ہمارے نظام شمسی کے 155 چاند


 

پہلے ہم سنا کرتے تھے کہ ”فلاں کے محفل میں آنے سے چار چاند لگ گئے۔“ جب یہ چار چاند والا محاورہ کچھ زیادہ ہی عام ہو گیا، تو بھاؤ ڈالنے کے لیے کہا جانے لگا کہ ”فلاں کی آمد 14 چاندوں کی مانند ہے۔“ جب یہ اصطلاح بھی گھس پٹ گئی، تو پھر کہا جانے لگا کہ ”آج تو پوری کہکشاں ہی زمین پر اتر آئی ہے۔“ وغیرہ۔ مگر اگر سائنسی حقائق کو جانتے ہوئے کوئی کسی کو صحیح معنوں میں چنے کے جھاڑ پر چڑھانا چاہے، تو اس کو کہنا پڑے گا کہ ”آپ کی تشریف آوری سے بزم میں 155 چاند اتر آئے ہیں۔

“ وہ اس لیے کہ ہمارے نظام شمسی میں کل 155 (تصدیق شدہ) چاند ہیں۔ اور اگر ان میں غیر تصدیق شدہ چاندوں کی تعداد کو بھی شامل کیا جائے، تو ہمارے نظام میں کل ملا کے 210 چاند ہیں۔ جب ضروری اضافی مشاہدات کی مدد سے ان چاندوں کی دریافتوں کی تصدیق ہوگی، تو انہیں مناسب مستقل نام دیا جائے گا۔ اور اگر ہمارے ’ملکی وے‘ کے ان 210 چاندوں میں سیارچوں (ایسٹرائڈس) کے 4 چھوٹے چھوٹے ’ساتھی چاند‘ بھی شامل کیے جائیں، تو یہ تعداد 214 تک پہنچ جاتی ہے۔ تو اس صورتحال میں کوئی اگر خوشامد اور چاپلوسی کی تمام حدیں پار کرنے سے ہرگز باز نہ آنے کا تحیا کر چکا ہو، تو وہ یہ بھی کہ سکتا ہے کہ ”جناب! آپ کی آمد سے تو مجلس میں 214 کے 214 چاند ہی رقصاں ہیں۔“

ان چاندوں میں سے زیادہ تر ’گیسوں کے دیو‘ (مشتری اور زحل) کے گرد مدار میں موجود ہیں۔ سائنسدان عام طور پر ان چاندوں کو ہمارے مستقل سیاروں کے ’مصنوعی سیاروں‘ کے طور پر گردانتے ہیں۔ جبکہ انسان کے بنے ہوئے مصنوعی سیاروں کو بعض اوقات ’مصنوعی چاند‘ بھی کہا جاتا ہے۔

چاند۔ جسے ”قدرتی سیٹلائٹ“ بھی کہا جاتا ہے، بہت سی اشکال، سائز اور اقسام کے ہوتے ہیں۔ وہ عام طور پر ٹھوس جسم ہوتے ہیں، اور ان میں سے کچھ کے پاس اپنا ’ماحول‘ بھی ہوتا ہے۔ زیادہ تر سیاروں کے چاند غالباً ابتدائی نظام شمسی میں سیاروں کے گرد گردش کرنے والی گیس اور دھول کی سابقہ ’ڈسک‘ سے بنتے ہیں۔

اس کہکشاں میں ہماری زمین کا صرف ایک چاند ہے۔ جبکہ ہمارے نظام شمسی کے اندرون کے زمینی (چٹانی) سیاروں میں سے، ’عطارد‘ (مرکری) اور ’زہرہ‘ (وینس) کے پاس کوئی بھی چاند نہیں۔ (یہ دونوں سیارے ’بے چاندیے‘ ہیں۔ ) ان دو کے علاوہ تمام بڑے سیاروں کے اپنے اپنے چاند ہیں۔ مریخ کے دو چھوٹے سے چاند ہیں۔ بیرونی نظام شمسی میں ’گیس کے دیو‘ (مشتری اور زحل) اور ’برف کے دیو‘ (یورینس اور نیپچون) کے درجنوں چاند ہیں۔ اور جوں جوں یہ سیارے ابتدائی نظام شمسی میں بڑھتے گئے، توں توں وہ اپنے وسیع ’مقناطیسی میدانوں‘ (گریویٹیشنل فیلڈس) کے ساتھ چھوٹی اشیاء کو پکڑنے کے قابل بنتے گئے۔

نظام شمسی میں موجود مختلف سیاروں کے چاندوں کی تعداد مندرجہ ذیل ہے :
عطارد (مرکری) ۔ 0
زہرہ (وینس) ۔ 0
زمین۔ 1
مریخ (مارس) ۔ 2
مشتری (جیوپیٹر) ۔ 79 ( 53 تصدیق شدہ، 26 غیر تصدیق شدہ/ عارضی)
زحل (سیٹرن) ۔ 82 ( 53 تصدیق شدہ، 29 عارضی)
یورینس۔ 27
نیپچون۔ 14
پلوٹو۔ 5

ان 9 سیاروں کے علاوہ ہمارے نظام شمسی میں موجود چند اہم سیارچوں کے چاندوں کا ذکر کریں تو ’ایرس‘ اور ’میک میک‘ نامی سیارچوں کے پاس ایک ایک، ’ہمیا‘ کے پاس 2 ساتھی چاند ہیں، جبکہ ’سیرس‘ نامی ایسٹرائڈ کے پاس کوئی چاند نہیں ہے۔

زمین کے چاند کا نام ہی ”چاند“ (مون) ہے، جسے اطالوی (اٹالین) ، لاطینی اور ہسپانوی (اسپینش) زبانوں میں ’لونا‘ ، فرانسیسی میں ’لونے‘ ، جرمن زبان میں ’مونڈ‘ ، جبکہ یونانی میں ’سیلینے‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ سمجھنے کی بات ہے کہ ہم دیگر سیاروں یا سیارچوں کے چاندوں کو اپنے فہم کی خاطر ہی ”چاند“ کہہ رہے ہیں، وگرنہ ’چاند‘ سے مراد صرف زمین ہی کا چاند ہے، جو زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلومیٹر دور ہے۔ جو تمام تر خلائی اجسام کے مقابلے میں زمین کا قریب ترین پڑوسی ہے۔ جو زمین سے تقریباً ڈیرہ نوری سیکنڈ دور ہے، یعنی اس کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں ڈیڑھ سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ جس کی عمر کم و بیش زمین جتنی ہی ہے۔ یعنی دونوں ہی اندازہً ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آئے تھے۔ ) باقی دیگر تمام سیاروں کے چاند نما وجودوں کے نام الگ الگ ہیں۔ یعنی لفظ ”چاند“ ، ’اسم خاص‘ ہے، ’اسم عام‘ نہیں۔

مریخ کے دو چاندوں کے نام ’ڈیموس‘ اور ’فوبوس‘ ہیں۔ مشتری کے مستقل و عارضی 79 چاندوں میں سے 53 چاندوں کے نام رکھے جا چکے ہیں، جبکہ دیگر 26 چاند ابھی تک باضابطہ نام رکھے جانے کے منتظر ہیں۔ مشتری کے 79 چاندوں کے نام ’ایڈریسٹی‘ ، ’ایٹنے‘ ، ’املتھیا‘ ، ’انانکے‘ ، ’اوئے ڈے‘ ، ’آرچے‘ ، ’آٹونو‘ ، ’کالیروئے‘ ، ’کیلسٹو‘ ، ’کارمے‘ ، ’کارپو‘ ، ’شیلڈینے‘ ، ’سائلین‘ ، ’دیا‘ ، ’آئرین‘ ، ’ایلارا‘ ، ’ایرینوم‘ ، ’ارسا‘ ، ’یوانتھے‘ ، ’یوکلیڈ‘ ، ’یوپھیمے‘ ، ’یوپوری‘ ، ’یورپا‘ ، ’یوریڈوم‘ ، ’گینی میڈ‘ ، ’ہارپالکے‘ ، ’ہیجیمون‘ ، ’ہیلائک‘ ، ’ہرمائیپ‘ ، ’ہیرسے‘ ، ’ہمالیہ‘ ، ’لو‘ ، ’لو کاسٹے‘ ، ’آئسونو‘ ، ’جیوپیٹر ایل ون‘ ، ’جیوپیٹر ایل ٹو‘ ، ’کالے‘ ، ’کالیچور‘ ، ’کالیکے‘ ، ’کورے‘ ، ’لیڈا‘ ، ’لیستھیا‘ ، ’میگا کلائٹ‘ ، ’میٹیس‘ ، ’مینیمے‘ ، ’آرتھوسی‘ ، ’پانڈیا‘ ، ’پاسی فے‘ ، ’پاستھی‘ ، ’فلوفروسین‘ ، ’پراگزی ڈائیک‘ ، ’سائنوپ‘ ، ’سپونڈے‘ ، ’ٹائیگیٹ‘ ، ’تھیبے‘ ، ’تھیلکسینو‘ ، ’تھیمسٹو‘ اور ’تھیون‘ ہیں۔

زحل سیارے کے 82 چاندوں میں سے 53 چاندوں کی تصدیق ہو چکے ہے اور ان کے نام رکھے جا چکے ہیں۔ جبکہ مزید 29 چاند مکمل دریافت اور سرکاری ناموں کی تصدیق کے منتظر ہیں۔ ان 53 چاندوں کے نام، ’ایجین‘ ، ’ایگر‘ ، ’ایلبیروئکس‘ ، ’انتھے‘ ، ’اٹلس‘ ، ’بیبھیون‘ ، ’برجلمیر‘ ، ’بیسلا‘ ، ’کیلیپسو‘ ، ’ڈیفنس‘ ، ’ڈیون‘ ، ’انکلیڈس‘ ، ’ایپیمیتھیوز‘ ، ’ایریپس‘ ، ’فربوتی‘ ، ’فینرر‘ ، ’فورنجوٹ‘ ، ’گریپ‘ ، ’ہٹی‘ ، ’ہیلین‘ ، ’ہائپرون‘ ، ’ہائروکن‘ ، ’لاپٹس‘ ، ’اجیراق‘ ، ’جینس‘ ، ’جارنساکسا‘ ، ’کاری‘ ، ’کیویوک‘ ، ’لوگے‘ ، ’میتھون‘ ، ’مماس‘ ، ’مندلفری‘ ، ’ناروی‘ ، ’پالیک‘ ، ’پیلین‘ ، ’پین‘ ، ’پنڈورا‘ ، ’فوبی‘ ، ’پولی ڈیوسز‘ ، ’پرومیتھیوز‘ ، ’ریا‘ ، ’ایس 2004 ایس 12‘ ، ’ایس 2004 ایس 13‘ ، ’ایس 2004 ایس 17‘ ، ’ایس 2004 ایس 20‘ ، ’ایس 2004 ایس 21‘ ، ’ایس 2004 ایس 22‘ تا ’30‘ ( 9 چاند) ، ’ایس 2004 ایس 7‘ ، ’ایس 2004 تھرٹی‘ ( 9 مدارج/ نو الگ الگ چاند) ، ’ایس 2007 ایس 2‘ ، ’ایس 2007 ایس 3‘ ، ’ایس 2009 ایس 1‘ ، ’سیارنک‘ ، ’سکاتھی‘ ، ’سکال‘ ، ’سرتر‘ ، ’ستنگر‘ ، ’ترکیک‘ ، ’ٹارووس‘ ، ’ٹیلیسٹو‘ ، ’ٹیتھیز‘ ، ’تھریمر‘ ، ’ٹائٹن‘ اور ’یمیر‘ ہیں۔

’یورینس‘ کے 27 چاندوں کے نام ’ایریل‘ ، ’بیلنڈا‘ ، ’بیانکا‘ ، ’کیلیبان‘ ، ’کورڈیلیا‘ ، ’کریسیڈا‘ ، ’کیوپڈ‘ ، ’ڈیسڈیمونا‘ ، ’فرڈینینڈ‘ ، ’فرانسسکو‘ ، ’جولیٹ‘ ، ’میب‘ ، ’مارگریٹ‘ ، ’مرانڈا‘ ، ’اوبیرون‘ ، ’اوفیلیا‘ ، ’پرڈیٹا‘ ، ’پورشیا‘ ، ’پراسپیرو‘ ، ’پک‘ ، ’روزالنڈ‘ ، ’سیٹبوس‘ ، ’سٹیفانو‘ ، ’سائکوریکس‘ ، ’ٹائٹینیا‘ ، ’ٹرنکولو‘ اور ’ایمبریل‘ ہیں۔ نیپچون کے 14 چاند، بنام ’ڈیسپینا‘ ، ’گالیٹا‘ ، ’ہیلی میڈے‘ ، ’ہپپوکیمپ‘ ، ’لاؤمیڈیا‘ ، ’لریسا‘ ، ’نیاڈ‘ ، ’نیریڈ‘ ، ’نیسو‘ ، ’پروٹیس‘ ، ’ساماتھے‘ ، ’ساؤ‘ ، ’تھلاسا‘ اور ’ٹرائٹن‘ ، جبکہ پلوٹو کے 5 چاندوں کے نام بالترتیب: ’شارون‘ ، ’ہائیڈرا‘ ، ’کربیروس‘ ، ’نکس‘ اور ’سٹیکس‘ ہیں۔

یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ مختلف سیاروں کے چاندوں پر نام کیسے رکھے جاتے ہیں؟ ہمارے نظام شمسی میں زیادہ تر چاندوں کا نام مختلف ثقافتوں کے افسانوی کرداروں پر رکھے گئے ہیں۔ مثلاً: ’زحل‘ پر دریافت ہونے والے تازہ ترین چاندوں کے نام ’نارس‘ دیوتا کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک نام ’برگیلمیر‘ بھی ہے، جو یونانی دیومالائی قصوں میں ایک دیوتا کے طور پر مذکور ہے۔ جبکہ ’یورینس‘ سیارہ، دیو مالائی قصوں پر نام رکھے جانے والی اس روایت سے مستثنیٰ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ’یورینس‘ کے چاندوں کے نام، ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں کے کرداروں سے لیے گئے ہیں۔ جن میں ’اوفیلیا‘ اور ’پک‘ وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ ’یورینین‘ کے چاندوں کے نام ( ’بیلنڈا‘ اور ’ایریل‘ ) ، الیگزینڈر پوپ کی شاعری سے چنے گئے ہیں۔ یعنی اگر پاکستان مستقبل بعید میں کبھی بھی خلائی تحقیق کے میدان میں ترقی کر لے (دل کے خوش رکھنے کو ’غالب‘ ! یہ خیال اچھا ہے! ) تو، ہم اپنے دریافت شدہ سیاروں، سیارچوں یا ان کے چاندوں کے نام شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، بلھے شاہ، وارث شاہ اور حضرت بابا فریدالدین شکر گنج وغیرہ کے کرداروں کے پیچھے ’سسئی‘ ، ’مارئی‘ ، ’ہیر‘ ، ’مومل‘ ، ’ناتر‘ ، ’جادم‘ ، ’لاکھو‘ ، ’مورڑو‘ ، ’پنہوں‘ اور ’رانجھا‘ وغیرہ رکھ سکتے ہیں۔

زمین کا واحد چاند غالباً اس وقت تشکیل پایا، جب مریخ کے سائز کے برابر ایک بڑا جسم زمین سے آ ٹکرایا، جس نے ہمارے سیارے (زمین) سے بہت سارے مواد کو اس کے مدار سے نکال دیا۔ ابتدائی زمین کا ملبہ اور متاثر کرنے والا جسم تقریباً ساڑھے 4 ارب سال پہلے چاند کی تشکیل کے لیے جمع ہوا (جو خلا میں موجود سب سے قدیم جمع شدہ چاند کی چٹانوں کی عمر کے برابر ہے ) ۔ 1969 ء سے 1972 ء تک ’ناسا‘ کے ’اپولو پروگرام‘ کے دوران 12 امریکی خلاباز چاند پر اترے، جنہوں نے چاند کا مطالعہ کیا اور وہاں سے چٹانوں کے نمونے زمین پر لائے۔

عام طور پر چاند کا نام لینے سے گیند کی طرح کی ایک گول چیز کا تصور ذہن میں آتا ہے، جیسے زمین کا چاند ہے بھی۔ مگر مریخ کے دو چاند ’فوبوس‘ اور ’ڈیموس‘ زمین کے چاند سے قدرے مختلف ہیں۔ جبکہ دونوں کا مدار تقریباً گول ہے اور وہ اپنے سیارے کے خط استوا کے علاقے کے قریب قریب سفر کرتے ہیں، اور ان دونوں کی سطح گانٹھ دار (ناہموار اور خام/ ’لمپی‘ ) اور سیاہ ہے۔ ’فوبوس‘ اپنی مخصوص حرکت سے آہستہ آہستہ مریخ کے قریب آ رہا ہے، اور خلائی ماہرین خیال ہے کہ 4 یا 5 کروڑ سالوں میں اس سے ٹکرا سکتا ہے۔ یا دوسری صورت میں مریخ کی کشش ثقل، ’فوبوس‘ کو توڑ کر اپنے گرد ایک پتلے چھلے (رنگ) کی صورت میں پھیلا بھی سکتی ہے۔

دیوہیکل سیاروں کے چاندوں کے حوالے سے تحقیق کو دیکھا جائے تو ’مشتری‘ (جیوپیٹر) کے چاندوں کے حیرت انگیز اور متنوع مجموعے میں ’گنیمیڈ‘ ، نظام شمسی کے سب سے بڑے چاند کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مشتری کے دیگر چاندوں میں ’یورپا‘ نامی سمندری چاند (سمندری پانی سے بنا چاند) اور ’لو‘ نامی آتش فشاںئی چاند (جس میں کئی آتش فشاں ابلتے رہتے ہیں ) شامل ہیں۔ مشتری کے اکثر بیرونی چاندوں کے مدار (گردش کے راستے ) انتہائی بیضوی اور الٹی گردش کرنے والے (سیارے کی حرکت کے مخالف سمت میں گردش کرنے والے ) ہیں۔ ’زحل‘ (سیٹرن) ، ’یورینس‘ اور ’نیپچون‘ کے بھی کچھ چاند فاسد (بے ترتیب حرکت میں محو) ہیں، جو اپنے اپنے سیاروں سے بہت دور دور گردش کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان سے روٹھے روٹھے سے ہوں۔

’اینسیلاڈس‘ اور ’ٹائٹن‘ ، زحل کے دو سمندری چاند ہیں۔ ان دونوں میں زیر سطح سمندر پائے جاتے ہیں۔ ’ٹائٹن‘ کی تو سطح کے اوپر بھی ’ایتھین‘ اور ’میتھین‘ گیسوں سے بنے سمندر اور جھیلیں موجود ہیں۔ زحل کے گرد موجود برف اور چٹان کے ٹکڑوں (اور دیگر بیرونی سیاروں کے گرد موجود ذرات) کو چاند نہیں سمجھا جاتا، اس کے باوجود زحل کے حلقوں میں سرایت کرنے والے الگ الگ چاند یا ’چاندچے‘ (چھوٹے چاند) موجود ہیں۔ یہ چاند چرواہوں کی طرح زحل کے گرد موجود چھلوں کو قطار میں رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا چاند ’ٹائٹن‘ ہے، جو وہ واحد چاند ہے، جس کی فضا سب سے موٹی ہے۔

برف کے دیوہیکل وجودوں کی بادشاہت میں موجود، ’یورینس‘ کے اندرونی چاند تقریباً آدھے پانی یا برف اور آدھے چٹان سے بنے دکھائی دیتے ہیں۔ ان چاندوں میں سے ’مرانڈا‘ نامی چاند سب سے زیادہ غیر معمولی ہے، جس کی کٹی ہوئی شکل بڑے پتھریلے اجسام کے اثرات کے نشانات کو ظاہر کرتی ہے۔ ’نیپچون‘ کا چاند ’ٹریٹن‘ خود پلوٹو سیارے جتنا بڑا ہے اور نیپچون کی گردش کی سمت کے مقابلے میں پیچھے کی طرف چکر کاٹتا ہے۔

اگر بونے سیاروں کے چاندوں کا ذکر کیا جائے، تو ’پلوٹو‘ کے بڑے چاند ’چارون‘ کا سائز پلوٹو کے تقریباً نصف برابر ہے۔ ہماری زمین کے چاند کی طرح، ’چارون‘ کے بھی ملبے سے بنے ہوئے ہونے کے امکانات موجود ہیں، جو ابتدائی/ قدیم ایام میں ’پلوٹو‘ کے ساتھ کسی بڑے متاثر کن اور تباہ کن تصادم کا نتیجہ گدرانا جا رہا ہے۔ ’پلوٹو‘ کے حوالے سے تحقیق اور اس کا مطالعہ کرنے کے لیے ’حبل خلائی دوربین‘ (ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ) کا استعمال کرتے ہوئے، سائنسدانوں نے مزید چار چھوٹے چاند تلاش کر لیے ہیں۔ اب ”یک ’چارون‘ نہ شد۔ چہار دیگر شد!“

’پلوٹو‘ سے بھی زیادہ دور ’ایرس‘ نامی ایک اور بونے سیارے کا اپنا ایک چھوٹا سا چاند ہے، جس کا نام ’ڈیسنومیا‘ ہے۔ ’ہاومیا‘ نامی ایک اور بونے سیارے کے ’ہائیاکا‘ اور ’ناماکا‘ نامی دو سیٹلائٹس ہیں۔ جبکہ ’سیرس‘ نامی، سورج کے قریب ترین بونے سیارے کا کوئی چاند نہیں ہے۔ اور وہ بے چارہ بھی ’مرکری‘ اور ’وینس‘ کی طرح کنوارہ ہے۔

’ایسٹرائڈ اڈا‘ نامی خلائی مہم کے تحت، ’گلیلیو‘ نامی خلائی جہاز کے ذریعے 1993 ء میں کسی بھی سیارچے کے گرد پہلی بار چکر کاٹنے اور اس سیارچے کے پاس سے اڑ کر گزرنے (فلائی پاسٹ) سے پہلے، خلائی سائنسدانوں کو اس بات کا یقین ہی نہیں تھا کہ آیا سیارچے، چاندوں کو اپنے مدار میں رکھ بھی سکتے ہیں یا نہیں!

ابھی نہ جانے کتنی اور کہکشائیں، ان کے نہ جانے کتنے انگنت سیارے اور سیارچے اور ان کے کتنے چاند دریافت ہونے ہیں اور ہمیں ان کی ہیئیتوں اور وجود پر ششدر ہونا ہے، کیونکہ:

”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔“

 



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments