پھولوں سے نزاکت چھین لو


آج اعلیٰ الصبح جب سیر کے لئے میں نے باغ کا رخ کیا تو کچھ بیزار سی تھی اسی بیزاری کے ساتھ تیز قدم بڑھاتے ہوئے میں باغ کے ٹریک پر چلنے لگی کہ اچانک میری نظر ایک لال رنگ کے خوبصورت پھول پر پڑی جو اس باغ میں موجود بے شمار پھولوں میں سب سے الگ اور دلکش تھا۔ پھول اور بھی تھے اس باغ میں مگر مجھے ایسا لگا کے جیسے وہ پھول مسکرا کر مجھے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔ اس کو دیکھ کر میں ایک دم تروتازہ ہو گئی۔ آگے بڑھی اس کی مہک کو محسوس کیا وہ رنگت ویسے تو باقی تمام پھولوں جیسا تھا مگر کچھ خاص تھا اس میں جو اس کو باقی پھولوں سے منفرد بنا رہا تھا۔

ایک لمحے کو دل چاہا کہ اس کو توڑ لوں۔ توڑ کر اپنے پاس رکھ لو مگر دوسرے لمحے یہ احساس ہوا کہ اپنی وقتی خوشی کی خاطر اس کی خوبصورتی اور رعنائی ہمیشہ کے لئے کیسے ختم کر سکتی ہو۔ اس باغ میں مہکنہ اس کا حق ہے۔ اس کی خوبصورتی اسی ڈال پر ہے اس کے اپنوں کے درمیان۔ اس کی خوبصورتی خدا کی قدرت ہے اور میں کیوں اس کی خوبصورتی کو اپنی چند لمحوں کی خوشی کی خاطر تباہ کرو۔

بہت دفعہ آگے بڑھی اور پیچھے ہٹی بہت کشمکش میں تھی کیونکہ میں یہ جانتی تھی کہ اس پھول کو اگر میں نہیں توڑوں گی تو کوئی اور توڑ لے گا کیونکہ ہم اشرف المخلوقات کی عادت ہے۔ خوبصورتی اور وہ بھی وہ جس کا کوئی نگہبان نہیں توڑوں ’چھین لو‘ فنا کر تو دو۔

اس پھول کو کیا ضرورت تھی اتنا خوبصورت ہونے کی؟ اس پر ظلم یہ کہ باغ میں کوئی مالی بھی نہیں۔ اوپر سے حسن پرستوں کا یہ ہجوم جو حق سمجھتے ہیں یہ کلیاں اور شاخیں تک نوچ لینا۔ چاہے باغ اجڑ جائے اس کو زوال ہی کیوں نہ آ جائے۔

ہم جاننا ہی نہیں چاہتے کہ پھول اپنی ساتھیوں کے ساتھ کتنا خوش ہے۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ یہ خوبصورت پھول ہمارے ہاتھوں کی زینت بنے۔ اس کے ٹوٹنے سے پگڈنڈی کی تکلیف اور اداس کون دیکھتا ہے۔ وہ کلیاں جو ابھی کھلی ہی نہیں یہ یہاں بن کھلے ہی مرجھا جائیں گی۔ یہاں تو کلیاں بھی مثل دی جاتی ہیں۔ لوگ جڑوں سے نکال کر شاخیں روند دیتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی اس کا زوال بن جائے گی گئی یہاں کون سمجھتا ہے۔

اے بنانے والے! کیوں بنایا اسے ایسا؟ اگر ایسا بنایا تو کیوں لگایا اسے ان اشرف المخلوقات کے آنگن میں؟ پھول کے حسن نے مجھے مزید پریشان کر دیا۔ یہاں روز معصوم کلیاں کچلی جاتی ہیں۔

صبح ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک 3 سال کی بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد اس کو قتل کیے جانے کی خبر سن کر میں خود سے ہی الجھ پڑی تھی کے کیوں ہم اتنے سفاک ہو گئے ہیں جس کو ہمارے دین میں عزت غیرت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے دن ایسے کئی ہزار واقعات معمول بن گئے ہیں۔ جن میں سے کچھ درج ہوتے ہیں اور کچھ دبا کر ختم کر دیے جاتے ہیں۔ یہ نام نہاد قوم مسلمان فرقہ واریت، نسلی تعصب، حکومتی فسادات سے نکل کر اگر سچے مسلمان ہی بن جائیں تو شاید ہمارے معاشرے سے یہ درندگی ختم ہو جائے۔ انسانیت چپ اور خاموش ہے وحشت دھاڑے مار مار کر انسانیت کو آواز دے رہی ہے۔ کی ان مسلمانوں میں یہ کون سی قوم جنم دے رہی ہے۔ جو انسانیت کے زمرے سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔

جس پر گزری وہ دل جانے
ہم بیٹھے لکھنے فسانے ہیں

یہ واقعات زندہ معاشرے کا روگ ہیں جو روز کا معمول بن چکے ہیں۔ بچوں کا ریپ ’خواتین سے زیادتی‘ یہاں تک کہ درندگی کی انتہا جانوروں کو بھی یہ اشرف المخلوقات نہیں چھوڑتی۔

قصور وار کون؟ قانون ایسے واقعات پر سخت ردعمل کیوں نہیں دکھاتا؟ برابر کے قصوروار ہیں قانون بنا کر اس عملدرآمد نہ کرو سکنے والے تمام ادارے؟ یا قصور وار ہیں وہ معصوم بچے جو اپنی معصومیت میں اپنے گرد موجود بھیڑیوں کی خصلتیں نہیں بھاپ سکتے؟ یا ان خواتین کا جو حجاب نہیں کرتی؟ یا اس بنانے والے کا جس نے حسن تخلیق کیا؟ ہم میں سے بہت خود پر کبھی الزام نہیں دیں گے۔ مرد عورتوں پر الزام دیں گے۔ عورتیں مردوں پر الزام دیں گے۔

تو یقیناً قصور بنانے والے کا ہیں۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم محفوظ ہیں وہاں ایسے گھٹیا واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر روز ایسے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔ بات کرنے پر ایک جنگ چھڑ جاتی ہے۔ عورتوں کو ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ معاشرہ عورتوں کو ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو یہ کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ سمجھ نہیں آتی کے جن معاشروں میں عورتیں تقریباً برہنہ حالت میں باہر سڑکوں پر پھر رہی ہوتی ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں کم ہوتے ہیں؟

ان تمام سوچو اور بوجھل دل کے ساتھ پھول کو وہاں ہی چھوڑ کر میں اس ٹریک پر چہل قدمی کی غرض سے آگے بڑھتی رہی انہیں سوچوں میں گم میں نے اس ٹریک پر دو چکر لگا لیے تھک گی سوچا گھر کی طرف نکلتی ہوں۔ مگر ایک لمحے کو خیال آیا کیوں نہ جاتے جاتے اس پھول کو آخری بار پھر دیکھ لو اسی سوچ سے چل پڑی مگر جب وہاں پہنچی تو وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ پھول اب اس ڈال پر نہیں تھا۔ ایک لمحے کو ایسا لگا جیسے میں نے اپنے ہاتھوں سے کسی کی جان لے لی میں اس کو بچا سکتی تھی باقی کلیاں اور پھول مجھے شکایت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے میں یہ منظر زیادہ دیر نہیں دیکھ سکی اور بوجھل قدموں سے واپس نکل آئی میں جانتی تھی جس نے بھی اس پھول کو توڑا اپنے چند لمحات کی خوشی کی خاطر اس خوبصورت پھول کی زندگی ختم کر دی اس کے گناہ میں برابر کے شریک ہوں کیونکہ میں کچھ نہیں کر پائی میں بے بس تھی۔ ایسے ہی روزمرہ ہم بہت سے واقعات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر فراموش کر دیتے ہیں مگر ہماری بے حسی ہمیں بے بس کر دیتی ہے بس آخر میں ملامت و ندامت رہ جاتی ہے۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments