ایک گمنام ہیرو کی کہانی


ستر کی دہائی کی بات ہے کہ جب ملک میں شرح خواندگی مجموعی طور پر تیس سے پینتیس فیصد تھی جس میں خواتین کا حصہ صرف دس فیصد تک تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب شہروں میں بھی شرح خواندگی تو چلو کچھ بہتر تھی مگر دیہاتوں میں تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایسے میں جنوبی پنجاب کے بڑے شہر ملتان میں رہائش پذیر ایک شخص نے مظفر گڑھ کی پسماندہ ترین تحصیل جتوئی کے دریا کنارے علاقے میں منتقلی کا فیصلہ کیا۔ اگر اعداد و شمار کو اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان دو دہائیوں میں پاکستان میں اربنائزیشن اپنے عروج پر تھی۔ لوگ شہروں کی چکاچوند سے متاثر ہو کر شہروں کو منتقل ہو رہے تھے۔ ایسے میں اہل خانہ سمیت عزیزواقارب کو اس شخص کا یہ فیصلہ عجیب ہی لگا۔ مگر یہ شخص جو پہلے فیصل آباد سے ملتان منتقل ہوا تھا، اس چھوٹے سے علاقے میں نہ صرف منتقل ہوا بلکہ ایسے اقدامات بھی کیے جس نے ان اس علاقے کی قسمت بدل ڈالی۔

بڑے شہروں میں موجود میرے قارئین کی ایک بڑی تعداد نے تو شاید جتوئی کا نام بھی نہ سنا ہو، اس کے دریا کنارے واقع علاقے لنڈی پتافی میں منتقل ہوتے ہی اس شخص نے جاکر حکومت کو عرضی ڈالی اور اس علاقے کے لئے پرائمری سکول کی ضرورت و اہمیت کو بیان کیا۔ علاقے کے سرداروں نے نہ صرف اس شخص کے اس فیصلے کی تحسین کی بلکہ اس کارہائے خیر کے لئے اپنا سیاسی اثر و رسوخ بھی استعمال کیا۔ اپنی لگن کے پکے اس شخص نے کرتے کراتے اس سکول کی منظوری کروائی، سکول کی منظوری کے بعد اس سکول کے لئے اراضی کا معاملہ درپیش ہوا تو اپنی زمین پیش کردی۔

دنیا کی یہ ریت چلی آ رہی ہے کہ ہر اچھے کام کے لئے رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں تو سکول کی منظوری اور زمین کے بعد یہاں انفراسٹرکچر کا مسئلہ درپیش آیا تو فنڈز کی کمی اور منظوری جیسے لمبے پراسس کا مرحلہ درپیش آیا۔ مگر اس شخص نے سرکنڈے سے عارضی دیواریں بنا کر درختوں کے نیچے ہی پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ تمام رکاوٹیں دور ہوئیں سکول کا عارضی ڈھانچہ تیار ہو گیا تو سب سے بڑی مشکل وہاں پڑھنے کے لئے طلباء کے آنے کی آن پڑی۔

اب جیسا کہ میں نے تحریر کے آغاز میں بیان کیا کہ شہروں میں بھی شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی ایسے میں دیہاتوں میں تو تعلیم سے دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ دیہات میں لوگ اپنے بچوں کو یا تو مویشی چرانے پر لگا دیتے تھے اور تھوڑا بڑے ہوئے تو کھیتی باڑی پر کولہو کے بیل کی طرح جوت دیتے تھے۔ اس شخص نے اس علاقے کے گھر گھر میں جاکر بچوں کو سکول بھیجنے کی درخواست کرنا شروع کردی۔ مگر کوئی بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے پر تیار نہ ہوا، ہر ایک شخص کا سوالات ہوتے تھے کہ یہ پڑھ لکھ کر کیا کر لیں گے؟ کون سی نوکری لگ جائے گی؟ اگر یہ سکول چلے گئے تو پیچھے مویشی کون چرائے گا؟ ہماری کھیتی باڑی کون کروائے گا؟ آپ تو ہماری روزی روٹی کو ختم کرنے چلے آئے ہیں ہمیں معافی دے دیں۔ مساجد میں بھی اعلان کروائے گئے، علاقے کے سردار کی جانب سے لوگوں کو تلقین کی گئی مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔

ایسے میں بجائے ہمت ہارنے کے اس شخص نے اپنے بیٹوں، بھتیجے، بھتیجیوں، بھانجیوں کو اکٹھا کیا اور سکول میں جاکر پڑھانا شروع کر دیا۔ یہاں میں دوبارہ بتاتا چلوں کہ اس وقت بچیوں کو سکول بھیجنے کی روایت بڑے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے خاندانوں میں موجود تھی۔ ایسے میں جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں موجود اس شخص کا یہ جرات مندانہ اقدام ہی قحط میں بارش کی پہلے بوند ثابت ہوئی۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ اس شخص نے اپنے بچوں کو سکول کو بٹھا لیا تو آہستہ اپنی اپنی ذات کے دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ گاؤں کے دیگر لوگوں نے بھی اپنے بچے سکول بھیجنے شروع کر دیے۔

یوں یہ علاقہ تعلیم سے بہرہ ور ہونا شروع ہو گیا، اس شخص کے شاگرد بتاتے ہیں کہ جب لوگوں کو اپنے نام تک لکھنے نہیں آتے تھے یہ شخص سرکنڈوں کے کانوں سے لوگ کو قلم اور اپنے خرچے سے سیاہی لے کر آتا تھا یوں بچوں کو قلم دوات کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ بچوں کو انگلش پڑھانے کے لئے اے، بی سی کے سانچے بنا کر دریا کی گیلی مٹی منگوا کر مٹی کے انگریزی حروف تہجی بنوائے جاتے تھے۔ اس سارے عمل میں سکول کے بچے ہمراہ ہوتے تھے۔ یہ وہ طریقہ تھا جو کہ آج کل کے مہنگے سکولوں میں اپنایا جاتا ہے۔ اس وقت جب انگلش چھٹی کلاس میں پڑھانا شروع کی جاتی تھی مگر اس چھوٹے گاؤں کے بچے پرائمری تک پہنچنے پہنچتے نہ صرف حروف تہجی یاد کرچکے ہوتے تھے بلکہ انگلش کی اچھی خاصی شد بد ہوتی تھی۔

قارئین کرام یہ کہانی ہے جدوجہد آزادی پاکستان میں بطور طالب عالم اور مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے فعال کارکن غلام مصطفی خان کی جنہیں ان کے شاگرد اور جتوئی کے اس چھوٹے سے گاؤں کے لوگ آج بھی استاد صاحب اور ماسٹر صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آج ان کے شاگرد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور پائلٹ ہیں اور وہ لوگ اس شخص کو اپنا مسیحا مانتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو شاید آج وہ یا تو مویشی چرا رہے ہوتے یا پھر کسی کھیت میں کام کر رہے ہوتے۔

محترم قارئین لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر تحریر طوالت کا شکار ہو جائے گی، آج والد سے محبت اور والد کی عظمت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر میں نے یہ تحریر لکھ کر اس ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے کی ادنی سے کوشش کی ہے۔ شاید یہ ایک عام سی کہانی لگے مگر ایسا کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو اس شخص کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا اور سراہا جاتا لیکن پاکستان میں تو جو ہاتھ آیا وہ بس تئیس سو روپے کی پینشن تھی۔ قارئین سے میرے مرحوم والد محترم کی مغفرت کے لئے دعاؤں کی اپیل ہے۔ والد کے عالمی دن پر ایک شعر کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریر کا اختتام کر رہا ہوں

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائی میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments