دیوی کا کرشمہ


میں اپنے ماموں سے ملنے جا رہا تھا، وہ دریائے ستلج کے قریب ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ ہمارے گھر سے ان کا گاؤں کھادر نہر کا پل پار کر کے دریا کی طرف رستے میں آتا ہے۔ میں پیدل ہی اس رستے پر چل پڑا۔ موسم بہت ہی سہانا تھا: ہر طرف گہرے اور ہلکے رنگوں کے اودے اودے بادل چھائے ہوئے تھے ؛ ایسے جیسے ابھی بارش ہو کے رکی ہو؛ اور بارش بھی نہ زیادہ کہ کیچڑ اور نہ اتنی کم کہ زمین بھی گیلی نہ ہو۔ میں اسی طرح پیدل چلتا جا رہا تھا کہ رستے میں سڑک کنارے چند شیلفوں پر مشتمل ایک لائبریری آئی، ساری کی ساری نایاب دینی کتابوں سے بھری ہوئی۔

بڑے بڑے نایاب عنوانات تھے، بڑی مستند کتابیں تھیں، اونچے اونچے چوٹی کے لکھاریوں کی۔ کچھ لڑکے لائبریری کے اردگرد کھیل رہے تھے اور کتابوں کی نا قدری کر رہے تھے، کچھ انہوں نے سامنے سڑک کے دوسری طرف کیکر کے درخت پر چڑھا رکھی تھیں، جس کی ٹہنیاں دوسری طرف تک کو پہنچی ہوئی تھیں اور گرد و پیش میں یہ واحد سایہ تھا جہاں لوگ آ کے سستاتے تھے۔ ان کا یہ فعل مجھے بڑا ناگوار گزرا۔ شرارت ان کے چہروں پر کھیل رہی تھی۔

میں نے ان میں سے ایک دو کو درخت پر چڑھ کر اتارا۔ دیکھا تو وہ بیرونی جلد بندی میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر معارف القرآن کی جلدیں تھیں۔ ان کی تفسیر ہمارے گھر میں بھی موجود ہے مگر پہلی جلد موجود نہیں۔ وہ تفسیر میری اہلیہ کے استعمال میں رہتی ہے۔ میں بہت خوش ہوا کہ چلو اس کے لئے پہلی جلد یہاں سے لے جاتا ہوں۔ پھر میں نے اس کی تلاش شروع کی۔ مجھے ایک دسویں جلد نظر آئی، بڑی حیرت ہوئی کہ یہ تفسیر تو آٹھ جلدوں میں ہے۔

پھر دوسری اور تیسری جلد میرے ہاتھ لگ گئیں، میں نے دیکھا کہ وہ بہت پتلی ہیں ؛ فوراً میرے دل میں خیال آیا کہ اس طرح تو یہ تفسیر کئی جلدوں میں پھیلا دی گئی ہو گی۔ خیر سرسری تلاش سے پہلی جلد نہ ملی۔ ایک شیلف کی طرف نظر کی تو امید پیدا ہوئی کہ اس میں ہو گی، مگر اس دوران دل میں خیال آیا کہ یہ مال ایک تو چوری کا ہے، دوسرے اس طرح کرنے سے پورا سیٹ خراب ہو جائے گا، سو سوچا کہ کوئی اور یک جلدی کتاب لے لیتا ہوں کیوں کہ ویسے بھی یہاں کوئی کتابوں کی قدر نہیں کر رہا۔

کرتے کرتے ایک کتاب کے دو مختلف نسخے ملے : فتاویٰ رشیدیہ۔ لیکن اس فتاویٰ رشیدیہ کے مصنف جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے مہتمم مولانا حبیب اللہ رشیدی رحمۃ اللہ علیہ تھے، کتاب پر نام لکھا تھا مفتی حبیب اللہ رشیدی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ سنا نہ تھا کہ مولانا مفتی بھی تھے اور فتویٰ بھی دیتے تھے۔ خیر، ایک نسخہ اردو میں اور دوسرا عربی میں تھا۔ اردو نسخہ میں نے کھول کر دیکھا، تھوڑا سا پڑھا (اب یاد نہیں کہ کس بارے میں وہ مسئلہ تھا، ہاں یہ یاد ہے کہ فہرست سے دیکھ کر کسی خاص مقام پر کتاب کھولی تھی) میں نے پھر سوچا کہ اپنی اہلیہ کے لئے ایک نسخہ لیے چلتا ہوں اور میں نے اس کے لئے عربی نسخے کا انتخاب کیا مگر عجیب لگا کہ سرسری ورق گردانی کی تو اس میں بھی ایک جگہ اردو لکھی ہوئی تھی، کوئی ٹیڑھا میڑھا نستعلیق خط تھا مگر مجھے بھلا لگا۔

خیر، وہاں سے نکل کر میں پھر اپنے ماموں کے گھر کی طرف ہو لیا۔ دل میں آیا کہ ان کی دکان پر چلا چلوں۔ پہنچا تو دیکھا کہ ان کی دکان میرے گمان کے بالکل برعکس کافی بڑی ہے اور سامان سے بھری پڑی ہے۔ ایک لڑکا آیا جو اوون میں پکانے کے لئے تیار پیٹسا پکا لایا تھا۔ پیٹسا بڑی عجیب شکل کا تھا، بیڈمنٹن کے ریکٹ کی شکل کا جس کا اوپری حصہ پٹھوروں کی طرح کا تھا۔ ایک لڑکا ایک دوسرا پیٹسا جو پکا ہوا نہ تھا اٹھا کے کھڑا تھا اور پٹھورے یا پوری کی طرح کی ہلکی گلابی تہہ اس پر چڑھی تھی جسے پھاڑ کر وہ اس کے اندر ہاتھ مار رہا تھا کہ غالباً ماموں نے کہا کہ اس طرح یہ خراب ہو جائے گا، جس پر اس نے وہ پیٹسا واپس کر دیا اور ماموں نے اسے دکان کے ایک شیلف پر رکھ دیا۔ پیٹسا کی شکل گٹار سے ملتی تھی۔

اپنے ماموں کے پاس کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد وہ مجھے اپنی سائیکل پر لے کر نکلے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، بس میں مطمئن ان کے پیچھے سوار تھا اور وہ ایک بڑے سے گاؤں کی گلیوں سے لے کر چلے جا رہے تھے اور ہم گپ شپ کر رہے تھے۔ گاؤں کا موسم ویسا ہی سہانا تھا۔ بارش کے بعد گلیاں بہت اچھی لگ رہی تھیں، مجھے ویسے بھی گاؤں کی گلیاں رومانوی لگتی ہیں۔ سائیکل پر سوار ایک موڑ مڑ کر دائیں طرف کسی گلی سے ہم گاؤں سے باہر نکل گئے۔

آگے دریا تھا۔ ماموں نے سائیکل دریا میں ڈال دی اور ہم دریا کے اوپر رواں دواں کنارے پار نکل لیے۔ اس کے بعد چاروں طرف پانی ہی پانی اور ہر طرف آبی سنبل ہی سنبل! ہم ان کے اوپر سائیکل پر سوار چلتے جا رہے تھے۔ آگے جا کر بڑے بڑے اونچے اونچے درختوں والا چاروں طرف پھیلا ایک جنگل پانی میں تھا۔ جنگل گھنا ایسا تھا کہ سورج کی روشنی کی تپش محسوس نہ ہوتی تھی اور نہ ہی بہت زیادہ روشنی آتی، یوں کہ کافی زیادہ سایہ دار تھا۔ کافی ہرا بھرا تھا۔ اس کے پانیوں میں بھی آبی سنبل اگی ہوئی تھی۔ سر سبز جنگل میں ٹیڑھی میڑھی ٹہنیاں عجیب حسن پیدا کرتی تھیں۔

اس جنگل سے گزر کر ہمارے سامنے ایک کچی سڑک آ گئی۔ ہم بائیں طرف اس کچی سڑک پر مڑ گئے جس کے دونوں طرف وہی جنگل تھا، سر سبز و شاداب، سہانے بادلوں والا موسم! اس سڑک پر بڑھتے ہوئے تھوڑا آگے جا کر ماموں نے اچانک سائیکل روک دی۔ میں اترا تو میرے سامنے جو منظر تھا اسے دیکھتے ہی حیرت سے میں بولا کہ ”یہ آپ مجھے کہاں لے آئے!“

میرے سامنے ایک مندر تھا۔ مندر کا دروازہ مٹی کے تھوڑے سے اونچے ٹیلے پر تھا۔ دروازہ قدیم طرز کا تھا، بالکل سادہ نہیں بلکہ ہلکے پھلکے متوازی الاضلاع سے بنے ہوئے چار پتیوں والے پھول اس پر بنے تھے۔ قدیم ہونے کی وجہ سے دروازہ میلا تھا مگر اسے دیکھ کر ایک عجب رعب دل میں پیدا ہوتا تھا۔ نیچے کی طرف اس کی کنڈی لگی تھی جس میں ایک تالا پڑا تھا۔ دروازے کے اوپر دھول مٹی سے اٹا ہوا ایک محرابی شکل کا بورڈ نصب تھا جس پر لکھا تھا ”دیوی کا کارنامہ“ ۔

اس کے سامنے ایک انتہائی خوب صورت درخت تھا، پہلی نظر میں یوں لگا کہ مصنوعی درخت ہے۔ پھر خیال آیا کہ یہ تو جیسے پلاسٹر آف پیرس کا بنا ہوا ہے اور پتے اس کے تنے اور ٹہنیوں کے اوپر ابھرے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان پتوں نے ٹہنیوں کے گرد آہستہ آہستہ حرکت کرنا شروع کر دی۔ تھوڑی اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کی ایک ٹہنی پر ایک بڑی سی کونپل ہے جس کی شکل یہود کے بڑے سے شبور یا شوفار سے ملتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے اس کونپل کے اگلے سرے نے گھومنا شروع کر دیا جیسے کھل رہی ہو اور پیچھے سے وہ کونپل خالی سینگ کی طرح نظر آ رہی تھی۔

یہ دیکھتے ہی سمجھ آ رہی تھی کہ اب ہم مندر کے اندر جائیں گے۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنا موبائل فون لے آؤں اور یہ سارے مناظر اس کے کیمرے میں محفوظ کر لوں کیوں کہ میرا سامنا بہت بڑے بڑے تکنیکی اچنبھوں سے ہونے والا تھا۔ اس لئے میں ماموں کو اپنا موبائل فون لے آنے کا کہہ کر واپس چلا آیا کیوں کہ میرے بدن پر قمیض نہ تھی، موبائل قمیض کی جیب میں تھا اور قمیض میں سائیکل پر ہی چھوڑ آیا تھا۔

مڑتے ہی مجھے خیال آیا کہ ایسا محیر العقول کارنامہ کوئی دیوی تو سر انجام نہیں دے سکتی، یہ کوئی دیوتا ہی کر سکتا ہے مگر پھر یہ سوچ کر میں نے اس خیال کو جھٹک دیا کہ اگر دیوتا کر سکتا ہے تو دیوی کیوں نہیں کر سکتی! سامنے دیکھا کہ میرا کزن قمر مندر کی سمت چلا آ رہا تھا۔ وہ حیران ہوا کہ میں واپس کیوں جا رہا ہوں سو اس نے پوچھ لیا تو میں نے اسے بتایا کہ موبائل فون لینے جا رہا ہوں۔ پھر میں موبائل کی سمت اور قمر اسی کچی سڑک پر میرے ماموں کی سمت چلا گیا۔ اس دوران مجھے کھانسی کا ایک کھرا آیا اور میں خواب کے عالم سے نکل آیا، میرا خواب ٹوٹ گیا۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ میں موبائل فون کے چکر میں پڑا ہی کیوں!

اس خواب کو کوئی دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں، میں نے جو فطرتی حسن دیکھا اس کو بھلا نہیں پا رہا، نہ بیان کر پایا ہوں۔ مندر کے بارے میں مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ دنیا میں کہیں تو ہو گا ایسا مندر! پھر خیال آتا ہے کہ وہ تو خواب تھا، دنیا میں کہاں ہو سکتا ہے ایسا؟ مگر میں پھر اپنے پہلے خیال کی طرف لوٹ جاتا ہوں کہ دنیا بڑے بڑے عجوبوں سے بھری پڑی ہے، ہو سکتا ہے یہ عجوبہ بھی کہیں موجود ہو!

محمود احمد
Latest posts by محمود احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments