زہرہ کے خواب ادھورے رہ گئے


سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ میں صبح جب اپنے دفتر پہنچا تو میری سیکرٹری کے پاس دفتر کی دو تین لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ مجھے آتا دیکھ کر وہ اٹھ کر اپنی سیٹ پر چلی گئیں۔ میں نے سیکریٹری سے پوچھا خیریت صبح صبح کیوں ساری اکٹھی ہوئی ہیں۔ سر وہ زہرہ کا کل انتقال ہو گیا ہے اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔ کون زہرہ میں نے پوچھا۔ سر وہ ہمارے پاس بینک انشورنس میں کام کرتی تھی۔

مجھے زہرہ یاد آ گئی۔ چھ سات ماہ پہلے ہی وہ بینک انشورنس میں ملازم ہوئی تھی۔ وہ بڑی دھان پان سی بڑی بڑی باتیں کرنے والی لڑکی تھی۔ وہ چونکہ انشورنس کمپنی کی ملازم تھی اس لئے برائے راست اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن انشورنس کمپنی کے بینک انشورنس کا کام کرنے والے ملازم لڑکے اور لڑکیاں ایک معاہدہ کے تحت ہمارے بینک کی برانچوں میں بیٹھتے تھے۔ ایسے ملازموں کو انشورنس کمپنی کی طرف سے دس ہزار تنخواہ اور بزنس لانے پر کمیشن ملتا تھا۔

دو تین ماہ تک کوئی بزنس نہ لانے والوں کو انشورنس کمپنی فارغ کر دیتی تھی۔ ایسے سٹاف کی میٹنگ زیادہ تر بینک کے منیجر اور ایریا منیجر سے ہی ہوتی رہتی تھی۔ ان کی ایسی ہی ایک بزنس میٹنگ میں ریجنل چیف کی حیثیت سے میں نے بھی شرکت کی۔ انشورنس کمپنی کے سینیئر افسروں اور بینک کے اعلی حکام کے ساتھ میٹنگ ہونے کی وجہ سے سب لڑکیاں اور لڑکے بڑے تیار ہو کر آئے تھے۔ سب نے باری باری اپنا تعارف کروایا۔ دوسری لڑکیوں کی بہ نسبت زہرہ عام سے معمولی کپڑوں میں ملبوس تھی۔

جب اس کی باری آئی تو اس نے بتایا کہ وہ شام کو یونیورسٹی میں پڑھتی ہے اور دن میں انشورنس کمپنی کے ساتھ کام کرتی ہے۔ وہ ہمارے بینک کی دو برانچوں میں بیٹھتی ہے۔ میں بڑا حیران ہوا تھا کہ اتنی دھان پان سی لڑکی کیسے بسوں میں سفر کر کے دیہات کی دو برانچوں میں جاتی ہے اور پھر تین بجے یونیورسٹی میں شام کی کلاسز میں پڑھائی بھی کرتی ہے۔ اسے انشورنس کمپنی میں ملازم ہوئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا۔ ابھی تک کوئی بزنس نہ لا سکنے کی وجہ سے وہ کچھ نروس بھی تھی۔ مجھے اس کی آنکھوں میں چمک اور کچھ کرنے کی جوت نظر آئی جو فی زمانہ میں بہت کم بچوں اور بچیوں میں دیکھتا تھا۔ اس لیے میں نے اس کی ہمت بڑھائی، بزنس کے کچھ گر بتائے اور اسے تسلی دی کہ وہ جلد بزنس لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ میٹنگ ختم ہو گئی تو میں اپنے معاملات میں مصروف ہو گیا۔

اس کے دو تین ماہ بعد کی بات ہے ایک دن مجھے میری سیکرٹری نے انٹر کام پر پوچھا کہ سر بینک انشورنس کی ایک لڑکی زہرہ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ میں فارغ ہی بیٹھا تھا اس لئے میں نے سیکرٹری سے اسے اندر بھیجنے کو کہا اور ساتھ ہی شازیہ کو بھی بلانے کو کہا۔ شازیہ ہمارے بینک کی پرسنل منیجر تھی۔ میں اکثر خواتین ملازمین سے اس کی موجودگی میں ملتا تھا۔ اس پر اس نے کہا کہ سر وہ آپ سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہے۔ میں نے بادل نخواستہ اسے اندر بلا لیا۔

وہ میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ وہ بات کرتے ہوئے جھجک رہی تھی۔ بار بار بات کرنے کی کوشش کرتی اور پھر خاموش ہو جاتی۔ آخر میں وہ ہمت کر کے بولی سر مجھے کچھ رقم ادھار چاہیے۔ میں نے اپنے سمیسٹر کی فیس جمع کروانی ہے جس کی کل آخری تاریخ ہے۔ سر میں نے بہت کوشش کی ہے لیکن کہیں سے بھی بندوبست نہیں ہو سکا۔ آپ نے اس دن میٹنگ میں میری بہت حوصلہ افزائی کی تھی اس لئے میں آپ کے پاس آئی ہوں۔ اس نے ایک سانس میں اتنی ساری باتیں کر دیں اور اپنے پرس میں سے ایک لفافہ نکالا۔

لفافے میں سے ایک پاسپورٹ نکالا اور میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ سر ضمانت کے طور پر میرے اس پاسپورٹ کے سوا میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ میں نے اس سے فیس کا چالان مانگا جو اس نے نکال کر میرے سامنے میز پر رکھ دیا۔ بائیس ہزار کا چالان تھا۔ میں نے اس سے چالان لے لیا اور اسے کہا کہ آپ کی سمیسٹر کی فیس جمع ہو جائے گی آپ جاؤ۔

اس نے کہا! سر میرے پاس دس ہزار جمع ہیں، آپ مجھے بارہ ہزار دے دیں، میں آپ کو تین چار ماہ میں واپس کر دوں گی۔ میں جیب سے بیس ہزار نکالے اور لفافے میں بند کر کے اسے دیے اور کہا کہ بیس ہزار ہیں آپ فیس جمع کروا دو اور جب کبھی آپ کے پاس ہوں گے تو لوٹا دینا۔ میں نے اس کا پاسپورٹ اسے واپس کر دیا اور کہا کہ اس کی زبان ہی اس کی ضمانت ہے۔ اس نے کہا۔ سر میری ضرورت بارہ ہزار میں پوری ہو جائے گی۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں آپ یہ رکھ لو اور جب کبھی آپ کے پاس ہوں گے لوٹا دینا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ میرا شکریہ ادا کر کے دوبارہ رقم واپس کرانے کی یقین دہانی کرا کے چلی گئی۔

آٹھ دس دن بعد یونیورسٹی میں اپنے ایک دوست پروفیسر کو فون کر کے زہرہ کے بارے میں پتہ کروانے کو کہا۔ انہوں نے جو زہرہ کے گھر کے حالات بتائے وہ سن کر میں پریشان ہو گیا۔ اس کا باپ ایک دیہاڑی دار مزدور تھا جو بڑی محنت کر کے بیٹی کو پڑھا رہا تھا۔ وہ تین بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ بہن اور بھائی اس سے پانچ چھ سال چھوٹے تھے جو ابھی سکول میں پڑھ رہے تھے۔ خود وہ گاؤں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی جس سے چند سو روپے ملتے تھے۔

اماں بھی گاؤں میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ اس طرح ان کا گھر کا نظام چل رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک جیولر دوست سے زہرہ کی بابت بات کی جو اس کی پڑھائی کا مکمل خرچہ اٹھانے پر تیار ہو گیا۔ اس نے زہرہ کے آنے والے سمیسٹر کی فیس مجھے بھیج دی جو میں نے اپنے پروفیسر دوست کے توسط سے یونیورسٹی میں جمع کروا دی۔

اس کے کچھ دن بعد زہرہ ایک بار پھر میرے دفتر میں آئی۔ اس نے پوچھا سر میرے سمیسٹر کی فیس آپ نے جمع کروائی ہے۔ میں نے پوچھا تمہیں کس نے کہا ہے تو وہ کہنے لگی کہ پروفیسر ظہیر صاحب نے بتایا تھا کہ ایک مہربان نے آپ کے اگلے سمیسٹر کی فیس جمع کر وادی ہے لیکن انہوں نے میرے بہت اصرار کے باوجود مجھے نام نہیں بتایا۔ مجھ یقین تھا کہ فیس آپ نے ہی جمع کروائی ہوگی کیونکہ میں نے اس بارے میں آپ کے علاوہ کسی اور سے بات نہیں کی تھی۔

میں نے اسے بتایا کہ میرے ایک مہربان اس کی پڑھائی کا خرچہ اٹھانے کو تیار ہو گئے ہیں اور اب اسے فیس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سر میں کسی کا احسان لینا نہیں چاہتی۔ میں کسی نہ کسی طرح اپنی فیس کا بندوبست کر لوں گی۔ اس نے کہا۔ میں نے اسے بتایا کہ آپ میرے بچوں کی طرح ہو اور یہ تم پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی سر، میں یہ رقم قرض سمجھ کر آپ کو واپس ضرور کروں گی، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

اس کے بڑے بڑے خواب تھے۔ وہ ایم اے کر کے لیکچرار لگنا چاہتی تھی، پھر اس کا سی ایس ایس کرنے کا بھی ارادہ تھا۔ چھوٹی بہن اور بھائی کو بھی وہ اعلی تعلیم دلانا چاہتی تھی۔ والد کو بچوں کے لئے اتنی محنت کرتے دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوتا تھا۔ والدین کے لئے بھی وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی۔ زندگی میں عموماً رزق کی تنگی اور مشکل حالات میں اللہ تعالی سے شکوہ یا شکایت زبان پر آ جاتا ہے۔ لیکن میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ اتنے مشکل حالات میں بھی زہرہ کا کسی سے کوئی گلہ نہیں تھا بلکہ وہ مجھے اللہ تعالی کا شکر ہی بجا لاتی نظر آئی۔ میں نے اس کے حوصلے اور ہمت کی داد دی۔ اتنی محنت سے پڑھائی اور انشورنس کی نوکری کرنے پر اسے بہت سراہا۔ وہ بار بار میرا شکریہ ادا کر رہی تھی جس سے مجھے شرمندگی سی ہونے لگی اور میں نے اسے چائے پلا کر رخصت کر دیا۔

لیکن جون میں بینک و انشورنس کمپنی کا ٹارگٹ پورا کرنے کا دباؤ اور انتہا کی گرمی میں بس اور پھر پیدل سفر کو اس دھان پان سی لڑکی کی ننھی سی جان برداشت نہ کر سکی۔ جون کی ایک گرم دوپہر وہ دفتر سے گھر پہنچی تو شدید گرمی میں جسم میں پانی کی کمی ہو جانے کی وجہ سے وہ دھان پان سی لڑکی اپنی سدھ بدھ کھو سکی۔ ہمارے دیہات میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ رورل ہیلتھ سنٹر میں ڈاکٹر نہیں تھا، کافی دیر سے اسے شہر کے سرکاری ہسپتال میں لایا گیا۔

سرکاری ہسپتالوں میں اس جیسے غریبوں کی بھی بڑی بے قدری ہوتی ہے۔ بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے زہرہ اپنے سارے خواب ادھورے چھوڑ کر اپنی ابدی زندگی کی طرف چل دی۔ میں اس کے والدین سے جا کر ملا، اپنی بیٹوں جیسی بہادر اور محنتی بیٹی کی ناگہانی موت پر والدین کی بیچارگی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ زہرہ جیسی بہت سی لڑکیاں ہمارے معاشرے میں اپنے خواب پورے کرنے کے لئے سخت محنت کرتی ہیں لیکن ان میں سے معدودے چند ہی اپنے خوابوں کی تعبیر پاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments