فیٹف گرے لسٹ ( پس منظر)


 

فیٹف یعنی ایف اے ٹی ایف جو کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا مخفف ہے اور یہ ادارہ جی 7 ممالک کی ایک کانفرنس میں جو کہ 1989 کو فرانس کے شہر پیرس میں منعقد ہوئی میں اس میں قائم کیا گیا اس کا بنیادی مقصد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والے پیسے کی فنڈنگ کو روکنا ہے اب تک اس کے کل 37 ممالک ممبر ہیں جن میں امریکہ، چین، روس، برطانیہ، بھارت، ملائشیا، اسرائیل، جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا، کینیڈا، سعودی عرب، سنگا پور، جنوبی افریقہ، ترکی، سپین، سویٹزرلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، برازیل، ڈنمارک، بیلجیم سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔

9/ 11 کو امریکہ میں ہونے والی دہشتگردی نے جہاں دنیا کے سیاسی معاملات میں بدلاؤ پیدا کیا وہیں دنیا پر معاشی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے شکنجوں کو کسا گیا، ہماری بدقسمتی کہ 2006 میں بھارت اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی بنیاد پر فیٹف کا آبزرور ممبر بنا اور پھر بھارت میں ہونے والے ممبئی دھماکوں کے بعد بھارت نے ایک بیانیہ ترتیب دیا کہ پاکستان ریاستی سطح پر دہشت گردوں کا مددگار ہے اور چوں کہ 9 / 11 کے بعد دنیا بھر میں امریکی کارروائیوں کے نتیجے میں مسلم دنیا میں شدت پسندی کو فروغ حاصل ہوا اور پھر کچھ ریاستوں نے اس شدت پسندی کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اس لیے دنیا بھر میں بالخصوص یورپ اور امریکہ میں ایک اسلاموفوبیا پر مبنی ردعمل سامنے آیا جسے بھارت نے ہمارے خلاف بخوبی استعمال کیا اور ہماری ریاستی و حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے ہم اس بیانیہ کا بین الاقوامی طور پر مقابلہ نہ کرسکے اور یوں پاکستان کو پہلی مرتبہ 2008 میں فیٹف کی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا جسے 2 سال یعنی 2010 میں گرے لسٹ سے دوبارہ نکال دیا گیا۔

بھارت 2010 میں فیٹف کا مستقل ممبر بن گیا اور یوں پاکستان ایک ایسی کشمکش کا شکار ہوا جس سے پاکستان کو نکلتے ہوئے شاید کافی عرصہ لگ جائے پاکستان کو بھارتی بیانیہ کے بل بوتے پر اور ہماری کمزوریوں کی بناء پر 2012 میں دوبارہ گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا جو کہ 2015 تک جاری رہا اور پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کر دیا گیا مگر یہ عمل بھی عارضی ثابت ہوا اور ہمیں 2018 کے جون میں جب ملک میں نگران حکومت تھی ایک بار پھر سے گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔

یہ گرے لسٹ، بلیک لسٹ کیا ہے اور اس کے کون سے مضر اثرات ہوسکتے ہیں آئیے ذیل میں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

بلیک لسٹ ہونے والے ممالک پر عالمی پابندیاں لگ جاتی ہیں اور یہ تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ یہ ممالک سرکاری سطح پر دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ فیٹف کی بلیک لسٹ کے شکار ممالک میں ایران، شمالی کوریا، سمیت مختلف ممالک شامل ہیں جبکہ گرے لسٹ میں شامل ممالک کے لیے ایک وارننگ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالی نظام کو شفاف بنائیں نہیں تو انھیں بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ فیٹف کی بلیک لسٹ میں شامل ممالک پر بین الاقوامی پابندیاں لگادی جاتی ہیں جبکہ گرے لسٹ میں شامل ممالک کے سر پر ہمیشہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پابندیوں کے خطرات سر پر منڈلاتے رہتے ہیں۔

جس سے وہ ممالک یعنی ان کی حکومتیں کسی بھی قسم کے بڑے فیصلے لینے سے قاصر ہوتے ہیں اور معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا خطرہ ہمیشہ سے ہی منڈلاتا رہتا ہے۔ اس وقت دنیا کے جو ممالک گرے لسٹ میں شامل ہیں ان میں متحدہ عرب امارات، ترکی، یمن، سوڈان، فلپائن، شام، سینیگال، کمبوڈیا، برکینا فاسو، پانامہ سمیت 22 ممالک شامل ہیں جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو اسی وقت پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گرے لسٹ سے نکلنا کتنے عرصے کے لیے ہو گا یوں تو پاکستان نے 40 میں سے 35 پوائنٹس پر عمل درآمد کر لیا ہے مگر منی لانڈرنگ کے ملزموں کو ضمانت پر رہا کرنے اور پھر انھیں حکومتی عہدے دینے کے بعد دنیا ہمیں کیسے ڈیل کرے گی۔

ویسے تو مہذب دنیا کے کچھ اور ہی پیمانے ہیں مگر جہاں مفادات آتے ہیں وہاں پر طاقتور ممالک ہوں یا کمزور ممالک وہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔ بطور قوم اور بطور ریاست ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارا مفاد کیا ہے اور ہمیں کس سمت میں سفر کرنا ہے ایک عام آدمی تو بے چارہ اس وقت اتنا پس چکا ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ جائے گا مگر اس ملک کے دانشور طبقے کو سنجیدہ ہونا ہو گا اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

فیٹف کی گرے لسٹ، ہو یا بلیک لسٹ یا پھر وائٹ لسٹ گو کہ طاقت ور ممالک اور گروہوں کی ایماء پر بنتی ہے جس کے جتنے مفادات طاقتور ممالک کے ساتھ جڑے ہیں اسی بناء پر وہ وائٹ، گرے یا پھر بلیک لسٹ ہوتا ہے اس وقت چوں کہ بھارت امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ ہے اور سعودی عرب بھی چوں کہ ”جہادی گروہوں“ کی سرپرستی سے انکاری ہے تو جہاں جہاں بھی ”غیر ریاستی عناصر“ سرگرم ہوں گے ۔

ان کے لیے فنڈنگ آسان ہوگی وہاں پر فیٹف سے سہولت حاصل کرنے کے لیے چند اہم ترین ممالک کے ساتھ مفادات جوڑنے ہوں گے اور ان کے مفادات کو قومی مفادات پر مقدم رکھنا ہو گا یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ خوددار قوموں کی طرح آہنی عزم کے ساتھ تمام قسم کی عیاشیوں کو پیچھے پھینک کر ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کر کے نئے سرے سے منظم ہونا ہو گا کچھ عرصہ کے لیے شاید ہماری مڈل کلاس اور ایلیٹ کلاس کے پاس مہنگے موبائل فون، مہنگی گاڑیاں، مہنگی گھڑیاں، پالتو جانوروں کا مہنگا فوڈ، فاسٹ فوڈز وغیرہ میں کمی جبکہ برانڈڈ کپڑوں کی جگہ مقامی کپڑوں پر مبنی لباس ہو، مگر اس لباس پر آپ کو فخر محسوس ہو گا آپ کی گردنیں جھکی ہوئی نہیں ہوں گی آپ قومی غیرت، خودی، خودداری سے بھرپور ہوں گے۔

لیکن اس سب کے لیے ایک مضبوط ارادہ، مضبوط ویژن، بہترین حکمت عملی اور بہترین گورننس درکار ہوگی کرپشن کا سدباب کرنا ہو گا۔ لوٹی دولت کو رضاکارانہ یا بزور طاقت جیسے بھی ہو واپس لانا ہو گا ورنہ مزید تباہی مزید ذلت مزید رسوائی ہمارا مقدر ہے جو بھی کامیابیاں قوم نے قربانیاں دے کر حاصل کی ہیں وہ مخصوص افراد کی خواہشات تلے روند دی جائیں گی

اب دیکھتے ہیں کہ پہلے ہمارا ریاستی نظام فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کس طرف جانا ہے یا پھر پاکستان کے عوام یہاں آخری بات گزارش کرنا چاہوں گا کہ ایسا ممکن نہیں رہے گا اب ایسے ہی چلتا رہے کیوں طاقت کے مراکز بین الاقوامی طور پر بدل رہے ہیں اور دنیا ایک سپر پاور کے بجائے مختلف گروپس کی صورت میں طاقت کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ مزید تعاون اور مزید انڈرسٹینڈنگ کی طرف دنیا جاتی دکھائی دے رہی ہے اب اس نئے ورلڈ آرڈر میں ہم اپنے لیے کیا حاصل کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ثابت کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments