تیس منٹ وجاہت کے


کہنے کو تو ایک لمحہ بھی انسان کو تبدیل اور سوچنے میں تغیر کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ آپ پر اور مجھ پر انحصار کرتا ہے کہ کس انداز میں اپنا ردعمل اپنے کردار، لب و لہجہ اور گفتگو سے ظاہر کرتے ہیں۔ کہنے کے لیے الفاظ تو بے شمار ہیں مختصر مگر جامع انداز بہتر ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ایک ادبی، نامور شخصیت، درویش صفت انسان وجاہت مسعود کی مختصر ملاقات میں سیکھنے کو ملا۔

15 جون 2022 بروز بدھ کی شام کا وقت اپنی رفتار میں رواں دواں تھا اندھیرا آہستہ آہستہ بڑھنے کی طرف گامزن تھا۔ انہی خیالات کی تبدیلی میں کچھ سیکھنے کا عنصر غالب ہو تو یہ تبدیلی ایک منفرد تغیر کی حامل ہوتی ہے جب ایک ادیب، علم کی آبشار اور معاشرے کا حقیقی چراغ خود چل کر پاس آئے اور آبیاری کا مرحلہ مکمل کرے تو قدرت کے کسی عظیم معجزے سے کم نہ ہو گا۔

وجاہت مسعود، ہم سب کے چیف ایڈیٹر ”ہوٹل ون“ مال روڈ لاہور پہنچے۔ ان سے کچھ علمی آبیاری کے لیے نشست میں موجود ایاز مورس ( موٹیویشنل سپیکر) ، محمد ولید ( نمائندہ جیو نیوز ) ، شنکر رائے ( ڈان) اور میں موجود تھے۔ جہاں تک اس ادبی شخصیت کا تذکرہ کروں تو پہلے صرف گمنام تھے مگر آج روایت سے ہٹ کر آبیاری کا فریضہ سر انجام دینے آئے ہیں۔ سلام و دعا کا تبادلہ درویشانہ انداز میں ہوا تو فوراً بولے :

” دیکھا تھا مگر دور سے، آج دیدار محبت نے کھینچ لیا“

اس فقرے کی مناسبت نے گفتگو کو مزید دلچسپ اور اخلاقی قدر کو سیپی سے نکال کر باہر رکھ دیا۔ مختصر ملاقات کا دورانیہ آگے بڑھنے کو تھا تو وجاہت صاحب کا انداز ایک دم وارد ہوا اور بولا :

” وقت مختصر ہے میں نے کسی اور جگہ بھی دکان لگانی ہے۔“

اس بات کا ردعمل ہوتے ہوئے معاشرے کا آپریشن، آج کے تقاضے اور نوجوان نسل کی حالت زار کا تذکرہ شروع ہوا۔ اس سرگرمی پر روشنی ڈالتے ہوئے وجاہت مسعود بولے :

” تفرقہ بازی نے نئی نسل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔“

ابھی فقرے کی آواز میرے کانوں میں پہنچی تو ایک دم چونک گیا دیگر دوست بھی بیٹھے اس بات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے میں نے بات کو دہراتے ہوئے کہا :

” آپ اس بات پر وضاحت فرما دیں۔“
انہوں نے بڑے ہی جاندار انداز میں اس بات کی تشریح کرتے ہوئے کہا:

”اس وقت ہماری نسل اور ہم ایک دائرہ میں بند اور اس سے نکلنے کے راستے سب بند کیے جا رہے ہیں۔ اس دائرے میں تفرقہ بازی، مذہبی، سیاسی، معاشی، معاشرتی پھر رنگ و نسل اور ذات پات میں تقسیم کی گئی ہے۔ جو کسی بھی زاویے سے اس نسل کو سر اٹھانے کا موقع فراہم نہیں کرنے دیتے۔“

اسی دوران سگریٹ کا ایک کش لگایا اور ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئے، پھر بولے :

” حکومت اور لینڈ مافیا بمع جاگیردار دو وقت کی روٹی سے توجہ ہٹانے نہیں دیتے اور مذہبی رہنما دوزخ کی آگ سے۔ ان لوگوں نے چاروں اطراف سے بندوقیں تان رکھی ہیں۔ اگر کوئی سر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جھوٹے مقدمہ بنا کر زندگی ویران کر دی جاتی ہے اگر ان لوگوں سے بچ جائیں تو مولانا صاحب کے فتوے کسر نکال دیتے ہیں۔“

اس دوران وجاہت مسعود کا لہجہ نہایت برق رفتار معاشرے میں ہونے والے ظلم اور اس نسل کی تصویر کشی بیان کرنے میں مگن اور افسوس کا تاثر ظاہر کر رہا تھا۔ نہ جانے کس آن ان کا سگریٹ ختم ہوا اور دوسرا لگایا گیا، انہوں نے روایتی سیاست کی بے غیرتی اور اس صورتحال کا ذمہ دار پڑھے لکھے جاہلوں کو قرار دیا، اکثریت دیکھنے میں بھی آیا ہے میرا ذاتی تجربہ بھی اس بات سے واقف ہے۔ جس معاشرے کا آپ اور میں حصہ ہیں یہاں کوئی حادثاتی طور پر دو چار کتابیں دوسروں سے زیادہ کوئی پڑھ لیتا ہے تو وہ دوسروں کا جینا حرام کر دیتا ہے۔

آج کی ہماری صورت چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی مذہبی ہو یا معاشرتی ہر کوئی اپنا انداز اور ذاتی مفاد کو لئے دوسروں کے گلے میں رسی ڈالنے میں کوشاں ہیں۔ یہ صرف میرے معاشرے اور میرے اردگرد ہی ہے۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ ہم ہر رنگ کو ایک نیا ایشو بنا کر دوسروں کی برائی کرنے میں ماہر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ نہ کوئی تحقیق ہے اور نہ کوئی تنقید ہے۔ حتیٰ کہ تنقید برائے تنقید بنا کر بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔

جب اس طرح کی صورتحال ہو تو اندرونی اور بیرونی سازش بھی ہوتی ہے اور مداخلت بھی۔ موجودہ صورتحال اس جیسی علامتوں سے بھری پڑی ہے۔ وجاہت مسعود صاحب کا انداز گفتگو ایک خاص مقصد، باکردار اور علمی دنیا سے لبریز ہے۔ جو انہوں نے اپنے تجربہ سے ظاہر کر کے اس معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ باتیں تو مزید کرنے اور سیکھنے کی تھی جیسے ہی تیس منٹ کا لمحہ مکمل ہوا تو جانے پر اصرار کرنے لگے اور بولے :

” میں نے اب کسی اور جگہ دکان لگانی ہے۔“
اور چل دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments