غاریلے


ایک مدت سے وہ اسی غار میں رہ رہے تھے نہیں معلوم کتنا عرصہ ہو چکا تھا اور ان کی کتنی نسلیں اسی ایک ہی غار میں گزر چکی تھیں بل کہ ایک دفعہ توا یک بزرگ نے سب کو اکٹھا کر کے بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ میں نے اپنے دادا کو دیکھا تھا جن کے قرن ہا قرن اسی غار میں گزرے تھے۔ پیدائش، بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی، مردانہ وجاہت اور پھر ڈھلتی عمر اور اسی عمر کی آخری سیڑھی بھی انھوں نے اسی غار میں اتری تھی۔ وہ ہمیشہ اسی غار میں اس کی ظلمات کے ساتھ واقفیت پیدا کرتے رہے اور اسی جان پہچان میں وہ کب بوڑھے ہو گئے انھیں خود احساس تک نہ ہوا۔

مگر مجھے یاد ہے کہ انھوں نے اپنی اخیر عمر میں بتایا تھا کہ غار کی زندگی اپنی تمام تر روایات کے ساتھ چلتی رہی ہے اور چلتی بھی رہے گی، بس! اس کے بعد تو وہ رک سے گئے اور کچھ توقف کے بعد پھر گویا ہوئے۔ بس! ایک دفعہ ایک سانحہ ہو گیا تھا۔ جہاں جہاں جو جو سننے والے تھے وہ سب اور بھی متوجہ ہو گئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غار کی زندگی میں بھی کوئی سانحہ ہو۔ بھلا اندھیرے میں بھی سانحہ ہو سکتا ہے؟

اب متجسس و حیرت زدہ کئی آنکھیں اس بزرگ کے چہرے کو اندھیرے میں ڈھونڈ رہی تھیں۔ پہلے سے زیادہ ہو کا عالم ہو چکا تھا جس سے بزرگ بھانپ گیا کہ لوگ کسی نکتے پہ اٹک گئے ہیں یا کسی بات پہ معترض ہیں۔ اس نے اب بات کا پہلو بدل کر بات کو ختم کرنا چاہا۔ مگر وہ نوجوان جو کب کا ہمہ تن گوش بغیر آنکھ جھپکے اندھیرے میں گھورتا ہوا سب کچھ سن رہا تھا، بھلا کب ٹلنے والا تھا۔ اس نے اٹھ کر بزرگ سے کہا کہ اے دانا! اپنی بات کو مکمل کر اور بتا کہ کیا سانحہ ہوا تھا کیوں کہ آج تک کی زندگی میں صرف یہی ایک بات ہمیں انوکھی سننے کو ملی ہے کہ غار میں سانحہ بھی ہو سکتا ہے لہٰذا اپنی بات مکمل کر ۔

اس نوجوان کے دوست نے اسے زبردستی پکڑ کر نیچے بٹھانا چاہا مگر وہ اپنی بات کر کے ہی بیٹھا۔ بزرگ بولا کہ بیٹا! ہم بھی ایسے ہی سنتے آئے ہیں کہ اس غار میں کوئی سانحہ بھی ہوا تھا مگر کب اور کہاں ہوا تھا اور اس کا موجب کون تھا یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو پایا اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے لوگ اس سانحے کے بارے میں بات بھی نہیں کرتے اور اکثر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ غار کی زندگی میں بھلا سانحہ کیسے ہو سکتا ہے؟

بزرگ جلدی جلدی آدھی ادھوری بات کر کے اٹھا اور اندھیرے میں ہی ایک سمت چلا گیا۔ باقی لوگ بھی اٹھے اور اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف چل دیے مگر وہ نوجوان ابھی تک اسی سکتے میں خاموش بیٹھا تھا کہ اس کے دوست نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھانا چاہا اور ڈرے سہمے انداز میں ادھر ادھر دیکھتا ہوا اسے اٹھاتا رہا مگر وہ ابھی تک وہیں بیٹھا تھا۔

یہ لوگ صدیوں سے غار میں مقیم تھے۔ جس میں ہر سو گہرا اندھیرا تھا اور کوئی بھی کسی کو پہچان اور دیکھ نہیں سکتا تھا مگر آوازوں کی پہچان بہرحال انھیں ہوتی تھی اور دیکھنے کے لیے ایک دوسرے کے بالکل پاس آنا ضروری تھا۔ اکثر یہ چلتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے تھے اور بولنے پر پتا چلتا تھا کہ کون کس سے ٹکرایا ہے۔ وہ نوجوان بھی اسی غار میں پیدا ہوا اور اب اسی غار کے حاکموں کی مرضی کے تحت دوسرے بے شمار لوگوں کی طرح کام کرتا تھا۔

یہ لوگ اندھیرے میں پیدا ہوتے، اندھیرے میں کھاتے پیتے، اندھیرے میں شادیاں کرتے اور اندھیرے میں مرتے اور اندھیرے میں ہی دفنائے جاتے تھے۔ اس اندھیرے نے ان کی پہچان تک چھین لی تھی اور ان کو یہ بھی اندازہ نہیں رہا تھا کہ ہم انسان ہیں کہ کچھ اور، بل کہ انھیں اس بات کا بھی شعور نہیں رہا تھا کہ کوئی اور بھی مخلوق ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کب اور کیسے ان کے بڑے بوڑھے اس غار میں آباد ہوئے۔

کیوں کہ انھیں آباد ہونے کا مفہوم تک بھول گیا تھا۔ انھیں آگ اور روشنی نام کی کسی بھی چیز کا علم نہیں تھا۔ غار کے حاکم کی طرف سے ہی انھیں کچھ کھانے کے لیے مل جاتا تھا اور یہ اسی پر قناعت کرتے تھے اور یہ صدیوں سے ایک ہی طرح کا کھانا کھا رہے تھے اور آج تک ان کا دل نہیں بھرا تھا کیوں کہ انھیں پتا ہی نہیں تھا کہ کچھ اور بھی کھانے کے لیے ہو سکتا ہے۔

اس نوجوان کے ہاتھ تو جیسے کوئی راز آ گیا تھا جس کی کسی کو مطلق خبر نہ تھی مگر وہ جب بھی کسی سے ٹکراتا تو ایک ہی بات پوچھتا کہ سانحہ کب اور کہاں ہوا تھا؟ مگر کوئی بھی اسے اس بات کا جواب نہ دیتا، شاید دے بھی نہ سکتا تھا۔ سبھی لوگ اس سے کترانے لگے تھے۔ وہ جہاں جاتا اس کا دوست اس کے ساتھ سائے کی طرح رہتا اور کسی بھی ہنگامے سے پہلے اسے وہاں سے کھینچ لاتا اور اگر وہ کسی سے الجھ جاتا کہ سانحہ ہوا تھا اور میں اس کا سراغ لگا کر ہی رہوں گا، تو اس کا دوست لوگوں کو یہ کہہ کر سمجھا لیتا کہ بھائی! یہ پاگل ہو گیا ہے تم کیوں ایک پاگل سے الجھتے ہو۔ تو لوگ اسے اس کے دوست کی وجہ سے چھوڑ دیتے اور دوست اسے کھینچ کے پھر گھر کی طرف لے آتا۔

اس کے گھر والے بھی اب اس سے تنگ آ چکے تھے۔ اس کے باپ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ تو ہمیں معاشرے میں کیوں ذلیل کروا رہا ہے ساری دنیا مدتوں سے اس غار میں اسی طرح جیتی آ رہی ہے اگر کسی کو سانحے کے بارے میں علم نہیں تو کیا وہ زندہ نہیں یا اسے غار سے نکال دیا جاتا ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے میرے بیٹے! سب اپنی اپنی زندگی میں خوش ہیں اور مزے سے جی رہے ہیں۔ پتا نہیں تم کیوں روایات کو چھوڑ کر نئی چیزوں کی کھوج میں ہو اور نہ جانے کیوں گڑے مردے اکھاڑنا چاہتے ہو۔

اپنے باپ کی یہ بات سنتے ہی اس کا ماتھا خوشی سے پھیل گیا اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے راز سے ایک پردہ سرک گیا ہو۔ وہ دیوانہ وار بھاگتا ہوا گھر سے دور چلا گیا اور اپنے دوست کو ڈھونڈنے لگا اور لوگوں سے ٹکراتے ہی اپنے دوست کا پوچھتا تو لوگ اسے بالکل منھ نہ لگاتے اور اسے پاگل سمجھ کر دھتکار دیتے۔ مگر آج وہ ذرا بھی کسی سے ناراض نہ ہوا اور نہ ہی کسی سے جھگڑا بلکہ مسکراتا ہوا کسی اور سمت نکل گیا۔ آخر اسے اپنا دوست مل گیا جس سے ملنے کے بعد وہ اونچا اونچا چلانے لگا کہ مل گیا مل گیا تو دوست کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ غار سے باہر بھی جایا جا سکتا ہے تو دوست نے افسوس سے کہا کہ میں سمجھا تھا شاید تجھے سانحے کا پتا چل گیا ہے۔

لگتا ہے تم واقعی پاگل ہو گئے ہو، کیا کوئی غار سے باہر بھی جا سکتا ہے؟ بھلا تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ چلو گھر چلتے ہیں۔ دوست نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو وہ نوجوان دوست کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا کہ اب ہم اپنی اس دنیا سے باہر جائیں گے، ہم باہر جا سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر انتہائی خوشی نمایاں تھی جس میں طمانیت کے آثار واضح تھے۔

دوست اسے بازو سے پکڑ کھینچتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا اور وہ مستی میں آرام سے اس کے ساتھ ہو لیا اور اسی مستی میں چلانے لگا کہ اب ہم اس غار سے باہر بھی جائیں گے، ہم باہر بھی دنیا دیکھیں گے۔ دوست نے آگے بڑھ کے اس کے منھ پہ ہاتھ رکھا اور آہستگی سے کہا :کیا کہہ رہے ہو؟ اگر کسی نے سن لیا تو مجھے بھی مرواؤ گے واقعی تم اب پاگل ہو چکے ہو۔ مگر وہ نوجوان اور بھی اونچی آواز میں چلانے لگا۔ بس اس کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے بھی کہا کہ اب یہ نوجوان ہمارے درمیان رہنے کے قابل نہیں رہا اب اس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔

تو لہٰذا کسی نے وقت کے حاکم سے اس کی حرکتوں کی شکایت کر ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ وہ اول فول بکتا رہتا ہے کہ میں غار سے باہر جا سکتا ہوں میں غار سے باہر جاؤں گا۔ بس پھر کیا تھا اسے حاکم کے حضور حاضر کر لیا گیا اور پوچھنے والوں نے پوچھا کہ کیا بکتے ہو تو اس پاگل نے کہا کہ میں اس غار سے باہر جانا چاہتا ہوں تو یہ سنتے ہی کہنے والے نے اسے واقعی پاگل قرار دے دیا اور کوڑوں سے پٹوایا اور حکم دیا کہ پتا کرو کہ یہ بات پاگل تک کس نے پہنچائی ہے؟

سزا ختم ہونے پر نوجوان کو اس کا دوست گھر لے آیا مگر اسی دوران پتا لگانے والوں نے اس بات کا پتا لگا لیا کہ اس کے باپ نے ا سے بتایا تھا کہ غار سے باہر بھی جایا جاسکتا ہے اور وہ اس بوڑھے کو اٹھا کر لے گئے۔ وہ بے چارا بوڑھا کہتا رہا کہ میں جس طرح آپ کو اپنا حاکم مانتا ہوں اسی طرح یہ بھی مانتا ہوں کہ غار سے باہر کوئی دنیا نہیں اور یہی ازل سے ابد تک کی ہماری دنیا ہے مگر دینے والے نے اس بوڑھے کو سزا دے ہی دی اور اس کے سینے پر ایک بڑی سی پتھر کی سل رکھوا دی گئی جس کے بوجھ سے وہ سسک سسک کے مر گیا۔

نوجوان کے زخم بھر چکے تھے اور وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو چکا تھا تو اس کا دوست پھر اس کی نگرانی کرنے لگا کیوں کہ اسے اندازہ تھا کہ اگر اب اسے حاکم کے لوگ لے گئے تو وہ زندہ نہیں بچے گا۔ اس کے باپ کا کوئی اتا پتا نہیں تھا کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ حاکم کے حضور حاضری کے بعد وہ کہاں گیا اور کسی کی جرات بھی نہ تھی کہ وہ پوچھ لے کہ اسے کیوں اٹھایا گیا ہے۔ بس یہ غار کی زندگی تھی یہ یونہی چل رہی تھی اور یونہی چلنی تھی۔

نوجوان کی حرکتوں کی خبر اور باتوں کی اطلاع حاکم تک پہنچنے لگی تو بات کی تہ تک جایا گیا تو پتا چلا کہ اک معزز بزرگ نے کسی سانحے کا ذکر کیا تھا جس کی کھوج میں نوجوان دن رات پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرتا رہتا ہے اور ہر ایک سے اس سانحے کے متعلق پوچھتا رہتا ہے۔ حاکم نے اب اس معزز بزرگ کو بھی اٹھوا لیا جس کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے غار میں پھیل چکی تھی جس وجہ سے نوجوان کا دوست، اسے لے کر کہیں چھپ گیا۔ چھپتے چھپاتے وہ غار کے سب سے آخری کونے میں پہنچ چکے تھے جہاں سے آگے جانا ممکن نہیں تھا۔

وہ معزز بزرگ دربار میں حاضر تھا۔ اس سے پوچھنے والے نے پوچھا کہ آپ نے کیا کہا ہے تو بزرگ نے جواب دیا کہ میں نے کچھ نہیں کہا بس جو بات اپنے باپ دادا سے سنتے آئے ہیں وہی میرے منھ سے نکل گئی تھی اور مجھے اس بات کے غلط ہونے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کہ مجھے یقین ہے کہ اس غار سے باہر کچھ بھی نہیں اور یہ ہی واحد اور آخری دنیا ہے اور یہ بات میں آپ کے رعب و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ صادر کرنے والے نے حکم صادر کیا اور پہلے اس معزز بزرگ کی زبان پتھر سے مسل مسل کے کاٹی گئی پھر پتھر کی سلوں سے اس کا سر بھی کچل دیا گیا۔

حاکم کے لوگ اندھیرے میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے نوجوان اور اس کے دوست کے نزدیک پہنچ چکے تھے، قریب تھا کہ وہ لوگ ان دونوں کو پکڑ لیتے۔ نوجوان نے ان کے قدموں کی آہٹ پاکر زمین سے ایک پتھر اٹھا کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ وہ سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے مگر دکھائی نہیں دے رہے تھے کیوں کہ اندھیرے میں آنکھیں بینائی کے باوجود دیکھنے سے قاصر تھیں، غار کے آخری کونے سے لگے ہوئے اس نوجوان نے خود کو مزید آگے کونے میں گھسانا چاہا جس وجہ سے وہ ٹھوکر کھا کر گر گیا اور اس نے وہ پتھر اٹھا کے پھینکنا چاہا جس سے اسے ٹھوکر لگی تھی، اس نے پتھر کو پکڑا تو اس سے اٹھا یانہ گیا تو پاس ہی کھڑے دوست نے سمجھا شاید وہ بچاؤ کے لیے بڑا پتھر اٹھانا چاہ رہا ہے تو اس نے بھی اس کی مدد کی مگر کوشش بسیار سے بھی وہ پتھر اپنی جگہ سے نہ ہلا۔

دونوں نے اپنی تمام تر قوت کو جمع کیا اور مل کر ایک دفعہ پھر زور لگایا تو زور لگاتے لگاتے وہ پتھر جو کہ ایک بڑی سی سل تھی اک ذرا سی نہ ہلنے کے برابر ہل گئی مگر روشنی کو تو آنے کے لیے جگہ نہیں، گنجائش چاہیے، اک کرن سیدھی ان سب کے دماغوں پہ پڑی۔ وہ نوجوان تو وہیں کھڑا رہا مگر اس کا دوست ڈر کر چلانے لگا اور وہی کرن حاکم کے لوگوں کے درمیان بھی پھوٹ کا سبب بنی اور وہ چلاتے ہوئے ڈر کر بھاگ گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے نوجوان اور اس کا دوست بھی بھاگنے لگے کسی نے بھی مڑ کر نہیں دیکھا سوائے اس نوجوان کے اور وہ ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے کوئی اپنا بلا رہا ہو اور وہ فیصلہ کرنے میں متامل ہو، ”جاؤں یا نہیں“ ۔

عثمان غنی رعد
Latest posts by عثمان غنی رعد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments