سیاروں کے ایک نظام کی حالیہ موت


معروف خلائی دوربین ”ہبل“ کے ذریعے حالیہ مشاہدات کے بعد تصدیق کی گئی ہے کہ، خلا میں ایک ستارے کی موت نے اس کے سیاروں کے نظام کو اس قدر پرتشدد طریقے سے درہم برہم کر دیا ہے، کہ پیچھے رہ جانے والا ’مردہ ستارہ‘ ، جسے ”سفید بونا ستارہ“ (وائٹ ڈوارف) کہا جا رہا ہے، اس حادثے کے بعد نظام کے اندرونی خواہ بیرونی، دونوں حصوں سے مسلسل ملبہ نکال رہا ہے۔ اور اسے محققین، سیاروں کی جانب سے ’اپنی برادری کو قتل کر کے کھا جانے‘ (کوسمک کینبلزم) کی مثال دے کر دلچسپ تحقیقی کیس سمجھ رہے ہیں۔

اس ’مرے ہوئے ستارے‘ نے سیاروں کے نظام کو چیرتے ہوئے جکڑ لیا ہے۔ فلکیاتی تحقیق کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے، جب ماہرین فلکیات نے ایک سفید بونے ستارے کے کارناموں کا اس طرح حیرت انگیز مشاہدہ کیا ہے، جو پتھریلے، دھاتی اور برفیلے مواد اور سیاروں کے اجزاء سب کو مسلسل کھا کر ”سیارہ خور“ کہلا رہا ہے۔

بدھ 15 جون 2022 ء کو ”امریکن ایسٹرانومیکل سوسائٹی“ کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں اس حوالے سے تفصیلاً بتایا گیا کہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے / ’نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن‘ ( ”ناسا“ ) کی ہبل اسپیس دوربین اور ”ناسا“ کی دیگر رصد گاہوں سے حاصل کیا گیا پہلے سے محفوظ مواد (آرکائیو ڈیٹا) ’خلائی درندگی‘ کہلانے والے اس واقعے کی تشخیص کے لیے ضروری تھا۔ جس کے نتائج ارتقاء پذیر سیاروں کے نظاموں کی پرتشدد نوعیت کو بیان کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں اور ماہرین فلکیات کو نئے بننے والے نظاموں کی ہیئت کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔

یہ نتائج ”جی 238۔ 44“ نامی اس ’سفید بونے ستارے‘ کے ماحول سے حاصل کردہ مواد کے تجزیے پر مبنی ہیں۔ واضح رہے کہ ’سفید بونا ستارہ‘ ہمارے سورج جیسے کسی ستارے کا باقی رہ جانے والا وہ حصہ ہوتا ہے، جو اپنی بیرونی تہوں کو بہا دیتا ہے، اور ایک ’جوہری امتزاج‘ (نیوکلیئر فیوژن) کے باوجود ایندھن کو جلانا بند کر دیتا ہے۔

نامور خلائی محقق اور کیلیفورنیا یونیورسٹی، لاس اینجلس امریکا کے گریجوئیٹ، ’ٹیڈ جانسن‘ نے اس حوالے سے بتایا: ”ہم نے کبھی بھی اس قسم کے دو اجسام کو ایک ہی وقت میں سفید بونے پر اڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ان سفید بونے ستاروں کا مطالعہ کر کے، ہم ان سیاروں کے نظاموں کو بہتر انداز میں سمجھنے کی امید کرتے ہیں، جو ابھی تک قائم ہیں۔ سفید بونے ستارے پر برسنے والے اجسام کی بناوٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاروں کے نظاموں میں برفیلے ذخائر عام جام پائے جاتے ہیں۔“

یہ دلچسپ بات ہے کہ چھوٹے برفیلے اجسام کے سر ہمارے نظام شمسی میں خشک، چٹانی سیاروں سے ٹکرانے اور ”سیراب“ کرنے کا سہرا سجایا جاتا ہے، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اربوں سال پہلے دمدار ستاروں اور سیارچوں نے زمین پر پانی پہنچایا ہو گا، جس سے زندگی کے لیے ضروری حالات پیدا ہوئے ہوں گے ۔ جیسا کہ ہم سب کے مطالعے میں بھی آتا رہا ہے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی ہی کے پروفیسر اور مصنف ’بینجمن ذکرمین‘ نے کہا، ”زندگی کے لیے ایک چٹانی سیارے کی موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے، جو کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن جیسے عناصر سے ڈھکا ہوا ہو۔ جن کی بہتات ہم اس سفید بونے ستارے پر دیکھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی تشکیل کے لیے پتھریلے اور اتار چڑھاؤ سے بھرپور عناصر دونوں کی ضرورت پڑی ہوگی۔ اور یہ پہلی مثال ہے، جو ہمیں سینکڑوں سفید بونے سیاروں کے مطالعے سے معلوم ہوئی ہے۔“

سیاروں کے نظام کے ارتقاء کے نظریات ایک سرخ دیو ہیکل ستارے سے ’سفید بونے ستارے‘ بننے تک کے مراحل کے درمیان کے سفر کو ایک افراتفری سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ستارہ تیزی سے اپنی بیرونی تہوں کو کھوتا جاتا ہے اور اس کے سیاروں کے مدار ڈرامائی انداز میں تغیر پذیر ہوتے جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران سیارچوں اور بونے ستاروں جیسے چھوٹے اجسام، بڑے سیاروں کے بہت قریب بھی پہنچ جاتے ہیں اور کبھی کبھار ستارے کی طرف گرتے بھی جاتے ہیں۔

یہ تحقیق اس قسم کے پرتشدد افراتفری کے مراحل کی حقیقی معنوں میں تصدیق کرتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے ’سفید بونے ستارے‘ بننے کے مرحلے کے 10 کروڑ سال بعد ، وہ ستارہ بیک وقت اپنے ’ایسٹرائڈ بیلٹ‘ (سیارچے والی پٹی/علاقے ) اور ’کوئپر بیلٹ‘ (مدار سے باہر اس علاقے، جہاں زیادہ تر برف سے بنے بہت سے چھوٹے اجسام موجود ہوتے ہیں۔ ) سے مواد کو اپنی طرف کھینچنے اور استعمال کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔

اس تحقیق میں ’سفید بونے ستارے‘ کے حجم کے حوالے سے جو تخمینہ لگایا گیا ہے، وہ کسی سیارچے یا چھوٹے چاند سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اگرچہ ’سفید بونے ستارے‘ کے زیر استعمال دو اجسام کی موجودگی کو براہ راست نہیں ناپا جاتا، تاہم امکان ہے کہ ان میں سے ایک سیارچے کی طرح دھات سے بنا جسم ہے، جبکہ دوسرا برفیلا وجود ہے، جیسا کہ ہمارے نظام شمسی کے کنارے پر پائے جانے والے ’کوئپر بیلٹ‘ میں ہے۔ اگرچہ ماہرین فلکیات نے ہمارے نظام شمسی سے باہر موجود 5 ہزار سے زائد سیاروں (ایگزوپلینیٹس) کی لسٹ بنائی ہے، لیکن ان تمام میں اب تک زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے، جس کی اندرونی ساخت و ہیئت کا ہمیں تقریباً مکمل علم ہے۔ ’سفید بونے ستارے‘ سے متعلق اس قتل عام نے، سیاروں کو الگ کرنے اور یہ دیکھنے کا ایک انوکھا موقع فراہم کیا، کہ جب وہ پہلی بار ستارے کے گرد تشکیل پائے تھے، تو وہ کس چیز سے بنے تھے۔

اس انوکھے واقعے پر تحقیق کرنے والی ٹیم نے دیگر عناصر کے علاوہ نائٹروجن، آکسیجن، میگنیشیم، سلیکان اور فولاد کی موجودگی کی پیمائش کی۔ جن کو بہت زیادہ مقدار میں لوہے کا پایا جانا زمین، زہرہ، مریخ اور عطارد جیسے زمین نما سیاروں کے دھات سے بنے اندرونی حصے ہونے کے ثبوت کے طور پر نظر آیا۔ غیر متوقع طور پر نائٹروجن کی کثرت نے وہاں برفیلے اجسام کی موجودگی کا پتا بتایا۔ جانسن نے اس ضمن میں مزید کہا، ”ہمارے مواد کے لیے بہترین مطابقت عطارد نما مواد یا دمدار ستاروں کی طرح کے مواد کا تقریباً دو سے ایک مرکب تھا، جو کہ برف اور مٹی کے امتزاج سے بنا ہو۔ فولادی دھات اور نائٹروجنی برف دونوں کی موجودگی، سیاروں کی تشکیل کے مختلف حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔ نظام شمسی کا اب تک دریافت شدہ کوئی جسم ایسا نہیں ہے، جس میں اتنی زیادہ مقدار میں یہ دونوں عناصر پائے جاتے ہوں۔“

جب ہمارے سورج جیسا کوئی ستارہ اپنی زندگی کے آخر میں پھولے ہوئے سرخ دیو کی صورت پھیلتا ہے، تو وہ اپنی بیرونی تہوں کو پھونک کر بڑے پیمانے پر بہانے لگتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ کسی بھی اور بڑے سیاروں کی طرف سے چھوٹی چیزوں (جیسے سیارچوں، دمدار ستاروں یا چاند) کا کشش ثقل کے ذریعے بکھرنے کی صورت نکل سکتا ہے۔ البتہ اس عمل کے نتیجے میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ”آرکیڈ“ نامی مشہور ویڈیو گیم میں ”پن بالز“ کی طرح، ان میں سے زندہ بچ جانے والے اجسام انتہائی مرکز گریز (مرکز سے ہٹے ہوئے ) مداروں میں پھینکے جائیں۔

جانسن نے مزید بتایا کہ ”سرخ دیو کے مرحلے کے بعد ، یہ سفید بونا ستارہ جتنا باقی رہ جاتا ہے، وہ سمٹنے کے بعد زمین سے بڑا نہیں ہوتا۔ سر راہ چلنے والے سیارے، ستارے کے بہت قریب پہنچ کر اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور طاقتور سمندر نما موجوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کے سخت ترین تھپیڑے سہتے ہیں، جو موجیں انہیں پھاڑ دیتی ہیں، جس سے ایک گیس نما اور دھول سے اٹی ڈسک بن جاتی ہے، جو بالآخر اس ’سفید بونے ستارے‘ کی سطح پر آ گرتی ہے۔“

محققین، اب سے 5 ارب سال بعد سورج کے ارتقاء کے حتمی منظر نامے کو دیکھ رہے ہیں۔ جب اندرونی سیاروں کے ساتھ ساتھ زمین بھی مکمل طور پر بخارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ لیکن مرکزی سیارچے کی پٹی میں موجود بہت سے سیارچوں کے مدار، مشتری کے ذریعے کشش ثقل سے منتشر ہوں گے اور آخرکار ’سفید بونے ستارے‘ پر آ گریں گے، جس سے باقی سورج تشکیل پائے گا۔

دو برس سے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو اور جرمنی کی ’کیل یونیورسٹی‘ کی تحقیقی ٹیم نے ”جی 238۔ 44“ نامی اس ’سفید بونے ستارے‘ پر پائے جانے والے عناصر کا تجزیہ کر کے اس راز کو افشا کرنے کے لیے مسلسل کار تحقیق انجام دیا ہے۔ ان کو اب تک کے ان حتمی نتائج حاصل کرنے میں ’ناسا‘ کے ”فار الٹرا وائلٹ سپیکٹرو سکوپک ایکسپلورر“ (ایف یو ایس ای) ، امریکی ریاست ہوائی میں قائم ”کیک آبزرویٹری“ کے ’ہائی ریزولوشن اچیلی سپیکٹرو میٹرز‘ (ہائی ریز) ، ہبل اسپیس دوربین کے ”کوسمک اوریجنس سپیکٹرو گراف“ (سی او ایس) اور ”سپیس آئی ایس ٹی“ دوربین سے ملنے والے ڈیٹا کی مدد حاصل رہی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments