تائیوان پر بگڑتے حالات اور جرمن وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان


چلو ایک تازہ ہوا کا جھونکا آیا جرمن وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور اسی دورے کے دوران پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کشمیر کے تنازعہ کے تصفیہ کے لئے وہی موقف اختیار کیا کہ جو پاکستان کا ہے کہ اس تنازعے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق سامنے آنا چاہیے۔ وہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے کردار کا بھی ذکر کیا۔ یہ جرمنی کی اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان کے موقف کی درستگی پر حمایت کا اعلان ہے۔

جرمنی اس وقت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور دیگر اداروں میں بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کر رہا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کا اسلام آباد میں کھڑے ہو کر یہ گفتگو کرنا مگر ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جرمنی مستقل طور پر کشمیر کے حوالے سے ایسا ہی موقف رکھتا تھا بلکہ جب انڈیا نے آئین کے آرٹیکل 370 کو حذف کر دیا تو اس وقت دلی میں متعین جرمن سفیر نے اس کو بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دیا تھا اور ویسے بھی جرمنی اور انڈیا سن دو ہزار سے انڈو پیسیفک میں اسٹریٹجک شراکت دار بھی ہے۔

بھارت کی معیشت بھی بہت پھل پھول رہی ہے جب کہ ہم معاشی میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ بلکہ افسوس ہم تو کھڑے ہی نہیں ہیں۔ ان تمام حالات میں جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے اس انتہائی اصولی موقف کی حمایت پاکستان کی سفارتی دنیا میں بہت بڑی کامیابی ہے۔ یورپی یونین کی جان جن ممالک میں ہے، جرمنی ان کا سرخیل ہے۔ اس معاملے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے کہ اگر پاکستانی موثر سفارت کاری کریں اور اپنا موقف دنیا تک سلیقہ سے پہنچائیں، بھارتی موقف کے سبب سے اس خطے بلکہ اس خطہ کے باہر بھی امن کو اور ترقی کو جو خطرات درپیش ہیں ان کو سلیقے سے بیان کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف اور کشمیر میں ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی مخالفت میں بھارت کی بڑی معیشت کے باوجود مختلف ممالک کو ہم نوا نہ بنایا جا سکتا ہو۔ ہاں حوصلہ ہار دیا جائے تو اور بات ہے یا بس معاملات کو صرف بابوؤں کے سپرد کر دیا جائے۔

پاکستان سفارتی معاملات میں اتنا غیر فعال ہے کہ جب برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوا تو یہ یقینی طور پر ایک نئی صورتحال کا پیش خیمہ تھا اس حوالے سے حکمت عملی اور برطانیہ سے معاملات کو طے کرنے کی ضرورت تھی۔ انڈیا تو اس اکتوبر میں برطانیہ سے تجارتی معاہدہ کرنے کے قریب ہے مگر گزشتہ حکومت کے زمانے میں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے فوری طور پر ایک ریسرچ پیپر تیار کیا جائے اس کے تمام زاویوں کو سامنے رکھے۔ زبیر گل، راجہ ظریف اور ڈاکٹر خالد جرار ( پی ایچ ڈی اکنامک ڈپلومیسی ) جیسے برطانیہ میں متحرک پاکستانیوں کو لابنگ کرنے کے لئے ذمہ داریاں دی جائے تاکہ انڈیا پھر بازی نہ لے جائے۔

اسی طرح خوشگوار جھونکا جاپانی کاروباری افراد کی آمد ہوا۔ جاپان پاکستان سے افرادی قوت کا بھی خواہش مند ہے۔ ان معاملات میں بھی ہر زاویے کو سامنے رکھتے ہوئے مکمل تیاری کی جائے اور جاپان میں پاکستانی کمیونٹی کی متحرک آواز ملک نور اعوان، عرفان صدیقی جیسے افراد کو سرکاری حیثیت دیتے ہوئے جاپان میں وطن عزیز کے کاروباری مفادات کے تحفظ کی ذمہ داریاں سونپ دی جائے تو مہینوں میں نتائج کا حصول ممکن ہے۔

جاپان سے یاد آیا کہ اس کے گرداگرد بھی بہت ہلچل مچی ہوئی ہے تائیوان چین کے حوالے سے ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے چین کو مستقل طور پر پریشان رکھا جاتا ہے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ تائیوان کمیونسٹ انقلاب سے قبل چین کی مرکزی حکومت کا حصہ تھا اور اسی سبب سے پاکستان بجا طور پر ”ایک چین پالیسی“ کا حامی ہے۔ مگر اب تائیوان کو آگے کر کے چین کو دوبارہ سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ تائیوان نے باقاعدہ آزادی کا اعلان نہیں کر رکھا ہے اور اس کے دنیا کے مختلف ممالک سے محدود تعلقات ہیں مگر جب ابھی صدر بائیڈن نے قواڈ اجلاس کے موقع پر یہ بیان دیا کہ امریکہ تائیوان کے دفاع میں آنے کا پابند ہے تو اس سے فوجی طاقت اور اس کی ممکنہ مداخلت کا ایک واضح اظہار تھا۔ حالاں کہ صدر بائیڈن کے بیان کے اگلے دن امریکی حکام نے ان کے بیان کی ہزار تاویلات پیش کی مگر سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ امریکی صدر کا کسی بھی معاملے میں بیان کیا حیثیت رکھتا ہے۔

اسی دوران امریکہ نے تائیوان سے ٹریڈ اور ریگولیشنز پر مشترکہ اقدار اور مارکیٹ کی بنیاد پر معیشت کے نعرے کے تحت مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ ایک چین نظریہ کے تحت چین کے لیے یہ تمام صورتحال قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے۔ اسی کو محسوس کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ کی اپنے جاپانی ہم منصب سے 18 مئی کو ویڈیو کال پر بات ہوئی جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ ”جاپان کو خود کو امریکہ اور دوسروں کے ساتھ ایسے طریقوں سے نہیں باندھنا چاہیے جس سے چینی خودمختاری، سلامتی اور مفادات کو نقصان پہنچے۔“

اسی سبب سے جب گزشتہ مہینے جاپان میں قواڈ کانفرنس ہو رہی تھی تو چھ چینی اور روسی اسٹریٹجک بمبار طیارے، ایک نگرانی کرنے والے جہاز کے ساتھ جاپانی علاقے میں محو پرواز تھے جو واضح پیغام تھا کہ چین ان اقدامات کو کتنا سنگین خطرہ تصور کر رہا ہے۔ اسی لیے چینی وزیر دفاع نے سنگاپور میں امریکی وزیر دفاع سے ملاقات پر واضح کر دیا کہ تائیوان کی طرف سے اعلان آزادی چین کی طرف سے جنگ کا آغاز ہو گا چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔ خیال رہے کہ چین کے دو ٹوک موقف کے بعد تائیوان کو ہلہ شیری دینے سے دیگر قوتوں کے باز آ جانے کا امکان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments