نام مشتق ہے۔ اس کے چا روں طرف اونچے ستون ہیں جن کی اونچائی 14 میٹر ہے۔ قدیم دور میں یہ عمارت ایتھنز شہر کی ریاست کی مذہبی لائف کا مرکز تھی نیز ایتھنز کی طاقت، دولت اور ہائی کلچر کا مظہر۔

اس مند ر کی تعمیر میں تیرہ ہزار چار سو بڑے بڑے وزنی پتھر استعمال ہوئے جن کی قیمت آج کے دور میں سات ملین امریکن ڈالر بنتی ہے۔ اس کے ارد گرد کے ستونوں کی تعداد 46 اور اس کے اندر 19 ستون ہیں۔ یہ تمام ستون جس بنیاد پر کھڑے ہیں وہ 23,000 sq foot ہے۔ عمارت کے چاروں طرف سیڑھیاں ہیں۔ کونے والے ستون ڈایا میٹر میں بڑے بہ نسبت دوسرے ستونوں کے۔ پار تھے نان کسی سیدھی لکیر پر تعمیر نہیں اور نہ ہی اس میں رائٹ اینگلز ہیں جو کہ گریک فن تعمیر کا کارنامہ ہے۔

پرانے زمانے میں پار تھے نان کے اندر ایک درگاہ تھی جس میں ایتھنا Athenaکا مجسمہ رکھا ہوتا تھا جس کا نام Athena Parthenos تھا جس کو Phidias نے لکڑی سے تراشہ تھا۔ یہ اب موجود نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ 39 فٹ اونچا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں یونانی دیوی Nike کا چھ فٹ کا مجسمہ ہوتا تھا۔

چھٹی صدی میں جب بازنطینی حکومت نے یونان پر قبضہ کر لیا تو پار تھے نان کو کرسچن چرچ میں تبدیل کر دیا گیا۔ جب سلطنت عثمانیہ نے پندرہویں صدی میں یونان پر قبضہ کر لیا تو 1458 میں اس کو مسجد بنا دیا گیا مگر بہت ساری کرسچن پینٹنگز اور دوسری مقدس چیزوں کو ویسے کا ویسے ہی رہنے دیا گیا۔ عثمانیوں نے 1687 میں یورپ کے نصرانیوں کے حملہ کے پیش نظر اس کو ایمو نیشن ڈپو اور شیلٹر میں تبدیل کر دیا۔ دشمن نے اس پر توپوں سے گولے برسائے تو بارود کو آگ لگ گئی اور عمارت کو نقصان پہنچا۔

عثمانیوں کے لمبے عرصہ اقتدار کے بعد 1820 میں یونانیوں نے آزادی کی جنگ شروع کی اور پار تھے نان کار زار جنگ بن گیا۔ ٹرکش آرمی سینکڑوں ماربل بلاکس پار تھے نان سے اٹھا کر لے گئی 1834 میں یہ یونان کی حکومت کے زیر انتظام آ گیا۔ پچھلے کئی سالوں سے یہاں ریسٹوریشن کا کام ہو رہا ہے۔ یہاں سے ایکرو پولس میوزیم زیادہ دور نہیں ہے جہاں پرانے نوادرات محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہاں کے sculptures دیکھنے کے قابل ہیں۔ میوزیم کا افتتاح 2009 میں ہوا تھا۔ دس سال میں یہاں 14.5 ملین وزیٹرز یہاں آ چکے ہیں۔

نائیکی کا مندرTemple of Athena Nike

یہ مندر دو یو نا نی دیویوں یعنی ایتھنا اور نائیکی کے ناموں سے منسوب ہے۔ اس کی تعمیر 420 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ مندر ایکرو پولس کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس کے قریب بڑی انگلش اور یونانی مین تختی نصب ہے جہاں اس کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ایکرو پولس پر واقع مندروں میں سے یہ سب سے چھوٹا مند ر تھا۔ اس کی ڈائی منشن کچھ یوں تھیں ۔ 27 فٹ لمبا، 19 فٹ چوڑا، اور 23 فٹ اونچا۔ یونانی میتھالوجی میں نائیکی کے معنی فتح و نصرت کی دیوی ہے۔

مندر کے اندرایتھنا نائیکی کا مجسمہ ہوتا تھا۔ سوائے خاتون پادریوں کے کسی اور کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ عوام باہر ہی عبادت کی رسومات اداکرتے تھے۔ عثمانی ترکوں کے کا نسٹینٹی نوپل پر 1453 میں قبضہ کر نے سے قبل یونان ’با زنطینی حکومت کے زیر انتظام تھا۔ 1686 میں ترکوں نے اس مندر کو مسمار کر دیا تا اس کے پتھروں سے دفاعی حصار بنا یا جا سکے۔ یونان کی آزادی کے بعد 1830 میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

1930 میں مندر کو دوبارہ تعمیر کی گئی۔ کچھ سال قبل عمارت کے پائیدار نہ ہونے کی وجہ سے اس کو تعمیراتی کاموں کے سپیشلسٹوں کی رائے پر اس کے حصے بخرے کر دیے گئے۔ ہر حصے کا مطالعہ کیا گیا اور جہاں مرمت کی ضرورت تھی وہاں کام کیا گیا۔ آخر کار مندر کی ساری عمارت کو reassemable یعنی اوریجنل سنگ مرمر کے پتھروں سے جوڑا گیا، جہاں نیا سیمنٹ لگایا گیا تھا وہ اب دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت یہ مندر اور ارد گرد کا علاقہ سیاحوں کے لئے بند ہے۔ چار گھنٹے پیدل چلنے اور مختلف مقامات کو دیکھنے کے بعد تھکاوٹ کے آثار نمودار ہو رہے تھے اس لئے ہوٹل واپس چلے گئے۔

ایتھنز کی کلاسیکل مارکیٹ Agora of Athens

یونانی زبان میں ایگورا کا مطلب لوگوں کے جمع ہونے کے لئے کھلی فضا والی جگہ کے ہے۔ عام طور پر یہ شہریوں کے لئے ایسی جگہ ہوتی تھی جہاں وہ اعلانات سن سکتے، ملٹری مہموں کے لئے جمع ہوتے، یا پھر سیاست پر بحث و تمحیص کر سکتے تھے۔ بعد میں یہ اوپن ائر مارکیٹ کی جگہ کہلانے لگا۔ ایگورا ہی وہ جگہ ہے جہاں سقراط نے ایتھنز کے عوام سے سوالات کیے تھے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں نوجوان پلے رائٹ آرسٹا کلز ( Aristocles ) نے سقراط کی تقریر پہلی بار سن کر اپنے ڈراموں کو نذر آتش کر دیا تھا۔

اس کے بعد اس نے افلاطون Plato کے نام سے گریک فلاسفی کو محفوظ کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ ایگورا ہی وہ جگہ ہے جہاں فلاسفر سقراط ( 470۔ 399 BC) کا مقدمہ چلا، اس پر فرد جرم عائد کی گئی کہ وہ بے حرمتی Impiety کا مرتکب ہوا ہے یعنی اس نے ایتھنز کے خداؤں کو تسلیم نہیں کیا، نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے اور سٹی سٹیٹ کے مذہب کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ نئے بتوں سے متعارف کیا ہے۔ شہریوں کی اکثریت نے ووٹ کے ذریعہ فیصلہ سنایا کہ اس کی سزا موت ہے اور اس کو زبردستی زہرbeverage of hemlock پینے پر مجبور کیا گیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس کا مشہور زمانہ شا گرد افلاطون تھا۔

ایکرو پولس کے شمال مغرب کی طرف پہاڑ سے نیچے دیکھیں تو ایتھنز کی قدیم مارکیٹ کی عمارت نظر آتی ہے جو مستطیل شکل میں ہے۔ اس عمارت کے بھی پار تھے نان سے ملتے جلتے سنگ مرمر کے ستون ہیں۔ قدیم دور میں یہ مارکیٹ تھی نیز یہاں عوام الناس جمع ہوتے اور اجلاس منعقد کیا کرتے تھے۔ یہ ایگورا چھٹی صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کے ارد گرد ہموار زمین پر انتظامی اور عدالتی پبلک بلڈنگس اور ورک شاپس، تقریر و مباحث کے لئے جگہ، اور مندر بنائی گئیں تھیں۔

اس کی لوکیشن بہت اہم تھی، یہ علاقہ شہر کے مرکز ( ڈاؤن ٹاؤن یا ٹاؤن سینٹر) اور زرعی زمینوں اور کھیتوں سے فصل لا نے کے لئے بھی بہت قریب تھا۔ اس عرصہ میں ایگورا کے کلچرل، پولیٹیکل، اور اکنامک انفلوئنس نے آنے والے دور جس کو ہم ویسٹرن سولائزیشن کہتے ہیں گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ دانشور یہاں سقراط اور افلاطون، ارسطو کے نظریات پر بحث مباحثہ کرتے، عدالتوں اور قید خانوں نے ایتھنز کے قوانین کو لا گو کیا بلکہ یہاں کے سکہ ڈراخما کو ایجن سمندر کے سارے علاقے میں قبول کیا جاتا تھا۔ ایتھنز کے شہری سال میں ایک دفعہ Panathenaic festival کا جلوس نکالتے جو ایگورا سے چل کر ایکرو پولس پر ختم ہوتا تھا۔

ایرانی بادشاہ Xerxes کے ایتھنز پر 480 BCE میں حملہ کے دوران ایگورا کے مغرب میں واقع تمام عمارتیں مسمار کر دی گئیں۔ مگر اس کے جلد بعد تمام علاقے کی عمارتیں دوبارہ تعمیر کی گئیں۔ ڈھائی ہزار سال میں اس کی عمارتیں کئی بار تعمیر ہو کر مسمار ہوئیں۔

آج کل عمارت کے اندر شاندار میوزیم ہے جس میں سات سے پانچ صدی قبل مسیح، یو نانی، نیز بازنطینی دور اور ترکش دور حکومت کے مٹی کے برتن (پاٹری) اور دیگر نوادرات رکھے ہوئے ہیں۔ ہر چیز کانچ کے شو کیسز کے اندر محفوظ کر دی گئی ہے۔ اس کے عین سامنے میونسپل دفاتر ہوتے تھے جن کی بنیادیں اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ گویا یہ قدیم دور کا ڈاؤن ٹاؤن تھا۔

نمائش کے لئے رکھی دیگر اشیاء کے دیکھنے سے انسان کو ایتھنز کی پبلک لائف اور پرائیویٹ لائف کی جھلک نظر آتی ہے۔ 2012 میں یہاں کھدائی کے بعد جو Sculptures دریافت ہوئے وہ بھی یہاں نمائش کے لئے دبیزگلاس کے شو کیسز میں رکھے ہوئے ہیں۔ بلڈنگ سے ملحق بر آمدے میں بڑے بڑے مجسمے تھے جن میں سے Aphrodite ایک کا سنگ مرمر کا مجسمہ تھا۔ افروڈائٹ محبت اور فرٹیلٹی (افزئش نسل) کی دیوی تسلیم کی جاتی تھی۔

کچھ ہی فاصلے پر چھوٹی پہاڑی پرایک مندر Temple of Hephaestusہے جس کی تعمیر 415 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ یہ دیوتا Hephaestus کرافٹ مین شپ، میٹل ورکنگ اور آگ کا دیوتا تھا۔ مندر کے قریبی علاقے میں میٹل ورک شاپس اور پاٹری ورک شاپس کثیر تعداد میں ہوتی تھیں۔ مندر کی شمال سے جنوب تک لمبائی 14 میٹر، اور مشرق سے مغرب تک 32 میٹر تھی۔ سامنے مشرق اور پیچھے مغرب میں چھ ستون جبکہ شمال اور جنوب میں دونوں طرف 13 ستون تھے۔

یہ ڈھائی ہزار سال سے ویسے کا ویسا ہے اس میں کوئی خردبرد نہیں ہوا۔ بائیبل کیBook of Acts 17 : 16۔ 33 کے مطابق حواری سینٹ پال c۔ 5۔ c۔ 64 CEنے ایتھنز کے عوام کو نصرانیت کی تبلیغ کی اور اسی مندر سے متعارف کرایا تھا۔ سینٹ پال جب یہاں آیا تو اس نے ایگورا کو مصروف ترین جگہ پایا جہاں یونانی اور رومن دیوتا اور دیویاں اور ان کے ہیروز کے مجسمے چپے چپے پر رکھے ہوئے تھے۔

ساتویں صدی سے لے کر 1834 تک یہ مندر گریک آرتھو ڈاکس چرچ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا تھا۔ یونانی انقلاب اور 1821 کے بعد یونانی افواج اور عثمانی ترک افواج کے مابین یہ علاقہ کار زار جنگ رہا۔ مندر سے نکل کراس کے دائیں ہاتھ کی طرف سے جائیں تو ایتھنز کے عہد قدیم کے میونسپل دفاتر کی عمارتوں کی بنیادیں نظر آتی ہیں۔ بڑی ترتیب اور نفاست سے شہر کی تشکیل کی گئی تھی۔ ہر طرف بے شمار درخت ہیں اور آرام کر نے کے لئے بینچ رکھے ہوئے ہیں۔ آج یہاں درجہ حرارت 28 سینٹی گریڈ تھا۔

جہاں اولمپک گیمز شروع ہوئیں

ایتھنز میں اولمپکس گیمز 776 قبل مسیح میں شروع ہوئی تھیں اور اگلے 1200 سال تک یہ ہر چار سال بعد کھیلی جاتی رہیں۔ ایتھنز میں عہد قدیم کی اولمپکس مذہبی تہوار کا حصہ تھیں جو یونانی دیوتاؤں اور دیویوں کے باپ Zeusکی آنر میں منعقد ہوتی تھیں۔ جس جگہ پر یہ کھیلی جاتیں اس کا نام اولمپیا Olympiaتھا۔ یہاں جو یونانی کھلاڑی Sanctuary of Zeus میں آتے وہ سارے کے سارے مرد کھلاڑی ہوتے تھے۔ اولمپیا کا نام قریب میں واقع Mt۔ Olympus کے نام پر تھا۔

ہم سب وے (جس کو یہاں میٹرو کہا جاتا ہے ) لے کر ’موناسٹراکی‘ سٹیشن پر اتر گئے۔ ایک صاحب سے اولمپک سٹیڈیم تک جانے کے لئے راستہ پوچھا تو اس نے عمدہ انگلش میں راستہ سمجھا دیا کہ وہاں جا نے کے لئے راستہ بڑے پارک میں سے جاتا ہے۔ یہاں قیام کے دوران جتنے لوگوں سے بات کی یا راستہ پوچھا سبھی اچھی انگلش بولتے تھے۔ پارک میں درجنوں گھنے سایہ دار درخت تھے۔ بعض پر مالٹے لدے ہوئے تھے۔ ہر چوراہے پر Kiosk ہیں جہاں پینے کے لئے پانی پچاس پینی میں مل جاتا ہے۔ بلکہ پارک میں ایک جگہ تو ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا فوارہ لگا ہوا تھا جہاں تھوڑی دیر سستانے اور پانی پینے کے بعد آگے چل دیے۔

Zappeion

نیشنل گارڈنز آف ایتھنز میں سے گزرتے ہوئے ایک بڑی عمارت نظر آئی جس کے اوپر Zappeion کندہ کیا ہوا تھا۔ یہ دیدہ زیب عمارت ماڈرن اولمپک گیمز کے احیائے ثانی کے لئے تعمیر کی گئی تھی۔ اس کا سنگ بنیاد 1874 میں رکھا گیا اور 1888 میں مکمل ہوئی تھی۔ 1896 کی ماڈرن اولمپک گیمز میں یہ Fencing کے کھیل کے لئے استعمال کی گئی تھی۔ دس سال بعد یہ عمارت اولمپک ولیج کے طور استعمال کی گئی۔ 1938 میں یونان کا پہلا ریڈیو سٹیشن یہاں قائم ہوا تھا۔ 2004 کی اولمپک گیمز میں یہ بلڈنگ پریس سینٹر کے طور پر استعمال ہوئی تھی۔ 1979 میں جب یونان نے یورپین یونین شمولیت اختیار کی تو یہاں پر دستاویزات پر دستخط ہوئے تھے۔

اولمپیئن معبد اور ہیڈرین گیٹ

یہاں پارک میں گزرتے ہوئے جونہی سڑک پار کی تو سامنے ماڈرن اولمپک گیمز کا سٹیڈیم آ گیا۔ یہاں پر 1896 میں ماڈرن اولمپک گیمز کھیلی گئی تھیں۔ سٹیڈیم کے باہر یونانی جھنڈے لہر ا رہے تھے۔ یہاں پر میوزیم کو دیکھنے کے لئے دس یورو کا ٹکٹ تھا۔ مجھے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں بلکہ میں وہ اصل جگہ دیکھنے کا متمنی تھا جہاں ڈھائی ہزار سال قبل گیمز شروع ہوئی تھیں۔ کوئی دس منٹ پارک میں سے گزرنے کے بعد مطلوبہ مقام آ گیا جس میں داخلے کے لئے ہمارے پاس ٹکٹ پہلے سے ہی تھا۔

اولمپک گراؤنڈ کو دیکھنے کے لئے گیٹ کے اوپر کند ہ تھا: Olympieion۔ Hadrian ’s Gate۔ اس کے نیچے اولمپئین زوسOlympian Zeus کے معبد یا عبادت گاہ کی تاریخ یونانی اور انگلش میں ایک بورڈ کے اوپر درج تھی۔ اولمپک گراؤنڈسے ملحق اولمپئین معبد Temple of Zeus کی عمارت ہے جس کے بازو میں ہڈرین گیٹ بھی ہے۔ اس معبد کی تعمیر چوتھی صدی قبل مسیح میں شروع ہوئی اور شہنشاہ ہیڈرین کے دور حکومت میں 131 ق م میں مکمل ہوئی تھی۔ مندر کے اندر دیوتا‘ زووس ’کا 43 فٹ اونچا مجسمہ ہوتا تھا جو قدیم دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تھا۔ اس کو بنانے میں 13 سال لگے تھے۔

عہد قدیم کی اولمپک فیلڈ کوئی تین فٹ بال کے سائز کی ہوگی۔ اس وقت پرانے دور کی عمارتوں کی بنیادیں نظر آتی ہیں۔ مگر انسان چشم تصور میں وہ وقت دیکھ سکتا کہ جب یہاں کھلاڑی کھیلوں کے لئے تیار ہو کر آتے تھے۔ ہرکوئی چاق و چوبند، جیت اور انعام کا متمنی۔ سورج اپنی تمازت پر تھا فیلڈ میں گھومنے کے بعد میں درختوں کے سائے میں بیٹھ گیا اور خیالات میں گم ہو گیا۔ پچھلے 2,798 سال میں کتنے لوگ یہاں اس جگہ پر آئے ان کے قدموں کے نشان مٹ چکے ہیں مگر کچھ کے نام تاریخ میں امر ہو چکے ہیں۔ میری طرح کتنے وزیٹر یہاں آ چکے ہیں اور میرے جانے کے بعد اگلے ہزار سال میں یہاں کتنے اور آئیں گے۔ وقت کا پہیہ یو نہی گھومتا رہیگا۔

ہیڈرین گیٹ یا آرچ Hadrian Gate

اولمپک فیلڈ میں کھڑے ہوں تو سامنے Hadrian Gateنظر آتا ہے جو بادشاہ ہیڈرین کی یاد میں 131 AD میں تعمیر کیا گیا تھا کیونکہ اس نے ایتھنز میں بہت سارے پبلک ورکس کے کام کیے تھے۔ یہ یادگار 18 میٹر اونچی، 14 میٹر چوڑی ہے۔ اگرچہ وہ رومن شہنشاہ تھا مگر اس نے ایتھنز کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ اس قسم کی Triumphal arches عہد قدیم کے روم میں کسی نئی عمارت یا پل کے بننے پر ، ، ملٹری جنرلز کی یاد میں، شاہی خاندان کے کسی فرد کو موت پر تعمیر کی جاتی تھیں۔ یہ یادگار سنگ مر مر سے بنی ہے جس سے پارتھے نان تعمیر کیا گیا تھا۔ ہمارے دور میں اس قسم کی آرچز پیرس Arc de Triomphe، لندن، روم Arch of Constantine اور سینٹ پیٹرز برگ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ارسطو کی قدیم یونیورسٹی :لائی سی عم Aristotle ’s Lyceum

یونان کا شہرہ آفاق فلاسفر اور اور مشائیہ سکول Peripetatic school کا بانی ارسطو 384۔ 322 BCتھا۔ اسلامی دنیا میں اس کا تعارف ابن رشد کی ان تفا سیر سے ہوا جو اس نے اس کی کتابوں کی تین قسم کی تفاسیر یعنی صغیر، وسط، اور کبیر لکھی تھیں۔ اس لئے یورپ میں ابن رشد کو ارسطوے ثانی کا لقب دیا گیا تھا۔ ارسطو جب سترہ یا اٹھارہ سال کا تھا تو اس نے افلاطون کی اکیڈیمی میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور 37 سال کی عمر تک یہاں تحصیل علم کر تا رہا۔

افلاطون کی وفات کی جلد بعد اس نے میسے ڈونیا کی بادشاہ فلپ دوم Philip II of Macedon کی استدعا پر 343 قبل مسیح اسکندر اعظم کی ٹیوٹرنگ شروع کی۔ افلاطون کی اس شاگرد رشید نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا جیسے فزکس، بائیولوجی، زوآلوجی، منطق، اخلاقیات، اقتصادیات، شاعری، تھیٹر، میوزک، سائیکالوجی، سیاسیات، لسانیات، جیولوجی اور حکومت۔ اس کے نظریات نے عہد وسطیٰ کے یورپ پر گہرے اثرات مرتسم کیے ۔ فز یکل سائنس میں تو اس کا اثر یورپ کی احیائے ثانی تک قائم رہا۔ عہد وسطیٰ میں 800۔ 1400 اس کے فلسفیانہ نظریات نے یہودی اور مسلمان فلاسفروں اور دانشوروں نیز کرسچن تھیالوجی کو عمیق رنگ میں متاثر کیا۔ عہد وسطیٰ کے مسلمان سکالرز نے اس کو The First Teacher کا لقب عطا کیا تھا۔ منطق میں بھی اس کا اثر انیسویں صدی تک رہا۔

اس نے ایتھنز میں ایک یونیورسٹی Lyceumکی داغ بیل ڈالی (یورپ میں آج کل سیکنڈری سکول) جس کی لائبریری نے اس کی بے شمار کتابوں کو papyrus scrolls پر شائع کر کے محفوظ کر دیا۔ ان لا زوال اور عظیم الشان کتابوں میں سے صرف ایک تہائی زمانے کے ہاتھوں خرد برد ہونے سے بچ سکی ہیں۔

آج جمعے کا روز تھا۔ نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے ادھیڑ عمر ٹیکسی ڈرائیور کو Lyceum کا سٹریٹ ایڈریس دیا اور منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گئے۔ کا ر کا جی پی ایس شاید پرانا تھا ڈرائیور بار بار سڑک کا نام بولتا تھا تا ڈائریکشن لے سکے۔ اللہ اللہ کر کے کوئی بیس پچیس منٹ کے بعد اس نے ہمیں اتار دیا اور کہا کہ کسی سے پوچھ لو۔ ایک صاحب نے کہا اس سمت میں جاؤ تو وہ جگہ آ جائے گی۔ کچھ اور آگے گئے تو ایک صاحب سے راستہ پوچھا تو وہ اچھی انگلش بولتا تھا۔ کہا میرے ساتھ آؤ، کچھ ہی دور ہے۔ اس نے پوچھا کیا انڈیا سے آئے ہو۔ میرے مثبت جواب میں اس نے کہا ویلکم۔ سڑک پار کی تو سامنے لائی کیم کا گیٹ تھا۔ ٹکٹ دکھا یا اور احاطہ کے اندر چلے گئے۔

آرکیالوجیکل سائٹ کے شروع ہونے سے قبل ایک سائن بورڈ نظر آیا جس کے اوپر لکھا تھا کہ اس جگہ کی دریافت 1996 میں ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ کھدائی کے مختلف ادوار کی تصاویر دی گئیں تھیں۔ تین جگہ پر مجھے تہ خانے نظر آئے جن کو کانچ سے ڈھکا ہوا تھا تا بارش یا طوفان سے مزید کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یوں لگتا تھا کہ کھدائی کا کام ابھی بھی جاری ہے۔ درمیان میں ایک بڑی گراؤنڈ تھی جس میں متعدد کمروں کی پرانی بنیادیں تھیں۔

یوں لگتا تھا کہ یہاں متعدد کلاس روم تھے۔ پرنسپل کا دفتر تھا۔ کوئی پانچ چھ افراد ہماری طرح سیاح نظر آئے۔ ہر طرف درخت ہی درخت تھے۔ دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لئے ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گیا اور خیالات کی دنیا میں گم ہو گیا۔ یہ وہ تعلیمی ادارہ (یونانی Lykeion) ہے جس نے دنیا کے نظریات، خیالات، تصورات میں انقلاب بر پا کر دیا۔ بچپن سے ارسطو کا

نام سنتے آئے تھے کہ کس طرح مسلمانوں نے 800۔ 1000 کے عرصہ میں ہر علمی موضوع پر اس کی کتابوں کے یونانی سے تراجم کیے اور اسلامی دنیا میں احیائے ثانی کا آغاز ہوا۔ میں نے تمام علاقے کی متعدد تصاویر لیں جو اب میرا سرمایہ حیات ہیں۔

جزیرے کا سفر Aegina Island

ایتھنز ایجئین سمندر Aegean Seaکی بندرگاہ ہے۔ تا ریخی لحاظ سے ایجئین سمندر قدیم یونان کے لئے زبردست اہمیت کا تھا۔

یہ 380 میل لمبا اور 186 میل چوڑا ہے۔

آج جی میں آیا کہ پاس میں کوئی Beach یا ساحل سمندر ہو تو وہاں کی سیر کی جائے۔ ہوٹل کے فرنٹ ڈیسک نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم Elliniko کی طرف جانے والی میٹرو ٹرین لے کر Neos Kosmos سٹیشن پر اتر جائیں تو وہاں سے ٹرام (سٹریٹ کار) سے بیچ تک پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ ایک گھنٹے میں ہم بیچ Beachپر پہنچ گئے۔ ٹرام لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مجھے بندر روڈ کراچی پر چلنے والی ٹرام یاد آ گئی جب میں ٹاور سے صدر تک آیا کرتا تھا۔

پھر زیورخ شہر کی ٹرام بھی یاد آئی جس کے ذریعہ میں نے 1970 کے شروع میں کئی مہینے سفر کیا تھا۔ ہر طرف لوگوں کا اژدھام تھا۔ بچے پانی میں والی بال کھیل رہے تھے۔ کچھ لوگ BBQکر رہے تھے۔ اور کچھ یونہی ساحل سمندر پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ پانی میں پاؤں رکھا تو سخت ٹھنڈا تھا۔ پھر ساحل کے پاس پانی میں پتھر بھی بہت تھے جن کے اوپر چلنا دشوار تھا۔ ہر کوئی خوش باش نظر آ رہا تھا۔ کھلی فضا کا اپنا ہی مزہ ہے اور سامنے دور تک نہ ختم ہونیوالا سمندر ہو تو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ پانی سے آتی ہوئی نسیم دل اور روح کو فرحت بخشتی ہے۔ ماحول کا انسان پر اثر گہرا اور دیر پا ہوتا ہے۔ پھر بیچ کا خیال آتے ہی انسان کہہ اٹھتا : دل کے بہلانے کو غالب یہ کام اچھا ہے۔ آئس کریم کھائی اور کچھ دیر گھومنے کے بعد ٹرام اور میٹرو ٹرین لے کر ہوٹل واپس آ گئے۔

آج ہمارا Aegina Island جانیکا ارادہ تھا۔ ہمیں بتا یا گیا کہ ہم Piraeus میٹرو سٹیشن پر اتر جائیں تو وہاں سے ہمیں جزیرے تک جا نے کے لئے موٹر بوٹ، کشتی) مل جائے گی۔ میٹر و سٹیشن سے باہر نکلے تو لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ جگہ جگہ پر ایسے سٹورز تھے جہاں سے جزیرے تک جانے کے لئے ٹکٹ خرید سکتے تھے۔ ٹکٹ تیس یورو تھا۔ موٹر بوٹ نے دو بجے گیٹ نمبر 8 سے روانہ ہونا تھا اور واپسی چار بجے کی تھی۔ دس منٹ چلنے کے بعد ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں پر دیو قامت بڑے کروز والے بحری جہاز کھڑے تھے۔

تھوڑی دیر بعد ہماری بوٹ اپنی مقررہ جگہ پر آ گئی جس کے اوپر بڑے خوشنما حروف میں لکھا ہوا تھا: Aegean Flying Dolphin۔ کشتی پر سوار ہو نے کے لئے کوئی سو کے قریب مسافر تھے۔ ہر ٹکٹ پر سیٹ نمبر لکھا ہوا تھا اور لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر جا کر براجمان ہو گئے۔ عین وقت پر بوٹ روانہ ہوئی۔ راستے میں پانی کی لہروں اور تھپیڑوں سے بل کھاتی یہ کشتی چالیس منٹ کے بعد جزیرے پر پہنچ گئی۔ سا حل پر بے تحاشہ ریستوران تھے جہاں انواع و اقسام کے لنچ کے لئے کھانے پیش کیے جا رہے تھے۔

ہمیں دور سے بیچ نظر آئی اور وہاں پہنچ گئے۔ کوئی ایک درجن کے قریب افراد پانی میں نہا رہے تھے۔ بچوں کے ساتھ ان کے والدین تھے۔ گرمی جوبن پر تھی اس لئے پارک میں ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔ سمندر کا پانی پر سکون اور بڑا ہی دلفریب تھا۔ حد نگاہ تک نیلے رنگ کا پانی۔ قریب ہی آئس کریم کی دکان تھی وہاں سے آئس کریم لی اور اس سے لطف اندوز ہوا۔ پینے کے لئے پانی خریدا۔ جزیرے پر بھی ٹیکسیاں نظر آئیں۔ سائیکل بھی کرایہ پر لے سکتے تھے۔

جب بھوک ستانے لگی تو ایک ریستوران پر لنچ کے لئے رک گئے۔ میں نے Lamb Chops اور گریک سلاد آرڈر کر دیا۔ کھانا بہت مزیدار تھا۔ یہاں یونان میں لوگ ٹماٹر بہت کھاتے ہیں اور ان کا سائز بھی سیب کے برابر ہوتا ہے۔ کھانے میں لیموں بھی ضرور دیتے ہیں۔ سلاد کے اوپر فیٹا Feta چیز ڈالا ہوا تھا۔ کھانے کے بعد جب پیسے دینے ریستوران کے اندر گیا تو ویٹر نے پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ میں نے جواب دیا کینیڈا۔ اس نے کہا باہر ایک شخص بیٹھا ہے جو کینیڈا میں رہ کر اب یہاں رہتا ہے۔ وہ شخص بڑی گرم دلی سے پیش آیا۔ اس نے پچیس سال لندن (اونٹاریو ) میں ملازمت کی تھی اور اب جزیرے پر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا تھا۔ ہم کینیڈا کی باتیں کرتے رہے کہ اس کے جانے کے بعد کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس ہنس مکھ، جہاں دیدہ یونانی سے مل کر طبیعت شاداں و فرحاں ہو گئی۔

کھانے کے بعد واک کے لئے ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ چلتے گئے، ہر طرف کشتیاں ہی کشتیاں تھیں۔ ہر کوئی اپنے کام میں مگن مگر خوش نظر آتا تھا۔ چار بج رہے تھے ہم متعینہ مقام پر پہنچ گئے جہاں Flying Dolphin Boat نے لنگر انداز ہونا تھا۔ واپس جانے کے لئے مسافر قدرے کم تھے۔ چالیس منٹ بعد ہم مین لینڈ پر اترے اور میٹرو سٹیشن کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک فروٹ والا نظر آیا اس سے سٹرا بیری، اور سیب خریدے۔ دونوں پھل تازہ، شیریں روح افزا، اور دل افروز نکلے۔

میوزیم آف اسلامک آرٹ Benaki Museum

میٹرو سٹیشن Monastraki سے اتر کر ایک سٹور کے مالک سے ایتھنز کے میوزیم آف اسلامک آرٹ کا راستہ پوچھا جو کہ 22 Ag۔ Asomaton پر واقع ہے۔ اس نے بتایا یہاں سے پندرہ منٹ کی واک پر ہے۔ ٹکٹ چودہ یورو مگر بزرگوں کے لئے یہ سات یورو تھا۔ یونان میں یہ اپنی قسم کا واحد میوزیم ہے۔ یہاں پر اسلامی تہذیب کے ابتدائی دور سے سلطنت عثمانیہ کے انیسویں صدی کے دور تک کے 8,000 ورکس آف آرٹ نمائش کے لئے کانچ کے شو کیسز کے اندر محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ بشمول مٹی کے برتن، سونے کی اشیاء، میٹل ورکس، ٹیکسٹائل، گلاس، ہڈیوں سے بنی ہوئی اشیاء، سرجری کے آلات، جنگ کا ساز و سامان (ڈھالیں، تلواریں، خنجر) شامل ہیں۔

میوزیم کی پانچ منزلیں ہیں سب سے اوپر کیفے ٹیریا، اس کے بعد چوتھی منزل سے میوزیم شروع ہوتا ہے۔ ہر منزل کے داخلے کے دروازے پر بورڈ لگا ہے کہ یہاں کون کون سی اشیاء رکھی ہوئی ہیں۔ پانچویں فلور پر لکھا ہوا تھا:

The Islamic world from the 17th to the 19th century

دیوار پر ایک بہت بڑا اسلامی دنیا کا نقشہ تھا کہ انیسویں صدی میں اسلامی دنیا اس خطہ ارض پر قائم تھی۔ ہندوستان کے جن شہروں کے نام لکھے تھے ان میں ملتان، لاہور، دہلی، آگرہ، لکھنؤ، بنارس قابل ذکر ہیں۔ تانبے سے بنے برتن اور اس کے ساتھ وال رس کی ہڈی Walrus ivory کی بنی کچھ چیزیں تھیں۔ اس سے آگے آدمی کا آدھا دھڑ chain۔ mail (تانبے کا بنا جالی دار حفاظتی جیکٹ ) میں ملبوس تھا۔ اس کے نیچے وضاحت تھی۔ Chain mail shirts with steel plates for the protection of the chest and waist۔ Turkey 16 th Century۔ Steel helmets in the shape of turban۔ Turkey 16 th century

اس سے آگے مختلف ممالک کی تلواریں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک سونے کی تلوار کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم، انا فتحنا لک۔ پوری سورۃ دلکش و دیدہ زیب عربی میں سنہری حروف میں کندہ کی ہوئی تھی۔ یہ ترکی میں سولہویں صدی میں بنائی گئی تھی۔ ایک جگہ پر عثمانی ترکوں کی رائفل تھی جس کا ہینڈل Rilfe buttلکڑی کا تھا اور شمالی یونان میں انیسویں صدی میں ملی تھی۔ اس کے آگے عورتوں کے قسم ہا قسم کے عالی شان زیورات تھے، گلاس کپ بھی تھے جن میں چائے یا کافی پی جاتی تھی۔

ایک جگہ پر ایران کے چاقو اور تلواریں تھیں جن کے اوپر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا اور ایران میں انیسویں صدی میں بنائی گئیں تھیں۔ ایک شو کیس میں بارہویں صدی کے سرجری کے آلات، قطب نما (کمپاس) اور ایک اصطرلاب رکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ پینٹنگ کی تین کتابیں تھیں۔ شطرنج کا بڑا بورڈ تھا جس میں پیادے ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تھے۔ یہ مصر میں چودہویں اور سترہویں صدی کے درمیان میں بنایا گیا تھا۔

افلا طون کی اکیڈیمی

کوئی شخص اپنے علم و دانش پر ناز کر تا ہو تو کہا جاتا وہ اپنے آپ کو افلاطون سمجھتا ہے۔ گویا افلاطون کا دانائی کا منبع اور سر چشمہ تھا۔ افلاطون 428۔ 328 BCیونان کے ان جلیل القدر حکماء میں سے ہے جس پر یونان کو بجا طور پر ناز ہے۔ اس کے حکیمانہ اقوال لوگ باتوں میں وزن پیدا کر نے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ افلاطون کو زندگی میں ایک ٹریجڈی سے دوچار ہونا پڑا یعنی اس کے ٹیچر سقراط کو زہر دے کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔

ہوٹل کے فرنٹ ڈیسک کی خاتون Aliceنے فون کر کے مجھے ٹیکسی منگوا دی، میں نے ڈرائیور کو ایڈریس دیاCRATYLUS St۔

اور اس نے دس منٹ بعد ایک وسیع رقبہ پر پھیلے پارک کے سامنے اتار دیا۔ پارک کے شروع میں ہی بورڈ کے اوپر لکھا تھا:

Archaeological Park of Plato ’s Academy

پارک کے آگے گیا تو پتھروں کی دیوار میں گھری افلاطون کی اکیڈمی کی باقیات تھیں۔ دو یا تین کمروں کی بنیادیں دیکھیں اور فوٹو بنائے۔

میں ایک بڑے پتھر پر بیٹھ کر خیالات کی دنیا میں گم ہو گیا۔ افلاطون نے مضافات میں اس اکیڈمی کی بنیاد 388 BCمیں رکھی تھی۔ اس محلے یا علاقے کا نام اکیڈمی تھا یوں آنے والی نسلوں کو ایکا ڈیمی اور ایکا ڈیمک کے الفاظ دیے گئے جوہر زبان میں ملتے ہیں۔ یہاں فلاسفی کے ہر ڈسپلن کی تعلیم دی گئی جس کو ہم آج کل Humanistic & mathematical کہتے ہیں۔ اکیڈمی ایک ہزار سال تک چلتی رہی خاص طور پر نیو پلیٹونک فلاسفر کے عہد یعنی 529 AD۔ اس کے بعد ایمپریر جسٹینین کے شاہی فرمان پر ایتھنز کے تمام سکولوں پر قفل چڑھا دیے گئے۔ اگلے روز ہم وطن عزیز کینیڈا واپس روانہ ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments