جب معاشرہ تباہ ہو تو خدا تو حساب لیتا ہی ہے


طوفان تمیز نہیں کرتا ملک کی سیاسی، معاشرتی، سماجی اور سرحدی صورت اور دیگر کئی امور پر جب جی چاہے لکھا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں سیاسی زبانوں اور بولیوں کے علاوہ بہتری کی امید بھی نہیں دلا سکتا، تمام عمر گزر گئی، نازک صورت حال، کشیدگی، دفاعی معاملات کی نزاکت، کر اس روڈ کی بحث سے ہم نہ نکل سکے نہ کوئی نکال سکا، قیام پاکستان سے خطرات، دشمن کی سازشیں، غیرملکی مداخلت، بیرونی آقاؤں کے حکم پر حکومتوں، بڑے فیصلوں کا کیا جانا ہمیں اس طرح سنایا جا تا ہے جیسے پانچ وقت کی اذان نماز کی ادائیگی کے لیے دی جاتی ہے مگر کان بہت ہی کم لوگ دھرتے ہیں۔ مجھ سمیت بھی غیر سنجیدہ لوگ دانش وری کا درس ہر روز چار گھنٹے اس تکرار کے ساتھ دے رہے ہوتے ہیں جیسے رات گیارہ بجے کے فوراً بعد پاکستان ختم ہو جائے گا یا پھر ہر طرف خوش حالی ترقی، استحکام رات ہی کو نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

ذرا سیاسی قیادت، معاشی ماہرین، سیاسی مفکر مین، قانون دان، سائنس دان اس طرح کے دیگر شعبوں کے نام ور لوگوں کا تو علم ہو گا۔ سیاست دانوں میں سیاست کم جرائم پیشہ ذہنیت زیادہ ہے۔ تمام غیر قانونی کام قانونی طریقے سے کرانے کے ہر وقت تیار، اور زرہ بکتر ہیں ذاتی مفادات اور خوشامد، ایسے ہی اطوار ان کے طرہ امتیاز ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن کیسے لڑنا ہے جیت کر اقتدار کی دوڑ میں کس سرگرمی اور غیر مناسب طریقہ کے ساتھ شریک ہونا ان کی زندگی کا اولین مقصد کیسے بن سکتا ہے، اپوزیشن کے بنچوں پر کیسے معاملات طے کیے جاتے ہیں ہر معاشی ماہر معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے سرکاری، غیر سرکاری بنک کا بورڈ نمبر کیسے بنے گا کسی کارپوریشن کا چیئر مین بن کر مراعات کیسے استعمال میں لائے گا بعض ایسی شخصیات بھی جو غیر رسمی طور پر حکومتوں کو مشورہ دیتے ہیں اور عوام کے روبرو اپنے ہی فیصلوں پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں، گورنر اسٹیٹ بنک سے کم تو کوئی امید وار ہی نہیں

سیاسی مفکرین میں زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی افسران بین الاقوامی، علاقائی اور داخلی داخلی پر اپنے پر مغز ارشادات اور تجربات اور تجزئیات سے نواز رہے ہوتے ہیں کبھی گلی محلے کا الیکشن لڑیں تو سات نسلوں کا حساب دینا پڑ سکتا ہے اور چند جو کسی دیسی طرح کاسہ لیسی کرتے ہوئے کسی ایوان کے رکن بن گئے تو پھر خوشامد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے مگر ووٹ مانگنے کی تکلیف دو چار نے ہی پوری سیاسی تاریخ میں کی، دفاعی معاملات پر کھل کر گفتگو تو ملکی سلامتی کے تقاضوں عام طور پر کی بھی نہیں جا سکتی اور ویسے بھی نازک صورت حال میں نہیں کرنی چاہیے تزویراتی تعلقات پر کھل کر بحث قومی اسمبلی میں نہیں ہو سکتی تو پھر ہم کیسے کر سکتے ہیں عدلیہ کا سیاسی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کس کس کی بات کی جائے اور کس کے بارے میں نہ کی جائے سیاسی معاملات بھی اب عدالتوں میں زیر بحث آتے ہیں اور کیا عدلیہ کسی سیاسی رویے کی شکار تو نہیں، اس کے اندر گروپ بندی تو نظر آتی ہے سول سروس جس انحطاط کا شکار اور جس طرح استعمال ہوتی ہے اس کی مثال پنجاب میں دیکھی بھی گئی ہے اور ابھی تماشا مزید لگایا ہے

ریاست کے تین ستون ہوا کرتے ہیں، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ہماری نظریں ان پر جب لگیں، مایوس ہی ہوئے مقننہ کا جو بیڑا غرق اس کے معزز ارکان نے اپنے ہی استحقاق مجروح کر کے اور پارلیمنٹ کو مفلوج کر کے اور مچھلی منڈی بنا کر دکھا دیا ہوا ہے وہ قابل مذمت اور شرم ہے، عدلیہ کی توقیر جس قدر ہمارے معاشرے میں موجود ہے اس میں کئی قابل احترام اضافہ کرتے رہتے ہیں سزائے موت کے بعد ملزموں کو بری ہماری عدلیہ ہی کر سکتی ہے، انتظامیہ جہاں حکمرانوں کی حکمران ہے وہاں اس کی تذلیل اور ذلت اس کی کارکردگی کی بنا پر ہر روز کا معمول ہے، ڈاکٹر، انجینئر، استاد غرض کسی کو بھی دیکھ لیں اندر سے لاہی نظر آئے گا، معاشرتی اقدار، اچھے برے کی تمیز، انصاف دیانت قول و فعل میں یکسانیت نا پید ہو چکی ہے، پورا معاشرہ راتوں رات امیر بننا چاہتا ہے ٹیکس دینا نہیں چاہتے، قانون کی خلاف ورزی پر فخر کرتے ہیں اگر ایم پی اے قتل کرائے تو شہادتوں کے باوجود شہادت کی کمی کے باعث بری جیل میں منشیات مل رہی ہوتی ہیں، ہسپتالوں سے نومولود اغوا ہو جاتے ہیں، چوکیدار مالکہ مالکن سے زیادتی کرتا ہے، چوری کرنا کوئی جرم ہی نہیں، وہ بجلی ہو، گیس ہو، حقوق العباد ہوں ہم بے حسی کی اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں کہ اپنے ہی بوجھ سے دب کر مرنا چاہ رہے ہیں، مقننہ، عدلیہ اور انتظامی، معاشرے میں زندہ رہنے، روزگار دینے، انصاف دینے، تعلیم دینے، مذہبی آزادی تحریر و تقریر کی اجازت اور تحفظ دینے، سفر کر نے گو یا اقلیتوں کے حقوق سمیت تمام بنیادی حقوق دینے اور تحفظ دینے کی پابند میں ہمارا دستور سیاسی انصاف اور خیال کے اظہار کا بھی حق دیتا ہے ہمارا حق ہے کہ مرد و عورت کو بلا تفریق تمام بنیادی دیے جائیں، بچوں سے مشقت کرانا جرم ہے ہر دکان، گیراج، بس اڈہ، سڑک، گلی، مارکیٹ میں کسی دیدہ نابینا کو ذہنی اندھے پن کی بنا پر سماج کی کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔

مختصر یہ کہ سارا سماج، معاشرہ، سوسائٹی ملک ریاست کی تمام خرابیاں پس ماندہ، پسے ہوئے لوگوں اور زبردست غریب لوگوں کے لیے حکومت اس کے اعمال کو فکر کرنی چاہیے کہ سب کچھ کسی دن ایک زور دار آواز کی صورت میں ان سے نہ ٹکرا جائے، پاکستان کی تمام خرابیوں، نا انصافیوں کو درست کرنے والوں کی اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے اب وقت کم ہے اور مشکلیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ کسی بھی وقت نقصان میں رہنے والے فائدہ حاصل کرنے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ طوفان تمیز نہیں کیا کرتا ہمیں یہ بھی اپنے مدنظر رکھنا چاہیے کہ خاندان کی تشکیل کیوں اور کیسے ہوئی۔ دور دور پھیلے ہوئے علاقوں میں خاندان نے سماج کی شکل کیسے اختیار کی۔ سماج سوسائٹی میں کیسے تبدیل ہوا، پھر جب قریب قریب کی آبادیاں معاہدات کے تحت غیر سرحدی ریاستوں میں تبدیل ہوئیں تو انہوں نے طرز معاشرت کے کیا اصول اختیار کیے۔ زور آور اور گھوڑوں پر سوار پہاڑوں سے اترنے والوں کا مقابلہ آسان تھا؟ کیا ہر شخص اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے کوئی نہ کوئی اسلحہ رکھتا یا بناتا تھا اور بقائے زندگی کے ترتیب دیے گئے سزا اور جزا کا تصور کیسے قائم ہوا، ہم اپنی تاریخ پر ناز کرتے ہیں کہ اسلام نے جز اور شرکی مد مقرر کر کے جزا اور سزا کا تصور دیا تھا یہ سب کچھ تو طلوع اسلام سے قبل بھی تھا مگر شکل اور روایات ذرا مختلف تھیں۔ دنیا کیا اس طرح ترقی حاصل کر رہی تھی؟ نہیں وہ زمانہ مختلف قدریں مختلف تھیں۔ کیا ہم ترقی کر رہے تھے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب ہمیں معلوم ہونا چاہیے

آج بچہ گھر سے باہر محفوظ ہے؟ ہرگز نہیں، بچی کی عزت عصمت کی رکھوالی معاشرہ کرنے کو تیار ہے، دین پر مذہب کو حاصل کرنے کی آزادی ہے اگر ہے تو مساجد پر بم کیوں چلائے جاتے ہیں؟ ہسپتال میں علاج ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں، سفارش چاہیے۔ سکول میں داخلہ مل سکتا ہے ہرگز نہیں، سفارش چاہیے، نوکری بغیر رشوت اور سفارش کے قطعی ناممکن ہے بحیثیت قوم ہماری منزل کیا ہے ہم زمانوں میں بھٹک رہے ہیں تمام زندگی کا انحصار توہمات پر مشتمل ہے ۔

کسی کو اب بم گرانے کی ضرورت نہیں ہم نے معاشرے میں جنونیت، حیوانیت، شہوت، عدم برداشت نفسانفسی کا عالم پیدا کر رکھا ہے۔ ہمارے لیڈر سچ بولنے سے خوف زدہ ہیں۔ دنیا کی عظیم ریاستوں کی تباہی کا حال قرآن میں بھی وحی کی صورت میں آیا ہے اور تاریخ کی کتب بھی بھری پڑی ہیں۔ جہاں دال، گندم، چینی، تیل غرض ہر قسم کی اشیائے ضرورت کے لیے عزت نفس مجروح رہی ہو وہاں طوفان ہی آتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سیلابی طوفان ہو، آسمانی طوفان ہو، طوفان ہر صورت طوفان ہی ہوتا ہے۔ ہماری گلیوں اور سڑکوں میں جہاں سر کاٹے جاتے ہوں بے حسی کا یہ عالم ہو کہ زبانیں گنگ ہو جائیں تو نظام فطرت، خدا کی بڑائی اور عظمت تو حساب لے لیتی ہے۔ افغانستان، یمن، شام، عراق، فلسطین کشمیر کو تو چھوڑیں، روس اور یوکرائن کو دیکھ لیں ہمیں اپنا فرض نبھانا ہے سوچنا ہے، یقین رکھنا ہے کہی سنی بات پر یقین نہیں رکھنا، محنت کرنا ہے اور اس کا پھل رب الذوالجلال نے عطا کرنا ہے۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments