چائے والا یا چائلڈ لیبر؟


ہمارے لیے بچے وہی ہیں جو ہمارے بچے ہیں دوسروں کے بچوں کو شاید ہم بچے سمجھتے ہی نہیں ہیں یا ہم نے کبھی دوسروں کے بچوں کو وہ درجہ دیا ہی نہیں جو اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں بچے سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن شاید وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ محاورہ بھی الٹ ہو گیا ہے۔ ہمارے گھروں میں کام کرنے والی آیا کے بچے ہوں، ہوٹل، ریسٹورنٹ، فیکٹری، ورکشاپ سمیت کئی جگہوں پر کام کرنے والے بچے ہمارے لیے بچے نہیں ہوتے۔

ہم ان کو معمول کے ملازمین کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ باجی کام کرنا ہے تو بچے گھر چھوڑ کر آیا کرو، چھوٹے ایک چائے لانا، چھوٹے گاڑی کی بیٹری میں پانی ڈال دو۔ آپ کا بھی شاید ایسے ہی بچے سے روزانہ سامنا ہوتا ہو گا۔ کہی بچے بھیک مانگ رہے ہوں گے ، کہی کچرا اٹھا رہے ہوں گے ، گھریلو ورکرز ہوں گے اور کہی سگنل پر گاڑی کی ونڈ سکرین صاف کر رہے ہوں گے ۔ ان سب بچوں کو ہم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہے؟

شاید ہمارا ضمیر مردہ ہو گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت دو کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے، ایک کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ محکمہ تعلیم پنجاب کی رپورٹ کے مطابق کورونا کے دوران 15 لاکھ بچوں نے سکول چھوڑ دیا۔ اس کی بڑی وجہ بیروزگاری اور غربت تھی۔ تاحال وہ بچے واپس سکولوں میں نہیں لائے جا سکے۔ آپ کو ہر شعبہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا نظر آئے گا لیکن چائلڈ رائٹس پر آواز اٹھاتا آپ کو کوئی کم ہی نظر آئے گا۔

اگر خوش قسمتی سے کوئی مل بھی جائے تو ہم اس کو نظر انداز ہی کریں گے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو ایک دوسرے کو اپنا شاید دشمن سمجھتے ہیں۔ دونوں محکموں میں معلومات شیئرنگ کا فقدان ہے۔ میں نے گزشتہ 14 سال سے پنجاب میں جو پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ کبھی لیبر ڈیپارٹمنٹ اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے سربراہان کی آپس میں ایک بھی مشترکہ میٹنگ ہوتے نہیں دیکھی اور نہ ایک دوسرے سے معلومات شیئر کرنے کا کبھی کوئی معاہدہ ہوتے نہیں دیکھا۔

لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کام مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ آپ اس محکمے کی سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ وفاق اور پنجاب حکومت نے فیکٹری مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 25 ہزار مقرر کی ہے لیکن مجال ہے لیبر ڈیپارٹمنٹ کسی ایک فیکٹری میں بھی جاکر چیک کرے کہ کون کون سی فیکٹری اپنے مزدوروں کو ماہانہ 25 ہزار تنخواہ دے رہی ہے۔ کیا ان فیکٹریوں میں مزدوروں کو حکومت کے مقرر کردہ ایس او پیز کے مطابق سہولیات دی جا رہی ہیں کیا ان فیکٹریوں میں کم عمر بچے کام کر رہے ہیں۔

ان ایس او پیز پر عملدرآمد کرانا لیبر منسٹر اور سیکرٹری لیبر کا کام ہے لیکن مجال ہے کبھی ان ایس او پیز پر توجہ دی گئی ہو۔ لیبر افسر نہ ہونے کے برابر ہیں تو لیبر انسپکشن کہاں سے ہوگی۔

گزشتہ ہفتے مجھے گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام تین روزہ ورکشاپ اٹینڈ کرنے کا موقع ملا۔ اس کے لئے میں آئی ایل او کی منورہ سلطانہ صاحبہ کا مشکور ہوں جنہوں نے میرا نام اس ورکشاپ کے لئے تجویز کیا۔

خصوصاً صفدر نیازی صاحب کا جن کو میں نے پہلے نظر انداز کیا پھر جب ان سے ملاقات ہوئی اور گفتگو ہوئی تو وہ تو کمال کے بندے نکلے۔ اس تین روزہ ورکشاپ میں میرے لیے دو باتیں بڑی حیران کن تھی پہلی آئی ایل او کے کنسلٹنٹ نے پہلے دن جو بتائی کہ خیبر پختونخوا میں 8 چائلڈ کورٹ ہیں جبکہ پنجاب میں صرف 1 ہے۔ سندھ میں 2 اور بلوچستان میں 1 چائلڈ کورٹ ہے۔ جبکہ جو پنجاب میں چائلڈ کورٹ ہے اس میں بھی زیادہ تر دیگر کیسز کی ہی شنوائی ہوتی ہے۔

پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ جس میں ہزاروں فیکٹریاں ہیں۔ لاکھوں بچے روزانہ مزدوری کرتے ہیں۔ اس میں صرف ایک چائلڈ کورٹ ہے۔ کنسلٹنٹ نے کہا چائلڈ لیبر کی تعداد کے لحاظ سے پنجاب کے ہر ڈسٹرکٹ میں ایک چائلڈ کورٹ لازمی ہونی چاہیے۔ چائلڈ لیبر میں سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ ان پر تشدد کے کیسز سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس کی کبھی رپورٹ تیار نہیں ہوتی۔ سرکاری سطح پر کبھی چائلڈ لیبر کا ڈیٹا بھی جمع نہیں کیا گیا۔

دوسری اہم بات صفدر نیازی نے بتائی کہ حافظ آباد میں میرا لیبر افسر کے دفتر میں جانا ہوا تو اس لیبر افسر کا دفتر ایک فیکٹری کی چھت پر تھا وہاں بیٹھے ہی ہمارے لیے نیچے موجود ایک ہوٹل میں کام کرنے والا بچہ چائے لے کر آیا۔ میں نے بعد میں ہوٹل کے مالک سے پوچھا کہ آپ نے ایک بچے کو چائے کے کام پر رکھا ہے آپ کو محکمہ لیبر پوچھتا نہیں۔ تو ہوٹل مالک نے بتایا کہ محکمہ لیبر کے افسر کو چائے اور کھانا ہم مفت دیتے ہیں وہ ہم سے کیوں پوچھے گا۔

سینئر صحافی اور ہمارے بہت ہی پیارے دوست عون ساہی صاحب نے دو دن مسلسل ہمیں ایک بات بتائی کہ بچوں کے حوالے سے جب بھی نیوز سٹوری بنائیں تو یہ کوشش لازمی کریں کہ اس سے بچے یا اس کے والدین کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ بچوں سے متعلق سٹوری دینے سے پہلے اصل حقائق لازمی معلوم کر لیں۔ جبکہ ورکشاپ کے تیسرے روز ایف آئی اے کی ایک خاتون افسر رخسانہ بی بی نے ہمارے ساتھ بہت دلچسپ معلومات شیئر کیں۔ ان کا تعلق ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے ہر کیس کی انکوائری ہر صورت پندرہ روز میں مکمل کرتا ہے۔ ہمارے پاس زیادہ تر 14 سال سے 18 سال کی عمر کی بچیوں کے کیسز آتے ہیں۔ ایف آئی اے ہمیشہ ڈیجٹل ثبوتوں کی بنیاد پر کیسز کو آگے بڑھاتا ہے۔ ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ انکوائری کے دوران تب پیش آتا ہے جب موبائل کمپنیاں ہمارے ساتھ لاگ شیئر نہیں کرتی جو انکوائری کی رہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ ٹک ٹاک اور فیس بک سے ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے۔

جیز کیش میں سب سے زیادہ فراڈ کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ جس میں کوئی شخص آپ کے کسی عزیز بچے کو استعمال کر کے فراڈ کرتا ہے۔ رخسانہ بی بی نے بتایا کہ ایف آئی اے اب ہر سطح پر آگاہی کیمپین چلا رہا ہے۔ ایف آئی اے کے دروازے بچے، بچیوں سمیت سب کے لئے کھلے ہیں۔ اس ورکشاپ میں ہمارے ساتھ شیراز حسنات صاحب، عامر ملک، صادق بلوچ، ربیعہ ارشد، زنیرہ الیاس، عتیق مجید، سحرش ناز، سید شہزاد حسین، عشرت فاطمہ، کامران ساقی، مدیحہ اقبال، عدیل احمد، نیہا مسعود، ولید احمد، ایاز مورس، سنکر لال، بورا لال شامل تھے۔

اس تین روزہ ورکشاپ میں صفدر نیازی نے ہمیں تمام وہ قوانین بھی فراہم کیے جو وفاق سمیت تمام صوبوں نے بچوں کے حقوق کے متعلقہ پاس کیے ہوئے ہیں۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے وہ صرف سفید کاغذوں کو سیاہ ہی کیا گیا تھا۔ ان قوانین پر پورے ملک میں کہی بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت کم از کم اتنا تو کر سکتی ہے کہ اپنے ہی بنائے قوانین پر عملدرآمد کرا لے۔ سرکاری سطح پر چائلڈ لیبر کا ڈیٹا جمع کرے۔ اور ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ جبکہ ایک کروڑ سے زائد کم عمر بچے مزدوری پر بھی مجبور ہیں۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کو پڑھنا ہے تو ان کے ہاتھوں سے لوہے کے اوزار اور چائے کے کپ چھیننا ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments