بلوچستان: چھ سال قبل لاپتہ ہونے والے غلام یٰسین بگٹی کی تشدد شدہ لاش چمن کے قریب سے برآمد

محمد کاظم - بی بی سی نامہ نگار، کوئٹہ


’ہمیں امید تھی کہ ہمارے بھائی کو اسی طرح چھوڑ دیا جائے گا جس طرح سنہ 2012 میں انھیں لاپتہ کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا، مگر ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ وہ زندہ ہمارے پاس واپس نہیں آئے بلکہ ہمیں ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔‘

یہ کہنا تھا ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے غلام رسول بگٹی کا جن کے چھوٹے بھائی غلام یٰسین بگٹی کی لاش اتوار کو افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے ملی تھی۔

غلام یٰسین اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی میں سرکاری ملازم تھے، جنھیں ان کے بھائی کے مطابق، دو مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ دوسری مرتبہ گمشدگی کے بعد نہ صرف کوئٹہ میں ایف آئی آر درج کرائی گئی بلکہ ان کا کیس جبری گمشدگیوں سے متعلق حکومتی کمیشن میں بھی زیر سماعت تھا۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ غلام یٰسین بگٹی کی لاش کی برآمدگی کا مقدمہ چمن میں درج کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔

غلام یٰسین بگٹی کون تھے؟

غلام یٰسین بگٹی کا تعلق بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے تھا۔

ان کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔

انھوں نے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی تھی جس کے بعد ڈیرہ بگٹی میں ہی محکمہ صحت میں بطور ڈسپینسر ملازمت اختیار کر لی تھی۔

وہ شادی شدہ تھے اور ان کے چار بیٹے ہیں۔ ان کے چار بیٹوں میں سب سے بڑے بیٹے کی عمر اب 12سال ہے۔

کوئٹہ میں گھر ہونے کے باعث ان کی رہائش کوئٹہ میں ہی تھی۔

غلام یٰسین کو دو مرتبہ جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا

غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ غلام یٰسین کو دو مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے سنہ 2012 میں ان کو لاپتہ کیا گیا لیکن بیس پچیس دن بعد ان کو منظر عام پر لایا گیا اور اس وقت ان کے خلاف تین مقدمات قائم کیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان میں سے ایک مقدمہ دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی تھا جس میں انسداد دہشت گردی کوئٹہ کی عدالت نے انھیں بری کیا تھا جبکہ دو دیگر کیسز سیشن کورٹ میں زیر سماعت تھے۔

یہ بھی پڑھیے

لاپتہ طالب علم سعید بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاج

ٹورونٹو سے لاپتہ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی لاش پانی میں سے ملی

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کے بھائی کے خلاف دو کیسز زیر سماعت تھے لیکن ان کو رہا کر دیا گیا تھا مگر ان کو جنوری سنہ 2016 میں دوبارہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

دوسری مرتبہ جبری گمشدگی کی ایف آئی آر بھی سریاب تھانے میں درج کی گئی جس کے مطابق غلام یٰسین کو قمبرانی روڈ پر ایک کالونی سے رات کو ساڑھے تین بجے اس وقت اٹھا لیا گیا جب وہ اپنے ایک دوست کے گھر میں سو رہے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق غلام یٰسین بگٹی کو پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے۔

غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ دوسری مرتبہ اٹھائے جانے کے بعد ہم نے ان کا پتہ لگانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن ہمیں ان کا سراغ لگانے میں کامیابی نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم نے ان کی بازیابی کے لیے متعدد فورمز سے رجوع کیا جن میں جبری گمشدگیوں سے متعلق حکومتی کمیشن بھی شامل تھا۔

انھوں نے کہا کہ بھائی کی جبری گمشدگی کے حوالے سے نہ صرف کمیشن میں دائر درخواست کی سماعت ہوتی رہی بلکہ محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کی جانب سے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی قائم کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بھائی کے خلاف سیشن کورٹ کوئٹہ میں جو دو کیسز زیر سماعت تھے، ان میں سنہ 2015 میں ان کی آخری پیشی بھی ہوئی اور وہ عدالت میں پیش بھی ہوئے لیکن اس کے بعد ان کو لاپتہ کیا گیا۔

لاپتہ افراد کی لاشیں

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ تنظیم کی جانب سے سنہ 2019 اور اس کے بعد بلوچستان حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت کو جن لاپتہ افراد کی فہرستیں پیش کی گئیں ان میں غلام یٰسین بگٹی کا نام بھی شامل تھا۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس سے قبل بھی جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملتی رہی ہیں۔

بی بی سی نے غلام یٰسین کی اہلیہ اور ان کے بچوں سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کی حالت ایسی نہیں کہ وہ اس وقت بات کر سکے جبکہ ان کے بچے ابھی تک بہت چھوٹے ہیں۔

غلام رسول نے کہا کہ بھائی کی جبری گمشدگی کے دوران ہم نے اپنے طور پر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

’ہمیں بھائی کی جانب سے پیغامات بھی ملتے رہے کہ وہ زیر حراست ہیں اور کبھی کبھار اچھی خبریں بھی ملتی رہیں کہ وہ بازیاب ہوجائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی بھائی کو جبری گمشدگی کے بعد منظر عام پر لایا گیا تھا اور دوسری مرتبہ جبری گمشدگی کے بعد ان کی بازیابی اور رہائی کے حوالے سے اچھی خبریں ملنے کے بعد ہمیں یہ توقع تھی کہ وہ بازیاب ہو جائیں گے اور اپنے چھوٹے بچوں کا سہارا بنیں گے مگر ایسا نہیں ہوسکا بلکہ گزشتہ اتوار کو انھیں ڈیرہ بگٹی سے یہ اطلاع ملی کہ چمن شہر کے قریب سے ان کی تشدد زدہ لاش ملی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بھائی کی جیب میں ان کا سروس کارڈ تھا جس پر درج پتے کی مدد سے لیویز فورس چمن کے اہلکاروں نے ڈیرہ بگٹی میں لیویز فورس کواطلاع دی، پھر ڈیرہ بگٹی سے ہمیں اس بارے میں بتایا گیا۔

بھائی کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے

غلام رسول بگٹی نے بتایا کہ بھائی کی لاش کے بارے میں اطلاع کے بعد اسے لینے کے لیے ہم کوئٹہ سے چمن گئے تو وہاں ہم نے لاش کو شناخت کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے جسم پر تشدد کے نشانات تو تھے لیکن کسی گولی کا کوئی زخم ان کے جسم پر نہیں تھا۔

’ہم نے ان کے جسم کو دیکھا۔ ہمارے اندازے کے مطابق ان کو کرنٹ دیا گیا تھا یاگلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔‘

اس سوال پر کہ لاش کی پوسٹ مارٹم کرائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے لاش کی پوسٹ مارٹم نہیں کرائی کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے ہم لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے کوئٹہ کے ہسپتال نہیں لے گئے بلکہ اسے اٹھاکر کوئٹہ اپنے گھر لائے۔

سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟

حکومت بلوچستان کا موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو سے رابطے کی کوشش کی اور ان کو واٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا لیکن ان سے رابطہ نہ ہونے کے باعث اس حوالے سے حکومت کا موقف معلوم نہیں ہو سکا۔

تاہم غلام یٰسین بگٹی کی لاش کی برآمدگی کے حوالے سے جب ڈپٹی کمشنر چمن یاسر خان بازئی سے فون پر رابطہ کیا گیا تو انھوں نے چمن شہر کے قریب بائی پاس کے علاقے سے ان کی لاش کی برآمدگی کی تصدیق کی۔

انھوں نے بتایا کہ لاش کا ابتدائی پوسٹ مارٹم ہوا ہے لیکن جو تفصیلی پوسٹ مارٹم ہوتا ہے وہ نہیں ہوئا کیونکہ چمن میں اس کی سہولت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بائی پاس سے لاش کی برآمدگی کے بعد انتظامیہ نے اپنے طور پر اس حوالے سے مقدمہ بھی درج کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ہمارے لیے اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس شخص کو کس نے مارا اور کیوں مارا اور پھر اس کی لاش یہاں کیوں پھینکی۔

انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں تحقیقات ہو رہی ہیں جس کے بعد ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ مقتول کو ہلاک کرنے کے محرکات کیا تھے۔

اگرچہ بلوچستان کے وزیر داخلہ سے رابطہ تو نہیں ہو سکا، تاہم اس سے قبل جبری گمشدگیوں اور تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی کے حوالے سے سیکیورٹی فورسز کے ایک سینئر اہلکار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ بنیادی طور پرایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق مسنگ پرسن کے 8381 کیسس رپورٹ کیے گئے ان میں سے 6163 کیسز عدالتی تحقیقات کے بعد ختم کر دیے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کمیشن روزانہ کی بنیاد پر کیسز کی پیروی کرتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق زیادہ تر افراد کو دہشت گرد تنظیمیں اغوا کر کے قتل کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے گھر والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ کرنے والا حمل فتح اس کی ایک مثال ہے.

’یہ سب کچھ پاکستان دشمن عناصر کی پشت پناہی میں کیا جاتا ہے۔ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف چند لوگوں کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے گرفتار کرتے ہیں، جن کو تفتیش کے بعد بے قصور ہونے کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان دشمن عناصر کالعدم تنظیموں کو استعمال کر کے لوگوں کو اغوا اور قتل کرواتے ہیں اور جب پاکستانی ایجنسیاں ایسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف ایکشن لیتی ہیں تو ایک سوچی سمجھی چال کے مطابق الزام پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جاتا ہے. پاکستان جلد اپنے باشعور اور بہادر عوام کے ساتھ ان سازشوں کو ناکم کرے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments