وہ کون تھا؟


1) وہ جس جانب نظر کرتا تمام فوج اس سمت دیکھنے لگتی۔ دستور شکنی کے بعد وہ ریاست کے سیاہ و سفید کے مالک و مختار بن بیٹھا۔ ایٹمی ملک کی افواج، عدالتیں، مجلس شوریٰ سمیت تمام ادارے ان کے حکم کے پابند تھے۔ قاضی القضاۃ کو قید کر کے سیاسی قتل عام کروانے کے بعد مکے لہرا کے اظہار قوت کیا کرتے۔ ان کا مشہور ڈائلاگ تھا میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔ وہ خود کو دنیا کی سپر پاور کا اتحادی فخر سے بتلاتے تھے۔ خدائی لہجہ می‍ں کہتے کہ میں تمہیں وہاں سے ہٹ کروں گا کے تمہیں پتا بھی نہ چلے گا۔

ان کا قول سچ تھا بلوچ راہنما ہٹ ہو گئے۔ دختر ملت عافیہ صدیقی گوری چمڑی والوں کے ہاتھوں بک گئی۔ ہمسایہ ملک کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو سفارتی استثناء کے باوجود امریکہ بہادر کے حوالے کر کے انہوں نے ریاست کی آزادی و خودمختاری کا شاندار نظارہ دنیا کو دکھایا۔ اقتدار کو طول دینے کے لئے عوام نے لال مسجد کے در و دیوار کو انسانوں کے لال خون سے رنگتے اور بڑے قومی مجرمان کو بذریعہ ”این آر او“ معاف کرتے دیکھا۔

چشم خلق نے خالق کی حریم کتاب کی بے حرمتی، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوتے دیکھا۔ ریاست جمہوریہ کے جمہور کے اغوا اور جبری گمشدگی کو عام کر دیا گیا۔ وکلاء و صحافیوں کو بھی نہ بخشا سڑکوں پر گھسیٹ کر خوب مارا۔ پاکستان کی ”شہ رگ“ باڑ لگا کے کاٹ دی گئی۔ لڑائی میں ”نیوٹرل“ رہنے کا عہد کر کے امریکی جنگ کی آگ اپنے گھر لگا دی جس نے پاکستان کا معاشی و انسانی قتل عام کیا۔ ان کے روشن خیال منصوبوں نے اپنو‍ں کو دشمن اور دشمنوں کو اپنا بنا دیا۔ حکومت ختم ہوئی تو از روئے روایات اشرافیہ، ریاستی نظام عدل سے فرار ہو کر بیرون ملک استراحت فرمانے لگے۔ جس نے ان کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ لکھنے کی جسارت کی وہ جج حیات نہ ہی‍ں۔

2) وہ طاقتور ترین شخصیت آج نحیف و نزار ہے۔ کمزوری غالب آ چکی ہے۔ وہ تکیہ کے بغیر سیدھا لیٹ نہیں سکتے کیونکہ سانس جسم میں کھینچ تو سکتے ہیں پر باہر نکالتے ہوئے تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ وہ ہل نہیں سکتے پٹھے درد کرتے ہی‍ں۔ مخالفین کو نشان عبرت بنا دینے والے صاحب ایک لاعلاج مریض اور بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں۔ یہ بیماری بحکم رب ذوالجلال لاکھوں میں سے فقط چند لوگوں کا بد نصیب بنتی ہے۔ ”ایمیلوڈزیز (amyloidosis) نامی مرض ٹخنوں اور ٹانگوں کو سوزش زدہ کر دیتا ہے۔

خونی قبض رہتی ہے۔ سر تا پا جسم کے تمام اعضاء اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔ شدت مرض میں عضو کام کرنا بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ وہ بیماری کے کس درجہ پر ہیں بندہ لاعلم است البتہ خبریں اور علامات مرض جان کر انسان سربسجود ہوجاتا ہے۔ پرویز مشرف کو لاحق بیماری ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی آزمائش اور طاقتوروں کے لئے باعث عبرت ہے۔ خدائی لہجہ اور تکبر ذات الہی کے لئے مخصوص ہے۔ بعینہ ان کی بیماری کا مذاق اڑانا انتہائی نامناسب اور قبیح عمل ہے۔

3) پرویز مشرف صاحب اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ماتحتوں کی غلطیوں کا الزام بھی ان پر دھرا جا رہا ہے تو یزید کے حامیوں کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم اس کی جانب سے نہ تھا۔ ہزار ہا کہا جائے کہ یزید ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کے خلاف لڑا جبکہ حقیقت میں حق غالب آ کر رہا۔ حاکم ہونے کی وجہ سے دنیا کی اکثریت کے لئے یزید استعارہ ظلم بن چکا ہے۔ صدر مشرف نے بہت سے قیدیوں کو دستور کی شق 45 کے تحت زندان سے آزادی دی ہوگی۔

معافیاں دینے والے کے لئے معافی مانگنا ہرگز سہل نہیں ہوتا۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ خطا ہونا خبر نہیں بلکہ بڑی خبر یہ ہے کہ انسان سے کبھی غلطی نہ ہو۔ جو مظلومین اقتدار میں ہونے والی زیادتیوں و نا انصافیوں کا ذمہ دار سابقہ آمر کو ٹھہراتے ہیں ان سے مشرف صاحب کو اپنی زندگی میں معذرت کر لینی چاہیے۔ حقوق العباد کی معافی اختیار انسانی ہے۔ دنیا کی عدالتوں کو غیر آئینی قرار دے کر سزائیں ختم کروائی جا سکتی ہیں مگر رب کی عدالت سے فرار ممکن نہیں۔ وہ جج پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھاتا بلکہ بہترین انصاف کرنے والا منصف ہے۔

4) جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پاکستان ضرور واپس آئیں اور آ کر روایات کے برخلاف اچھے کاموں کے ساتھ اقتدار کے دنوں کی غلطیوں کا ذمہ قبول کر کے بہادر کمانڈو ہونے کا حق ادا کر دیں تو وہ ایک بڑے انسان کہلائیں گے۔ سابق صدر پرویز مشرف صاحب کی ملک کے لئے ناقابل فراموش خدمات کو یاد رکھتے ہوئے ہمیں ان کی صحت کے لئے دعاگو ہونا چاہیے اللہ سے امید کرنی چاہیے کہ یہ بیماری ان کی خطاؤں کی معافی اور ہمارے لئے باعث نصیحت ثابت ہو۔

یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments