لاہور کے سقراط کی یاد میں


لاہور کے سقراط عزیز الحق کی وفات کے پورے پچاس برس بعد 28 مئی 2022 کو زوم پر ٹیم عزیز نے ان کی یاد میں ایک یادگار محفل کا انتظام و اہتمام کیا جس مین ان کے بچوں ’رشتہ داروں‘ دوستوں اور پرستاروں نے اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا۔ اس محفل میں ساری دنیا کے مختلف ممالک سے سو سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی اور بہت سے معزز اور معتبر ادیبوں اور دانشوروں عزیز الحق کو خراج تحسین پیش کیا۔

عزیز الحق ایک سائنسدان بھی تھے اور ایک ادیب بھی ’وہ ایک سیاسی کارکن بھی تھے اور ایک دانشور بھی۔ ان کی نظریاتی شناخت ایک

EXISTENTIALIST …MARXIST

کی تھی۔ انہوں نے اپنے عہد کے بہت بہت سے نوجوانوں کو امن ’آشتی اور ایک منصفانہ معاشرے کا خواب دیکھنے اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی تحریک و ترغیب دی۔

میری نگاہ میں آج کے پاکستان کو ان کے خیالات و نظریات کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پچاس برس پیشتر تھی۔

میں اس کالم میں ان کے بارے میں لکھی ہوئی اپنی ایک نثری نظم اور ایک مضمون پیش کرتا ہوں تا کہ قارئین کا عزیز الحق سے تعارف ہو سکے۔ یہ نظم اور مضمون ان کے بارے میں خالد سہیل اور عظمیٰ عزیز کی مرتب کی ہوئی کتاب AZIZ UL HAQ۔ SOCRATES OF LAHORE

میں شامل ہے جو اب ایمیزون پر دستیاب ہے
……………………….
وہ کون تھا
اس کی شخصیت میں
ایک جوش تھا
ایک جذبہ تھا
ایک ولولہ تھا
اس کے دل میں
غریبوں ’کسانوں اور مزدوروں کے لیے
محبت تھی
اپنائیت تھی
پیار تھا
خلوص تھا
اس کی آنکھوں میں
امن اور آشتی اور انصاف کا
ایک خواب تھا ’ایک آدرش تھا‘ ایک اضطراب تھا
وہ ہر غیر منصفانہ روایت کو چیلنج کرتا تھا
وہ نوجوانوں کو سوال کرنا سکھاتا تھا
ایک نئی دنیا کی دعوت دیتا تھا
وہ لاہور کا سقراط تھا
عوام و خواص اسے عزیز الحق کے نام سے جانتے تھے

سقراط کی سنت
۔ ۔ ۔ ۔

سقراط پر یونان کی ریاست نے دو الزام لگائے۔ پہلا الزام یہ تھا کہ وہ یونان کے خداؤں کو نہیں مانتا اور دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ قوم کے نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ سقراط کو سزا دی گئی اور اس نے اپنے سچ کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا۔ سقراط کی موت نے سچ کو حیات جاوید بخشی۔

سقراط کی سنت پر ہر دور کے سائنسدان اور سکالر ’فنکار اور شاعر‘ فلسفی اور دانشور عمل کرتے رہے ہیں اور اپنے سچ کی خاطر قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ وہ اپنے دور میں معتوب ٹھہرے لیکن آئندہ کی نسلوں نے ان کا احترام کیا اور انہیں عزت بخشی۔ میں اس کالم میں ان کی چند مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سائنسدان کوپرنیکس نے جب اپنے مشاہدے اور تحقیق سے یہ جانا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو وہ اپنا سچ منظر عام پر لانے سے ہچکچائے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں چرچ کے اصحاب بست و کشاد ان کا دائرہ حیات تنگ نہ کر دیں کیونکہ اس دور کے پادریوں نے بائبل کی ایسی تشریح کی تھی جس کے مطابق سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ کوپر نیکس کی کتاب جس دن چھپ کر آئی وہ ان کا اس دار فانی میں آخری دن تھا۔ انہیں بالکل اندازہ نہ تھا کہ ان کی کتاب سائنس کی دنیا میں انقلاب پیدا کردے گی۔

کوپرنیکس کے نظریات کو گلیلیو نے اپنی دوربین کے مشاہدات سے سچ ثابت کیا لیکن جب گلیلیو کی تحقیق کی خبریں پادریوں تک پہنچیں تو وہی ہوا جس کا کوپرنیکس کو خطرہ تھا۔ پادریوں نے گلیلیو پر مقدمہ چلایا کیونکہ ان کے نظریات گرجے کی تعلیمات کے خلاف تھے۔ پادریوں نے گلیلیو کو مجبور کیا کہ وہ معافی مانگیں۔ اس کے بعد انہیں بقیہ عمر کے لیے ان کے گھر میں قید کر دیا گیا۔ گلیلیو نے لاکھ کہنے کی کوشش کی کہ بائبل اخلاقیات کی کتاب ہے سائنس کی نہیں لیکن ان کی زندگی میں کسی نے ان کی نہ سنی۔ ویسے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ کیتھولک چرچ نے اس واقعہ کے تین سو سال بعد اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور گلیلیو سے معافی مانگی۔

گلیلیو کی طرح ڈارون کو بھی ساری عمر پادریوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ڈارون نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ انسان آسمان سے نہیں اترا بلکہ انسان حیوان کی ارتقا یافتہ صورت ہے۔ ڈارون ساری عمر خاموشی سے اپنا تحقیقی کام کرتے رہے یہ علیحدہ بات کہ ان کے کئی جوشیلے دوست اور پرستار پادریوں سے الجھتے رہے اور مناظروں میں شرکت کرتے رہے۔

سائنسدانوں کی طرح جن فلسفیوں کو اپنے سچ کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ان میں ہیگل ’نیٹشے اور برٹرانڈ رسل شامل ہیں۔ ان فلسفیوں پر ان کے نظریات کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان پر بھی سقراط کی طرح یہ الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے نظریات کی وجہ سے نوجوانوں کا اخلاق خراب کرتے ہیں‘ انہیں روایت سے بغاوت پر اکساتے ہیں اور انہیں گمراہ کرتے ہیں۔

سائنسدانوں اور فلسفیوں کی طرح مصوروں اور فنکاروں پر بھی نفرت اور تعصب کے سنگ برسائے گئے۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ فحاشی کو فروغ دیتے ہیں۔ ڈائین آربس کی نیویارک میں تصاویر کی نمائش ہوئی تو لوگوں نے ان تصاویر پر تھوکا کیونکہ وہ تصاویر ان کی اخلاقیات کے معیار پر نہ اتریں۔ اسی طرح مشہور فنکار کلمٹ کی تصاویر پر بھی فحاشی کے الزام لگائے گئے کیونکہ بہت سے لوگ آرٹ میں عریانی اور فحاشی کے فرق کو نہ جانتے تھے۔

فنکاروں اور مصوروں کے ساتھ جن لکھاریوں پر فحاشی کا الزام لگا اور مقدمہ چلا ان میں سعادت حسن منٹو ’عصمت چغتائی اور آسکر وائلڈ شامل ہیں۔ منٹو چونکہ طوائفوں کی زندگی کے بارے میں افسانے لکھتے تھے اس لیے وہ مورد الزام ٹھہرے۔ منٹو نے اپنے دور کے سچ کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا لیکن عوام و خواص نے اس سچ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ منٹو نے ایک دفعہ لکھا تھا۔

ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔

سائنسدانوں اور فلسفیوں ’فنکاروں اور لکھاریوں کی طرح امن کے پرچارک بھی اپنے سچ کی وجہ سے زیرعتاب آئے۔

مارٹن لوتھر کنگ پر ’جو کالوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے‘ قاتلانہ حملے ہوئے۔ موہنداس گاندھی کو ایک متعصب ہندو نے اس لیے قتل کر دیا کہ گاندھی مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور یٹزک ربین کو ایک متعصب یہودی نے اس لیے مار ڈالا کہ انہوں نے یاسر عرفات سے ہاتھ ملایا تھا۔

اپنے سچ کی وجہ سے بعض انقلابیوں کو روپوش ہونا پڑا اور بعض کو حکومت وقت نے جیل میں ڈال دیا۔ بیسویں صدی کے جن دو امن پسند سیاسی رہنماؤں نے ربع صدی سے زیادہ زندگی جیل میں گزاری ان کے نام باچا خان اور نیلسن منڈیلا ہیں۔ منڈیلا نے جب سفید فام حکومت کو چیلنج کیا اور کالوں کے حقوق کی بات کی تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔

جب وقت کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے رویوں میں مثبت تبدیلی آئی اور ربع صدی کی قربانیوں اور آزمائشوں کے بعد منڈیلا رہا کر دیے گئے اور کالوں کو جنوبی افریقہ پر جمہوری الیکشن کے بعد حکومت کرنے کا موقع ملا تو منڈیلا کو ان کی خدمات کی وجہ سے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

چاہے وہ سائنسدان ہوں یا سکالر ’فنکار ہوں یا شاعر‘ فلسفی ہوں یا دانشور وہ سب اپنے اپنے دور میں سقراط کی سنت پر عمل کرتے رہے اور اپنے سچ کی خاطر قربانیاں دیتے رہے۔ اسی لیے اب سینکڑوں ’ہزاروں لاکھوں لوگ ان کا عزت سے نام لیتے ہیں اور انہیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔

عزیز الحق نے بھی سقراط کے نقش قدم پر چلتے چلتے نوجوانوں کو غیر منصفانہ روایت سے بغاوت کی دعوت دی ’ینگ پیپلز فرنٹ کو منظم کیا اور اپنے آدرش کی خاطر جان کی قربانی دی۔ اسی لیے پاکستان کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں نے انہیں لاہور کے سقراط کا خطاب دیا۔

سقراط کی سنت
سچ کی خاطر جو زہر پیتا ہے
اپنے مرنے کے بعد صدیوں تک
دل میں لاکھوں کے پھر وہ جیتا ہے۔
خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments