کیا سیاسی و معاشی گرداب سے نکلا جاسکتا ہے؟


پاکستان بطور ریاست یا معاشرہ دو بڑے بحرانوں سے گزر رہا ہے جن میں سیاسی اور معاشی بحران سرفہرست ہے۔ دونوں بحرانوں کو ہم کسی بھی طور پر سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھ سکتے۔ دونوں کی کامیابی کا براہ راست تعلق ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور اس میں اہم آہنگی اور سماجی و سیاسی توازن کو قائم کیے بغیر معاشی ترقی کا خواب بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم معاشی ترقی کے عمل میں سیاسی سطح کے معاملات میں استحکام کو نظرانداز کر کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

اس لیے یہ نقطہ کو سمجھنا ہو گا کہ دونوں پہلووں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کسی بھی طور پر ملکی مفاد میں نہیں ہوگی۔ بنیادی طور پر ریاستی یا حکومتی یا ادارہ جاتی سطح پر جو ہم غلطیاں کر رہے ہیں اس کی بڑی وجہ ہم سیاسی و معاشی معاملات کے حل میں روایتی طور طریقوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں یا معاملات کی سنگینی میں ہماری پالیسی ردعمل پر مبنی پالیسی کا اظہار کرتی ہے۔ جب ہماری حکمت عملی میں لانگ ٹرم، مڈٹرم یا شارٹ ٹرم منصوبہ بندی کا فقدان یا ان میں اہم آہنگی بالادست ہوگی تو مسائل کا حل کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا جو کھیل کھیلا گیا اس کے نتائج سیاسی اور معاشی محاذ پر ہمیں ایک بڑے سنگین بحران کی صورت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی تبدیلی ایک سیاسی عمل سے جڑا ہوتا ہے لیکن جس انداز سے حکومت کی تبدیلی ہوئی یا اس سے جڑے سیاسی و غیر سیاسی فریقین نے اپنا حصہ ڈالا یا جو سیاسی مہم جوئی کا جو عمل سامنے آیا وہ سب اپنے مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا۔ یقینی طور پر حکومت کی تبدیلی یا چہرے کی تبدیلی ہو گئی لیکن اس تبدیلی کے بعد جو سیاسی و معاشی استحکام درکار تھا وہ کافی کمزور نظر آتا ہے۔

اگرچہ تیرہ جماعتی اتحاد پر بننے والی حکومت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر جو بھی حالات سامنے آئے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی و معاشی اشاریے ملکی سیاسی و معاشی استحکام کے حق میں نظر نہیں آرہے۔ عمران خان کی حکومت کے آخری حصہ میں جو مثبت معاشی اشاریے حکومتی یا عالمی مالیاتی رپورٹس میں نظر آئے تھے وہ بھی حالیہ حکومتی تبدیلی کے بعد پیچھے کی طرف چلے گئے ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو جو چھ فیصد سے تجاوز کرچکی تھی وہ سارا عمل پیچھے چلا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان عملی طور پر عالمی مالیاتی اداروں، آئی ایم ایف، طاقت ور ممالک کے مرہون منت کھڑا ہے اور توقع کرتا ہے یہ تمام ادارے اور ممالک معاشی بحران میں ہمیں ریلیف فراہم کرے۔

معاشی گرداب کی ایک بنیادی وجہ ملک میں موجود سیاسی و معاشی غیر یقینی کیفیت یا صورتحال ہے۔ کیونکہ اول تو حکومت کی سمت کا تعین کرنا ہر سطح پر مشکل نظر آتا ہے۔ دوئم جو سیاسی و معاشی غیر یقینی صورتحال ہے ایسے میں کیسے عالمی مالیاتی ادارے یا طاقت ور ممالک معاشی امداد یا نئی معاشی حکمت عملی میں کیوں آگے بڑھیں گے۔ ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج یا امداد سمیت مالیاتی معاملات کے طے کرنے میں پاکستان میں عدم سیاسی و معاشی استحکام ہے۔

ان کو معلوم ہے کہ اس وقت حکومت کے پاس پانچ برس کا مینڈیٹ نہیں اور اس مختصر سی حکومت کے ساتھ کسی بڑی منصوبہ بندی کا حصہ بننا درست حکمت عملی نہیں۔ اس لیے عمران خان کی حکومت تو چلی گئی لیکن اس ملک کو کیسے آگے چلانا تھا اس حوالے سے کوئی بڑی منصوبہ بندی یا فیصلہ یا سوچ و بچار نہیں کیا گیا۔ خیال تھا کہ حکومتی تبدیلی کا عمل کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں کرسکے گا اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہوگی۔ لیکن اس وقت جو قومی سطح پر ایک بڑا سیاسی ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے اسے باہر کیسے نکلا جائے۔

کیونکہ ایک طرف تیرہ سیاسی جماعتوں پر حکومتی اتحاد ہے تو دوسری طرف عمران خان ہے۔ ان دونوں اہم فریقوں میں موجود عدم اعتماد اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی جو روش ہے ایسے میں کیسے سیاسی بحران سے نکلا جا سکے گا؟ قومی سیاست اور اس کا ایک بحران نئے انتخابات کے حوالے سے ہے۔ ایک فریق یعنی حکومتی اتحاد اگست 2023 میں جبکہ عمران خان فوری طور پر یعنی اکتوبر 2022 میں انتخابات کے حامی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے اس مطالبہ پر کون کس پر سیاسی برتری حاصل کرتا ہے۔

لیکن ایک بات طے ہے کہ انتخابات فوری طور پر ہوں یا اگلے برس دونوں صورتوں میں سیاسی محاذ آرائی کا کھیل ختم نہیں ہو گا اور حکومت کی عملی تبدیلی کے بعد جو سیاسی بحران آگے بڑھ رہا ہے اس سے فوری طور پر نجات ممکن نہیں۔ ایک بڑا مسئلہ عالمی اور علاقائی سیاست میں جو بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس میں ہم خود کو کیسے کھڑا کرتے ہیں اور کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری فیصلہ ساز قوتیں بھی ان معاملات میں تضاد کا شکار ہیں یا حتمی حکمت عملی میں فیصلہ سازی میں تاخیر کی جا رہی ہے۔

اس لیے جو سیاسی و معاشی بحران ہے اس کے پیچھے خارجہ پالیسی سے جڑے معاملات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک بڑا طبقہ ملکی بحران کے حل میں میثاق معیشت پر بھی زور دیتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ جو سیاست کا عمل یا سیاسی اختلاف سیاسی دشمنی یا تعصب کا شکار ہو گیا ہے اس میں کیسے باہر نکلا جا سکے گا اور کون لانگ ٹرم معاشی منصوبہ بندی کی طرف پیش رفت کرسکے گا۔

سیاسی اور معاشی بحران کا حل اب ہمیں روایتی طور طریقوں یا ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے ممکن نہیں۔ سیاست اور معیشت میں غیر معمولی حالات کی موجودگی میں غیر معمولی اقدامات ہی ہمیں کسی نئی منزل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی طاقت ور سیاسی اشرافیہ یا طاقت کے مراکز معاملات کو روایتی طریقوں سے ہی چلانا چاہتے ہیں یا واقعی ان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر موجودہ سیاسی و معاشی روش ترک کرنی ہوگی۔

کیونکہ اگر واقعی ہم نے سیاسی اور معاشی بحران سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں اپنے سیاسی، انتظامی، معاشی اور قانونی محاذ پر ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوگی۔ سیاسی، معاشی محاذ پر محض مصنوعی یا میک اپ کے طور پوچا پاچی کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہم غیر معمولی تبدیلیوں کے حق میں نہیں۔ کیونکہ طاقت کے طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے سیاسی، معاشی اور انتظامی بنیادوں پر موجود ڈھانچوں میں تبدیلیاں کیں تو اس سے ان کے اپنے سیاسی مفادات کو ضرب لگ سکتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں طاقت ور طبقہ ہی سخت گیر اصلاحات کا مخالف ہے۔

یہ سمجھنا ہو گا یا ماننا ہو گا کہ ہم ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں اور حالات نے ہمارے لیے کئی دروازوں کو بھی بند کر دیا ہے اور بلاوجہ غیر معمولی عالمی طاقتوں پر انحصار بھی ہمیں کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ جو حکمرانی کا نظام ہم موجودہ طور طریقوں سے چلانے کی جو کوشش کر رہے ہیں وہ اس ریاست یا معاشرتی نظام کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گا۔ ریاست اور حکمرانی کا مقدمہ اسی صورت میں کمزوری سے عملاً مضبوطی کی طرف بڑھے گا جب ہم واقعی کچھ مثبت طور پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ سیاست اور معیشت کے معاملات کی درستگی میں جو مافیا پر مبنی گٹھ جوڑ بن گئے ہیں ان کو توڑنا کمزور ریاستی یا سیاسی یا حکومتی نظام میں ممکن نہیں ہوتا۔ خطرہ یہ موجود رہتا ہے کہ مافیا پر موجود مبنی حکمرانی ریاستی و حکومتی نظام سے زیادہ طاقت حاصل کر لیتا ہے اور سیاسی حکومتوں کو ان کے مقابلے میں سیاسی سمجھوتوں یا خود کو ان ہی قوتوں کے ساتھ اپنی مفاداتی سیاست کو جوڑنا ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں سمیت دیگر اشیا میں مہنگائی اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی سیاسی اڑان ظاہر کرتی ہے کہ ہم معاشی معاملات میں بے بسی اور لاچارگی کا شکار ہیں۔

آئی ایم ایف کے سامنے ہماری بے بسی کا اصل ملبہ عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور ہمارے پاس ان مالیاتی اداروں سے نکلنے کے لیے یا اپنے معاشی آزادانہ فیصلوں کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ ایسے میں جو لوگ بھی سیاسی اور معاشی استحکام کے نعرے موجودہ سیاسی و معاشی فریم ورک میں لگا رہے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ کوئی پیچ ورک تو کر سکتے ہیں لیکن اس سے بڑی سیاسی اور معاشی تبدیلی جو عوامی مفادات سے جڑی ہو ممکن نہیں۔ ایک مہذب معاشرہ یا ذمہ دار ریاست ہی اپنی جوابدہی کی بنیاد پر اصلاح کا راستہ تلاش کرتی ہے اور ان ہی مشکل حالات میں وہ راستہ بھی تلاش کرتی ہے اور لوگوں میں امید بھی دیتی ہے کہ ہم بہتر ہوسکتے ہیں لیکن ایسی ریاست، حکومت اور قیادت کہاں سے لائیں جو واقعی معاشرہ کو بدلنا چاہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments