روک سکو تو روک لو!


اس وقت پاکستان سیاست اور جمہوریت کے درمیان مشقتی بنا ہوا ہے۔ 2018 ء کے انتخابات کے بعد ملی جلی سیاسی جماعتوں کے تعاون سے عمران خان سرکار بنی تھی اس وقت بھی ہارنے والی مشہور زمانہ سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے الزام لگایا تھا کہ انتخابات شفاف نہیں تھے اور نہ معلوم اداروں نے من مانی کر کے ایسا نتیجہ دیا جس سے جمہوریت پر سیاست کرنی مشکل ہو جائے۔ کوئی بھی جماعت نامعلوم ادارے کا نام بتانے پر تیار نہ تھی۔

مگر اب کچھ اسرار کھلنے لگے ہیں۔ اس سے پہلے کئی ایسے موقعے آئے جب عمران خان سرکار قومی اسمبلی میں قانون سازی اور بجٹ پر اپنی حیثیت کھو سکتی تھی۔ مگر نامعلوم مہربان بہت ہی کام آئے۔ جب بھی کوئی ایسا قانون یا قرارداد پیش ہوتی تو رائے شماری خفیہ تو تھی مگر عمران خان سرکار کا کام بن گیا پھر کسی نے بتایا موجودہ وزیردفاع خواجہ آصف اپنے حلقے سے ہار گئے تھے مگر نامعلوم مہربانوں نے الیکشن کمیشن کی مدد سے خواجہ صاحب کو سرخرو کیا۔

اب کی بار کیا ہوا۔ عمران خان کی سرکار مشکل حالات کے باوجود معاشی اور سماجی ترقی میں اپنے ہدف پورے کرتی رہی۔ اس نے تیسرے سال میں آئی ایم ایف کو بتا دیا کہ حکومت اس کے پروگرام من و عن نہیں چلا سکتی اور پٹرول کی قیمت میں دس روپے کی معمولی کمی بھی کی اور تو اور بجلی کے یونٹ میں بھی ایسا ہی کیا اور عمران خان نے کم سے کم رقم میں خاصے بیرون ملک سفر بھی کیے ۔ وزیراعظم عمران نے عسکری انتظامیہ کی مشاورت سے روس کا سفر بھی کیا۔

ان ہی دنوں میں امریکی، وزیراعظم عمران خان کے دورے پر دفتر خارجہ اور عسکری حلقوں کی توجہ مبذول کرواتے رہے۔ وزیراعظم نے فوج کے اعلیٰ ترین کماندار سے رائے طلب کی۔ جنرل باجوہ کو اندازہ تھا کہ روس اپنی پرانی ریاست میں مداخلت کر سکتا ہے اور اس طرح دورہ ملتوی ہو جائے گا مگر ان کو ہاں کرنی پڑی ادھر وزیراعظم نے روس میں قدم رکھا اور ادھر یوکرین پر روس نے یلغار کردی۔

عمران خان نے محسوس کیا کہ ہنگامی صورت حال کے باوجود روس نے پاکستان کو حیثیت اور اہمیت دی اور پیش کش کی کہ وہ روس سے رعایتی نرخوں پر پٹرول اور گندم خرید سکتا ہے اور طے پایا کہ جلد ہی سفارتی سطح پر معاہدے کے لیے ضروری کارروائی ہوگی۔ روس سے واپسی پر تحریک عدم اعتماد کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ پھر ہماری عسکری انتظامیہ کے سربراہ جنرل باجوہ نے ایک ایسا بیان دیا جس سے اندازہ ہو گیا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ہے۔

پاکستان کے مفاد میں کیا تھا اس پر سیاست اور جمہوریت خاموش رہی اس ساری صورت حال کا نقشہ بنانے والی شخصیت سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری تھے۔ جو پہلے بھی امریکہ کی آشیرباد کے بعد ہی صدر پاکستان بنے تھے اور امریکہ نے ان کو مکمل تحفظ دے رکھا تھا۔ ایک وقت آیا کہ ان کے ایک جارحانہ بیان کے بعد انہیں ملک بھی چھوڑنا پڑا مگر امریکہ ان کے ساتھ رہا اور اب جب امریکی ملازم نے وزیراعظم پاکستان کے خلاف سازش کی تو آصف زرداری نے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔

عمران خان نے عسکری انتظامیہ سے مداخلت کے لیے رابطہ بھی کیا اور جن پر بہت اعتماد تھا ان کو بھی صورت حال بتائی۔ مگر وہ سب امریکہ کی وجہ سے مجبور تھے اور عمران کی رخصتی امریکی مفادات کی وجہ سے ضروری تھی اور آصف علی زرداری نے جو سیاسی کھیل ترتیب دیا تھا، اس سے شروع میں مسلم لیگ نواز کے نواز شریف متفق نہ تھے۔ پھر ان پر واضح کیا گیا کہ آپ کے پاکستان سے باہر آنے کا معاملہ افواج پاکستان اور امریکی دباؤ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس لیے اب آصف علی زرداری شریک سفر ہی نہیں بلکہ اس کھیل کے راکھیل بھی ہیں۔ دوسری طرف چودھری نثار نے سابق صوبے دار پنجاب شہباز سپیڈ کو خبردار کیا۔ مگر وزیراعظم بننے کا بھوت اتر نہ سکا مگر ہوا کیا وزیراعظم بن گئے۔ مگر بھوت بے بسی کا تھا۔ ملک میں معاشی بھونچال آ گیا۔ تیل کی قیمت نے عوام کو بدحال اور مایوس کیا اور حکومت ناکام ہوتی نظر آئی۔

اب صورتحال یہ ہے مخلوط اور مجبور سرکار نے 2022 ء، 2023 ء کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ خسارے کے بجٹ سے عوام کو بہت ہی مایوسی ہو رہی ہے۔ شہباز شریف اور ان کی کابینہ اگلے سال تک حکومت چلانے کا بھاشن دے رہے ہیں جبکہ حالات ایسے لگ رہے ہیں ملک کے مسائل کا واحد حل فوری انتخابات ہیں۔ مگر ان کی خواہش ہے عمران خان کو کسی بھی قیمت پر قانون کی جکڑ میں لا کر بے بس کر دیا جائے۔ اس معاملہ میں سب سے اہم کردار وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ اور سزایافتہ خاتون مریم نواز ہیں۔ ابھی تک تو اعلیٰ صوبائی اور قومی عدالتیں مسلسل کوشش کر رہی ہیں کہ سیاسی معاملات کے تناظر میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ مگر ایک اور فریق جو بظاہر غیرجانبدار ہے وہ بھی عمران سے مطمئن نہیں۔ اور کسی قانونی موشگافی کے ذریعے عمران کو پابند سلاسل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

مہنگائی کے خوفناک جن نے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس معاملہ میں افواج پاکستان کے افراد بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سرکاری نوکرشاہی کے ملازموں نے حق خدمت میں معاوضہ کی رقم دوگنی کردی۔ وکیل صاحبان نے بھی کچھ ایسی ہی روش اختیار کی ہے مگر مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہا ہے۔ گھروں کے کرایہ میں اضافہ نظر آیا ہے۔ نجی سکولوں نے اپنی فیسوں میں اضافہ کر دیا۔

عام آدمی کے اخراجات میں اضافہ پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس کو اس مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ مال دار لوگوں کی تعداد میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ بینکوں کے منافع میں اضافہ معاشی ترقی کے برعکس ہے۔ عام آدمی کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

مجھے نہیں معلوم مخلوط اور مخدوش سرکار کس بنیاد پر اتنی مہنگائی کے باوجود عوام کو امید دلاتی ہے۔ حالات کی بہتری۔ ملکی قرضوں میں ڈالر کی اڑان کی وجہ سے بہت بلندی آ گئی ہے اور عام حالات میں ممکن نہیں کہ قرضوں کو اتارا جا سکے اور سرکار کا ہی دعویٰ ہے کہ اس مشکل صورتحال میں پاکستان کا حال سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے۔ مگر ہماری سیاسی اشرافیہ بالکل بے نیاز ہے۔ ہماری سپاہ کی اعلیٰ قیادت چین بھی گئے تھے۔ اس کا کوئی تذکرہ نظر نہیں آیا۔

سرکار کی طرف سے شنید ہے چین اپنے قرضے واپس مانگ رہا ہے۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ میں قرضوں کی رقم کو صرف نظر کیا ایسے میں اس سرکار پر کیسے بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت قومی سرکار کی ضرورت ہے اگر اس پر عمران خان تیار ہو جائے ورنہ عمران خان کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ بڑا امتحان عسکری انتظامیہ کا ہے۔ وہ کس کی طرف دیکھ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments