اسلام آباد سے موٹر سائیکل پر سوات کا پہلا اور یادگار سفر

بلال کریم مغل - بی بی سی اردو


سوات
شنگرئی آبشار مینگورہ سے ایک گپنٹے کی مسافت پر ہے اور یہاں پہنچنے کے لیے 20 منٹ تک پہاڑی سے نیچے اترنا پڑتا ہے
ہم میں سے بہت سے لوگ سفر کرتے ہیں، کچھ گاڑی پر تو کچھ پبلک ٹرانسپورٹ پر مگر کچھ ہم جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنھیں بائیک کے سفر کا شوق ہے۔ اگر تو آپ میں بھی یہ شوق ہے اور آپ نے اس سے قبل کبھی بائیک پر ٹور نہیں کیا یا کیا ہے مگر سوات تک نہیں گئے تو یہ رپورٹ آپ کے لیے ہی ہے۔

سنہ 2018 میں پہلی مرتبہ جب سوات کا سفر کیا تھا تو یہ بس کے ذریعے ممکن ہوا تھا مگر اب کی بار جب بائیک پر اسلام آباد سے سوات کا خیال ذہن میں وارد ہوا تو یوں سمجھیں کہ مقررہ دن تک دن گزارنے مشکل ہو گئے۔

کراچی سے میرے ایک دوست حنین نے بھی اس سفر پر ساتھ چلنا تھا تو ایک دن پہلے تک وہ بھی اسلام آباد پہنچ گئے۔ روانگی سے ایک دو دن قبل تک موٹر سائیکل کی تمام الیکٹریکل اور مکینیکل چیزوں اور پرزوں وغیرہ کا گہرائی سے جائزہ لیا اور یہ تسلی کر لی کہ کسی چیز کے کہیں دھوکہ دینے کا امکان تو نہیں۔

سفر کی تیاری کیسے کی جائے؟

بائیک پر پہاڑی علاقوں کا سفر کافی خوشگوار ہو سکتا ہے اگر آپ نے ساری چیزیں پہلے سے ٹھیک ٹھاک کر کے رکھی ہوں، مثلاً بائیک کی وائرنگ، پلگ، ٹائرز، چین، بریک شوز اور ان کے سپرنگز یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کا معائنہ ہر بائیک ٹرپ پر نکلنے سے پہلے لازم ہے ورنہ ان سے ہونے والی خواری خاصا مالی نقصان اور ذہنی اذیت پہنچا سکتی ہے اور ذاتی حفاظت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔

اور اگر آپ ساتھ لے جانے والے سامان کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو وہ کون سی ضروری اشیا ہیں جو آپ کے ساتھ ہونی چاہیے؟

آپ کی سہولت کے لیے بتا دیتے ہیں کہ بائیک کے کاغذات، ڈرائیونگ لائسنس، درد کش دوائیں، کھنچے ہوئے پٹھوں کے لیے وولٹرال کی کریم، وکس، گرم پٹی، روئی، ڈیٹول، بے بی آئل تاکہ پسینہ ٹھہرنے کی وجہ سے زخم نہ بن جائیں، اضافی کپڑے، برساتی، گرم ٹوپی، ٹارچ، پاور بینک، انٹرنیٹ کی ڈیوائس (یا پیکج کر لیں)، ذیابیطس نہیں تو چاکلیٹس، پانی کی بوتلیں اور ایک خالی بوتل۔

یہ تو وہ بنیادی اشیا ہیں جن کے بغیر آپ نے کسی بھی صورت نکلنا ہی نہیں۔

اس کے علاوہ بائیک کے پرزے چونکہ آپ پہلے ہی چیک کر چکے ہوں گے اس لیے شاید ان کی زیادہ ضرورت نہ پڑے لیکن احتیاطاً اگر آپ اضافی انجن آئل، فیوز، کسی بوتل میں پیٹرول، بیرنگز، گریس ساتھ رکھیں تو سفر میں آپ کو کسی بھی قسم کی پریشانی سے نجات مل سکتی ہے۔ تفصیلی فہرست آپ کو انٹرنیٹ پر بائیکر گروپس میں باآسانی مل سکتی ہے۔

اس کے علاوہ آپ کی بائیک میں جن تمام اوزاروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے وہ کسی باکس میں آپ کے ساتھ ہونے چاہیے تاکہ اگر آپ کہیں کسی مشکل میں پھنس جائیں تو آپ کے پاس ضروری اوزار ضرور ہوں۔

سوات

اگر آپ کو خود کام نہیں بھی آتا تو آج کل کئی فیس بک گروپس میں آپ اسی وقت آن لائن پوسٹ کر سکتے ہیں اور فون پر آپ کو کوئی سمجھا سکتا ہے مگر اوزار نہیں ہوں گے تو کام نہیں بنے گا۔

اور بائیک پر ہائی وے کا سفر کرنے کے لیے موسم کے اعتبار سے ہلکی یا بھاری جیکٹ (مگر جیکٹ ضرور ہو)، ہیلمٹ، دستانے، ٹخنوں تک بند جوتے اور ٹخنوں تک آتی پینٹ یا ٹراؤزر سمیت گھٹنوں، کندھوں اور کہنیوں کے پیڈز بھی لازمی ہیں۔

سوات میں دیکھنے کے لیے خاص خاص جگہوں میں شنگرئی آبشار، مہوڈنڈ جھیل، جاروگو آبشار، مرغزار، کالام، اتروڑ، کنڈول جھیل، ڈونچار آبشار، گبین جبہ، مالم جبہ اور دیگر لاتعداد نگینے ہیں جن تمام کا احاطہ اس ایک تحریر میں ممکن نہیں۔

سفر کی شروعات اور چند احتیاطیں

ایک بھرپور ناشتے کے بعد رات کو تین بجے ہم اسلام آباد سے نکل گئے۔ سستا زمانہ (مئی کا وسط) تھا سو پیٹرول کا ٹینک مکمل بھرواتے ہوئے ہچکچاہٹ نہیں ہوئی اور یوں ہم نے سرینگر ہائی وے سے ہوتے ہوئے جی ٹی روڈ کی راہ لی۔

موٹروے پر چونکہ دو پہیوں والی سواری کو داخلے کی اجازت نہیں، اس لیے بے چارے بائیکرز کے لیے صرف جی ٹی روڈ ہی بچتا ہے جس کی حالتِ زار کئی مقامات پر کسی گاؤں کی گلیوں جیسی لگتی ہے۔

خاص طور پر اگر آپ کو کہیں سڑک کھرچی ہوئی نظر آئے تو فوراً یا تو لین بدل لیں اور یہ نہ ممکن ہو تو رفتار حد درجہ آہستہ کر لیں ورنہ اس سڑک کی مرمت تو جب ہونی ہے تب ہونی ہے، آپ کو اور آپ کی بائیک کو ٹھیک ٹھاک مرمت کی ضرورت پڑ جائے گی۔

یہ اتنی رات گئے سفر کے آغاز کا میرا پہلا موقع تھا اور ایسا ہم نے اس لیے کیا کیونکہ اگر آپ اسلام آباد سے سوات بذریعہ جی ٹی روڈ جانا چاہ رہے ہیں، تو ٹیکسلا و حسن ابدال سے لے کر اٹک تک کا ٹریفک ہی آپ کا خاصا وقت مفت میں ضائع کر سکتا ہے، گرمی اور دھول مٹی کی کوفت الگ۔

سو اپنی سُبک خرام موٹر سائیکل پر خراماں خراماں اور تھوڑی سی خنکی میں سفر طے ہوتا رہا یہاں تک کہ ہم نوشہرہ سے مردان جانے والی سڑک پر دریائے کابل کے پل پر پہنچ گئے۔

سوات

نوشہرہ میں دریائے کابل کے پل پر ہم نے تھوڑی دیر غور کیا کہ کیسے کیسے فاتحین انہی راستوں سے گزر کر برِصغیر میں داخل ہوئے ہوں گے

صبح کے سات بج رہے تھے۔ مردان میں ہم نے عبد الولی خان یونیورسٹی کے پاس ریلوے لائن کی دوسری طرف بنے ایک ریستوران پر دوبارہ سے ایک بھرپور ناشتہ کیا اور پھر کچھ دیر بعد مالاکنڈ میں داخل ہونے لگے۔

یہاں خیبر پختونخوا پولیس سے اس سفر کی پہلی علیک سلیک ہوئی۔ دور سے ہی رکنے کا اشارہ کیا گیا۔ جب میں نے بائیک روکی تو ٹریفک سارجنٹ صاحب پاس آئے، نہایت شائستگی سے سلام کیا، مصافحہ کیا اور لائسنس مانگا۔ کوئی اضافی سوالات نہیں، بس لائسنس دیکھا اور جانے کا اشارہ کر دیا۔

اس کے بعد درگئی پر پھر چائے، خوبانیوں اور پکوڑوں سے ہم نے اپنی تواضع خود کی۔ یہ پہاڑی راستہ کافی بلندی پر ہے اس لیے یہاں پر کافی تیز ہوا چلتی ہے اس لیے رفتار کے بجائے بس ہینڈلنگ پر توجہ دیں۔ سوات میں داخل ہونے پر ایک مرتبہ پھر شناختی کارڈز کی پڑتال کی گئی مگر یہ بھی نہایت خوش مزاجی سے پوری ہوئی۔

مینگورہ میں پہلا دن

صبح کے 11 بجے ہم مینگورہ میں تھے۔ بائیک کا سفر کبھی کبھی بہت زیادہ تھکا دیتا ہے، کافی وقت لے لیتا ہے۔ اس سفر نے دو گھنٹے کے وقفے ساتھ ہمارے نو گھنٹے لیے لیکن یہ سفر ایسا ہے جس میں وقت بھلے لگ جائے، جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور پھر راستے میں جگہ جگہ رک کر پہاڑی مناظر اور طرح طرح کے سنیکس سے لطف اندوز ہو کر سفر کرنے کا جو مزہ ہے، اس کی کیا ہی بات ہے۔

سوات

درّہ مالاکنڈ پر ہمارا سفر بادلوں کے سائے میں ہوتا رہا

سوات میں ہمارے میزبان مقامی صحافی اور میرے دوست تھے جن کے پاس تھوڑی دیر سستانے اور کھانے سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہونے کے بعد وائٹ پیلس یا قصرِ سفید کی راہ لی۔

یہ جگہ مینگورہ شہر سے کوئی نصف گھنٹے بائیک کی مسافت پر واقع ہے اور یہاں ایک تاریخی محل ہے جو والی سوات کی گرمائی رہائش گاہ ہے۔ یہاں پاس ہی میں نیچر ریسٹورنٹ نامی ایک جگہ پر ہم چائے کے لیے رکے۔

چارپائی پر بیٹھتے ہی لیٹنے کا دل کیا اور لیٹتے ہی سونے کا، سو بہتے پانی کے شور اور پرندوں کی چہچہاہٹ کے دوران فوراً نیند آ گئی۔

سوات

تھوڑی دیر بعد اٹھ کر نیچر ریسٹورنٹ کے ساتھ ہی ایک نالے میں پڑی چٹانوں پر خود کو کسی طرح فکس کر کے کچھ دیر خود کو تازہ دم کیا اور پھر واپس مینگورہ کے لیے نکل پڑے۔

مینگورہ شہر اب اپنے اصل حجم سے کہیں زیادہ پھیل چکا ہے اور آبادی بڑھنے کی وجہ سے یہاں کے ماحولیاتی مسائل اور ٹریفک میں اضافہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود اس شہر میں بائیک اور رکشے سے لے کر گاڑیوں اور ٹرکوں تک ہر کسی کا ٹریفک سینس مجھے بہت بھایا۔

نہ کوئی بے جا ہارن کا استعمال نہ ہی دوسرے کو روند دینے جیسی کٹنگ اور اوورسپیڈنگ، اب تک پاکستان کے جتنے شہروں میں بائیک چلانے کا اتفاق ہوا ہے، سب سے پرسکون تجربہ سوات میں ہی رہا۔

سوات

کالام میں جس جگہ کا آپ سب سے پہلے مزہ اٹھا سکتے ہیں وہ اوشو جنگل ہے

کالام اور اتروڑ کی جانب

اگلے دن ہم نے کالام کی راہ لی۔ مینگورہ سے چونکہ مزید دوست ہمارے ساتھ ہو لیے تھے اس لیے بائیک کو مینگورہ میں ہی چھوڑا اور ایک ڈالے میں سات آٹھ لوگ کالام کے لیے نکل پڑے۔

لیکن اگر آپ بائیک پر بھی کالام جانا چاہیں تو روڈ بہت زبردست ہے اور کیا ہی نظارے ہیں۔ صرف بیچ میں شاید کوئی نصف کلومیٹر کا ٹکڑا تھا جہاں تعمیراتی کام ہو رہا تھا، باقی تمام راستہ آپ کے لیے صاف ہے۔

کالام پہنچیں تو وہیں تھوڑا سا آگے اوشو فاریسٹ کے نام سے ایک کیمپنگ سائٹ ہے جہاں اندر آپ کے لیے درختوں سے بندھے جھولے، ٹری ہاؤس، گول گپے، کیمپس، گھڑ سواری اور نجانے کیا کیا ماحول دوست تفریحی سرگرمیاں دستیاب ہیں۔

اگر آپ نیچے کالام کے مرکزی بازار میں نہیں ٹھہرنا چاہتے تو اوشو فاریسٹ آپ کے لیے بہترین جگہ ہو سکتی ہے۔

جب آپ کالام میں رات گزار چکیں تو اگلے دن مہوڈنڈ جھیل جا سکتے ہیں جو وہاں سے ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے اور سڑک بھی کافی بہتر ہے۔ وہاں سے آگے ہی ڈونچار آبشار کے لیے بھی راستہ ہے مگر اس کے لیے آپ کو ہائیکنگ کرنی پڑے گی۔

سوات

کنڈول جھیل تک پہنچنے کے لیے وادی اتروڑ میں پہلے لدھو تک گاڑی میں اور اس کے بعد تین گھنٹے تک پیدل چڑھائی کرنی پڑ سکتی ہے

ہم نے کالام سے اوپر وادی اتروڑ میں کنڈول جھیل جانے کا ارادہ کیا۔ سوچا یہ تھا کہ ڈالے میں ہی دو گھنٹے کی پہاڑی مسافت کریں گے اور جہاں گاڑی کا راستہ ختم ہو جائے گا، وہاں سے آگے تین گھنٹے ہائیک کریں گے تو کنڈول جھیل پہنچ جائیں گے۔

راستے میں ہم لدھو نامی جگہ تک ہی پہنچے تھے جہاں ہمیں گاڑی چھوڑنی تھی کہ شدید بارش اور آسمانی بجلیوں نے آ لیا۔

کنڈول جھیل تک مزید ہائیکنگ محال تھی چنانچہ کافی دیر بارش رکنے کا انتظار کرتے رہے اور بالآخر دل پر پتھر رکھ کر واپس کالام آ گئے۔

کالام اور بحرین کے درمیان ایک جگہ اتھان کیبل کار کے نام سے ہے جہاں پر مقامی انجینیئرنگ کا ایک شاہکار دیکھنے کو ملتا ہے۔

یہاں پر ایک گاڑی کا ٹائر نکال کر ایکسل کے ساتھ ایک کیبل کار جوڑی گئی ہے جو دریائے سوات عبور کرواتی ہے اور دوسری طرف ایک خوبصورت آبشار آپ کا استقبال کرتی ہے۔

اس کیبل کار کی سواری کرنے کے بعد ہم کچھ کچھ بارش سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مینگورہ واپس پہنچے اس سوچ کے ساتھ کہ اگلے دن مالم جبہ جائیں گے۔

سوات

اتھان کیبل کار، مقامی انجینیئرنگ کا ایک شاہکار
سوات

گاڑی گیئر میں ڈال کر ایکسلریٹر دبایا جائے تو کیبل کار دریا پار کروا دیتی ہے

مالم جبہ میں زپ لائن اور بہت کچھ

موٹرسائیکل کی ایک مرتبہ پھر ساری چیکنگ تسلی سے کر لینے کے بعد ہم نے مالم جبہ کے راستے پر بائیک دوڑانی شروع کر دی۔ مینگورہ شہر سے لے کر اوپر مالم جبہ ٹاپ تک کا راستہ نہایت صاف ستھرا، کشادہ اور ہموار بنا ہوا ہے، سو بائیک بس پھسلتی ہی جاتی ہے۔

خیال رکھیے گا کہیں زیادہ ہی نہ پھسل جائے۔

ہمارے ساتھ ایک اور دوست بھی اپنی موٹرسائیکل پر ہمراہ تھا۔ راستے میں اسے ایک جگہ پولیس نے رکنے کا اشارہ کیا۔ ہم بھی ساتھ ہی رک گئے مگر پتا لگا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی بلکہ پولیس اہلکار ہر خالی جانے والے موٹرسائیکل سوار سے وہاں کھڑے سکول کے بچوں کو لفٹ دینے کے لیے کہہ رہا تھا جو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔

مالم جبہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوا تھا اور وہاں زپ لائن کرنے کی بڑی خواہش تھی۔

سوات

مالم جبہ کے راستے میں مقامی لوگوں نے محفلِ موسیقی جما رکھی تھی جس میں شرکت کی
سوات

مالم جبہ کی زپ لائن آپ کو اس پہاڑ کی تقریباً چوٹی سے لا کر پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کی چھت پر اتارتی ہے

مالم جبہ کے سکی ریزورٹ میں داخلے، چیئر لفٹ اور زپ لائن تینوں کی الگ الگ ٹکٹس ہیں اور چیئر لفٹ میں بیٹھ کر پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنا پڑتا ہے اور وہاں سے زپ لائن کر کے آپ نیچے آ سکتے ہیں۔

یہ حقیقت میں ایک بہت ہی منفرد تجربہ تھا اور شام ڈھلے پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتے سورج کے ساتھ زپ لائن کرنا ایک ایسا منظر ہے جو ابھی بھی دوبارہ سوچوں تو دل مسرور ہو جاتا ہے۔

یہیں مالم جبہ میں نیچے ایک ورچوئل ریئلیٹی کارنر بھی ہے جہاں سر پر ورچوئل ریئلیٹی ہیڈ سیٹ پہن کر شدید گرمی میں ہی سکیئنگ کرنے کا مزہ لیا۔

پہاڑی راستوں کی احتیاطی تدابیر

مغرب کے بعد ہم مالم جبہ سے نیچے اُتر آئے۔ مالم جبہ کا راستہ رات میں بے حد تاریک ہے اور اگر آپ موٹرسائیکل پر جا رہے ہیں تو یقینی بنائیں کہ آپ کی بائیک میں فوگ لیمپس لگے ہوں ورنہ ہیڈ لائٹ ناکافی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

اور ایک بات۔ رات کا سفر ہو چاہے دن کا، موٹرسائیکل پر آپ کے ساتھ ہمیشہ ایک ہلکی جیکٹ اور دستانے ہونے چاہیے۔ جہاں یہ آپ کو اڑتے ہوئے کیڑوں یا ہوا میں موجود کسی اور چیز سے تحفظ فراہم کرتے ہیں وہیں دن میں جھلسنے سے اور رات میں اچانک کہیں ملنے والی ٹھنڈ سے بچا سکتے ہیں۔ نہ ہوں تو ہی آپ کو یاد آئے گی۔

سوات

مالم جبہ پر شام ڈھل رہی ہے

پہاڑیوں سے اترتے ہوئے کبھی بھی موٹرسائیکل کو نہ نیوٹرل کریں اور نہ بلند گیئرز میں رکھیں۔ اگر اترائی بہت زیادہ ہے تو پہلا گیئر، اگر مناسب ہے تو دوسرا گیئر اور اگر نسبتاً ہموار راستہ ہے تو حالات دیکھ کر تیسرا گیئر ڈالا جا سکتا ہے مگر اس پر بائیک زیادہ رفتار پکڑ لیتی ہے اور سختی سے بریک لگانے کی صورت میں پھسل سکتی ہے۔

اب ہمارے سامنے ایک اور مرحلہ تھا اور وہ تھا اسی رات پشاور نکلنے کا کیونکہ اگلے دن پشاور میں ایک کام تھا۔ سوچا کہ صبح نکل کر گرمی میں خراب ہونے سے بہتر ہے کہ رات ہی میں نکل جایا جائے۔ چنانچہ کھانا وغیرہ کھا کر رات کو 12 بجے کے قریب ہم نے پیٹرول ٹینک دوبارہ فل کروایا اور مینگورہ سے نکل پڑے۔

چاند کے ہمراہ سفر

اس سفر میں چاند پوری رات ہمارے ہمراہ رہا۔ مالاکنڈ کا راستہ رات میں سفر کے لیے کافی محفوظ ہے کیونکہ پہاڑ ہونے کی وجہ سے بھاری ٹریفک کی رفتار بہت کم ہوتی ہے، چھوٹی ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے اور امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں۔

خاص طور پر وادی نیلم کی سڑک کے مقابلے میں یہ سڑک نہایت کشادہ ہے اور اندھے موڑ اتنے زیادہ نہیں، جتنے نیلم کے راستے میں ملتے ہیں، سو اگر تسلی سے بائیک چلائی جائے تو رات میں اس راستے کا الگ ہی لطف ہے۔

سوات

درّہ مالاکنڈ کا راستہ رات میں سفر کرنے کے لیے محفوظ ہے مگر نہایت تاریک ہے اور کسی مسئلے کی صورت میں مدد کا ملنا تقریباً ناممکن ہے

ویسے اتنی رات میں ان سڑکوں پر سفر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ کسی مسئلے کی صورت میں مدد کا ملنا نا ممکن ہے اور اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو کوئی ٹرک ڈرائیور آپ پر ترس کھا کر مدد کے لیے رک جائے۔

پہاڑی راستوں پر آپ چاہے دن میں سفر کریں یا رات میں، ایک بات جس کا دھیان رکھنا چاہیے، وہ یہ کہ اگر موڑ کاٹتے ہوئے آپ کی رفتار تھوڑی بھی زیادہ ہے تو آپ دوسری لین میں چلے جائیں گے کیونکہ بائیک کو آپ کار کی طرح ایک ساتھ بہت زیادہ سٹیئر نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ کو ریس ٹریک کا تجربہ نہ ہو۔ سو زیادہ موڑ والی سڑک پر ہمیشہ اپنی رفتار بس اتنی رکھیں کہ کہیں آپ دوسری لین میں نہ چلے جائیں ورنہ حادثہ ہو سکتا ہے۔

رات میں لنک روڈز سے بچیں

ہم چونکہ یہاں سے پشاور جا رہے تھے تو گوگل میپس نے ہمیں مردان کے بعد چارسدہ والے لنک روڈ پر ڈالنا چاہا مگر ہم نے اس کی اس خواہش کو مسترد کر دیا کیونکہ رات کے سفر کے لیے کبھی بھی لنک روڈ کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے اِلّا یہ کہ اور کوئی راستہ دستیاب ہی نہ ہو۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد ہم نے مردان رنگ روڈ لے لیا۔

سامنے چاند، ریشمی سڑک اور ٹریفک تقریباً غائب، اس سڑک پر بائیک چلا کر جیسے تھکن ہی اتر گئی اور بھرپور انجوائے کیا۔

مردان رنگ روڈ پر

مردان رنگ روڈ پر چاند کے ہمراہ سفر

علی الصبح پشاور پہنچے جہاں ایک ہوٹل میں پہلے ہی ہماری بکنگ موجود تھی۔

پشاور کے کھانوں میں نثار چرسی تکے کا نام تو سب نے ہی سنا ہے پر اگر آپ بھی میری طرح چاولوں کے دیوانے ہیں تو قصہ خوانی بازار میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی طرف سے داخل ہوتے ہی ذائقہ چاول نامی ایک چھوٹی سی دکان ہے جس کا مشہور بیف چنا پلاؤ آپ نے ایک مرتبہ کھا لیا تو آپ دوسری پلیٹ بھروائے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

سوات

قصہ خوانی بازار میں ذائقہ چاول

شام ہونے لگی تھی اور ہلکی ہلکی بارش بھی شروع ہو رہی تھی۔ ایک دوست سے ملاقات کے بعد ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا اور جی ٹی روڈ پر آ گئے۔

موٹرسائیکل ٹور پر جانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ہمیشہ ایک برساتی، جوتوں پر پہننے والے واٹر پروف کور اور واٹر پروف دستانے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے کسی بھی ٹور پر نکلنے سے پہلے تمام وہ الیکٹریکل پوائنٹس جو بارش میں بھیگ سکتے ہیں ان پر ہلکا سا ڈبلیو ڈی 40 آئل ضرور لگانا ہے جو پانی کو ان پر ٹھہرنے نہیں دیتا۔

خاص طور پر پلگ کا کور آپ نے ٹیپ یا گوند سے اچھی طرح ایسے سیل رکھنا ہے کہ پانی پلگ تک نہ پہنچے۔ آپ اگر اپنی بائیک کا خیال رکھیں گے تو آپ کی بائیک بارش میں (یا کسی بھی مشکل میں) کبھی آپ کو دھوکہ نہیں دے گی۔

واپسی کا سفر آہستہ آہستہ کٹتا رہا یہاں تک کہ ہم حسن ابدال پہنچ گئے اور میاں جی کی مشہور دال کھائی۔ جی مجھے معلوم ہے کہ اب آپ مجھے لالہ موسیٰ کی یاد دلائیں گے لیکن یہاں بھی کھانا بہت مزیدار ہے۔

سوات

حسن ابدال پر ہمارا آخری ہائی وے ڈنر

آخری معرکہ

حسن ابدال سے سنگجانی ٹول پلازہ تک کی سڑک مرمت نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر بائیکرز کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

یہاں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا بورڈ تو کہیں کہیں نظر آ جاتا ہے کہ ’میکنگ ہائی ویز سیفر‘ یعنی ہم شاہراہیں محفوظ بنا رہے ہیں مگر آپ کے لیے بہتر رہے گا کہ آپ خود اپنی حفاظت کا بندوبست رکھیں کیونکہ یہ سڑک نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی نظرِ کرم کی محتاج ہے۔

یہاں پر آپ نے جلد بازی نہیں کرنی کیونکہ کئی جگہ تو سڑک باقاعدہ بلبلوں کی طرح ناہموار ہے جو بائیک گرا سکتی ہے اور ہیوی ٹریفک بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

آنکھوں میں مٹی پڑنا ایک الگ مصیبت ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ایک گوگلز ضرور لے لیں جو موٹرسائیکل کے سفر میں آپ کی آنکھوں کی تب بھی حفاظت کریں گے جب آپ نے ہیلمٹ کا وائزر کھلا رکھا ہو گا۔

سوات

سوات زمین پر وہ حسین خطہ ہے جہاں جا کر انسان کا واپس اپنی دنیا میں آنے کا دل نہیں کرتا

رات کے تقریباً ساڑھے 12 بجے ہم سرینگر ہائی وے پر تھے اور تھوڑی ہی دیر میں اپنے گھر واپس تھے۔

ہمارا یہ پورا سفر بائیک پر 763 کلومیٹر کا رہا جس میں تقریباً 3500 روپے کا پیٹرول خرچ ہوا۔ اگر اس میں آپ مینگورہ سے کالام اور وہاں سے واپس مینگورہ تک کا فاصلہ بھی شامل کرنا چاہیں تو یہ تقریباً 200 کلومیٹر اضافی بنتا ہے۔

ہر جگہ پر آپ کے بجٹ کے حساب سے رہائش دستیاب ہے، کھانا نہایت سستا ہے اور سچ پوچھیں تو لوگ اتنے مہمان نواز ہیں کہ کئی جگہ تو ادائیگی کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔

قدرتی خوبصورتی سے مالامال اور خوش اخلاق لوگوں کا یہ خطہ آپ کا منتظر ہے۔ تو آپ کب بائیک پر سوات جا رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments