ڈاکٹر عامر لیاقت حسین فانی۔ انسان فانی


متوسط، سیاسی اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ایک ہمہ جہت کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ ایک صحافی اور نیوز کاسٹر کے طور پر اپنی عملی زندگی کی شروعات کرنے والے عامر لیاقت حسین نے ابتدائی طور پر ایک مذہبی سکالر کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ جیو ٹی وی کے پروگرام ”عالم آن لائن“ سے اینکر پرسن کے طور پر آغاز کرتے ہوئے بظاہر ڈاکٹر صاحب نے ایک مشکل فیصلہ کیا کیونکہ ملک عزیز میں ٹی وی سکرین پر مذہبی پروگراموں کو وہ شہرت اور پذیرائی میسر نہیں آتی جو شوبز کے میدان میں دیگر موضوعات کو میسر آتی ہے۔

مگر عامر لیاقت حسین کی ذہانت، محنت اور انداز نے اس پروگرام کو اپنے وقت کا مقبول ترین پروگرام بنا دیا۔ مختلف مسالک کے جید علماء کو ایک ہی وقت میں، ایک ہی پلیٹ فارم پر بٹھا کر، شرعی اور فروعی مسائل پر گفتگو کرنا اور اختلاف رائے کو جھگڑے اور دشمنی میں بدلنے کے بجائے مذہبی و مسلکی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کاوش کرنا ان کی زندگی کا ایک بڑا کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کی محنت، لگن، استدلال اور علم کی قوت تھی کہ ایک لمبے عرصے تک ”عالم آن لائن“ جیو ٹی وی کے ایک سپر ریٹنگ ٹاک شو کے طور پر پسند کیا جاتا رہا۔

”عالم آن لائن“ کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے شوبز کے دیگر میدانوں کا رخ کیا تو قدم قدم کامیابیوں نے ان کو شوبز کی ہر فیلڈ کا سپر سٹار بنا دیا۔ ثنا خوانی ہو یا نعت گوئی، گلوکاری ہو یا اداکاری، میزبانی ہو یا مہمانی، میدان خطابت ہو یا میدان صحافت، نیلام گھر ہو یا رمضان ٹرانسمیشن حتی کہ کوکنگ شو تک ہر جگہ عامر لیاقت حسین چھاتے چلے گئے، ہر میدان ان کی فتوحات کا گڑھ بن گیا۔ ان کا چرچا اور داستانیں زبان زدعام ہو گئیں بلاشبہ عامر لیاقت حسین ایک ماڈل، آئیڈیل اور برانڈ بن گیا۔ شوبز کے علاوہ سیاست میں قدم رکھا تو اس کے بھی شہسوار ٹھہرے، ممبر صوبائی اسمبلی بنے، ممبر قومی اسمبلی بنے اور وزیر بھی بنے۔ دو سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلق رہا۔ جماعت کے اندر رہتے ہوئے قیادت اور پارٹی پالیسی سے اختلاف اور بر سرعام تنقید کا حوصلہ بھی کیا۔

شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے اس بلند پایہ انسان کے قدم ڈگمگائے بھی، کچھ گفتنی نا گفتنی داستانیں ان سے منسوب بھی ہوئیں جن کا تذکرہ ان سطور میں قطعاً مناسب نہیں کہ اب وہ عالم فنا سے عالم بقاء سدھار چکے اور اب ان کا معاملہ خالق کے ساتھ ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری ایام کچھ اپنوں کی مہربانیوں سے تلخ تر گزرے اور ان کو ایک ایسی موت ملی جس کے وہ ہر گز مستحق نہ تھے، ایک شاندار آدمی پل بھر میں بے نشاں ٹھہرا۔ وہ جو رونق محفل ہوا کرتا تھا آج تنہائی کی موت کا شکار ہو گیا۔ وہ جو جہاں کا علم رکھتا تھا بے علمی کی موت مارا گیا۔

ڈاکٹر صاحب دنیا سے چلے گئے مگر جاتے جاتے وہ یہ ضرور بتا گئے کہ انسان چاہے جتنا بھی بلند ہو جائے، جتنا بھی عقلمند ہو جائے، شہرت کی جتنی بلندیوں پر پہنچ جائے، چاہے کائنات کو اپنی ایڑیوں کے نیچے مسخ دے مگر انسان کمزور ہے، فانی ہے، ختم ہونے والا ہے، کبھی نہ رہنے والا ہے، اتنا بے بس کہ تمام تر طاقت کے باوجود بستر موت منتخب کرنے کی طاقت بھی نہیں، سب کچھ فنا باقی صرف رب العالمین کی ذات ہے۔ کہ خالق فرماتے ہیں

کل من علیھا فان و یبقى وجہ ربک ذوالجلال والاکرام

ڈاکٹر صاحب کی موت سبق دیتی ہے کہ شہرت، علم، دولت اور اقتدار میرے رب کی عطاء ہے اس کو مخلوق خدا کی بہتری اور بہبود کے لئے استعمال کرنے کی سعی کریں کیونکہ زندگی عطاء کرنے والا زندگی لینے پہ آ جائے تو علم، دولت، شہرت اور اقتدار آپ کے کام نہیں آسکتے اور انسان سے نعش بنتے دیر نہیں لگتی اور نعش صاحب اقتدار کی ہو، صاحب علم کی ہو، صاحب عقل کی ہو، صاحب گفتار کی ہو یا صاحب مال کی ہو قابل رحم ہوتی ہے دوسروں کی محتاج ہوتی ہے۔

اللہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور بہشت بریں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments