Its mean


” Its mean“ ، یہ جملہ میں تقریباً روزانہ ہی سنتا ہوں۔ کئی لوگوں سے۔ اور یہ میں نے بہت عام سے لوگوں سے بھی سنا ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے اور کئی بڑے بڑے افسران سے بھی سنا ہے۔ اس جملے کا کہنے والا کہنا چاہتا ہے کہ، ”اس کا مطلب ہے“ ۔ اس طرح انگریزی کے درجنوں اور الفاظ اور جملے ہیں جو اکثر غلط بولے جاتے ہیں لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب یہ غلط الفاظ جملے بڑے پڑھے لکھے اور سمجھدار شخص سے سننے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح لفظ ”شاذ و نادر“ آپ نے سنا ہو گا۔ اسے بھی لوگ شاذ و نادر ہی درست بولتے ہیں۔ اسے یا تو شادونازر کہیں گے یا شازو نازر۔

اسی حوالے سے دیکھا جائے تو بعض لوگوں کے نام سن کے ہنسی آتی ہے۔ ہمارے ہاں نسبتاً کم پڑھے لکھے کئی لوگوں کے بڑے عجیب و غریب نام رکھے ہوئے ہیں۔ جب غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اصل نام کو ہی بگاڑا گیا ہے۔ جیسے اصل نام تو افتخار ہے لیکن اسی کو عجیب طریقے سے بگاڑ کر لوگ اپنے بچوں کے نام ”استخار“ رکھ لیتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کا یہی نام ان کی سندوں اور شناختی کارڈ وغیرہ میں درج ہوتا ہے۔ یہی سلوک کئی دفعہ ’ممتاز ”نام کے ساتھ ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کی جگہ پر بعض لوگوں کا نام‘ منتاز ’رکھا گیا ہے۔ ہمیں‘ استخار ’یا‘ منتاز ’جیسے الفاظ یا نام بھی لغات میں نہیں ملتے۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ کئی لوگ اپنی گفتگو میں کئی الفاظ کا تلفظ غلط استعمال کرتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ ایک اچھے حلقہ احباب رکھنے کے باوجود وہ لفظ برسوں غلط بولتے رہتے ہیں ان کے قریب رہنے والوں کو اس کا خیال نہیں آتا۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ہمارے ہاں کسی کی اصلاح کا تردد کرنے کا ذوق بھی نسبتاً خاصا کم ہے۔ البتہ تمسخر اڑانے کو سب تیار ہوتے ہیں۔ سو! دوسری طرف جب بھی وہ غلط تلفظ سنتے ہیں اس پہ ہنس دیتے ہیں۔

تو یوں لوگ برسوں تمسخر اڑاتے رہتے ہیں لیکن طریقے سے اپنے ساتھ والے کسی دوست یا عزیز کی اصلاح کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ ہمارے کئی بہت سینئر سیاستدان ڈنکے کی چوٹ پہ روزانہ کئی غلط الفاظ غلط تلفظ کے ساتھ بول رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے قریبی حلقے کے انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی ان کی اصلاح نہیں کرتے اور ان کی غلطیوں کا یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔

بدقسمتی سے اب وہ معصومانہ دور تقریباً ختم ہو رہا ہے جس میں کئی لوگ غلط سلط انگریزی محض رعب جھاڑنے کے لیے اور دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے بولتے تھے۔ انہی دنوں کئی بیبیاں اپنے بچوں کو کسی دوسرے کے سامنے یہ کہتی پائی جاتی تھیں کہ بیٹا یہ لو واٹر ڈرنک کرلو۔ اور تم سلیپ کیوں نہیں کرتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ عام طور پہ لوگ انگلش کے غیر ضروری الفاظ گفتگو میں دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن یہ بات ان کے شاید ذہن میں نہیں ہوتی کہ غلط، بے محل یا غیر ضروری انگریزی بولنے سے مخاطب پر بہت الٹا اور نہایت برا اثر پڑتا ہے اور یہ کافی حد تک اس بندے کی اہلیت اور اس کی شخصیت کو ایکسپوز بھی کرتا ہے۔ شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے خاموشی کو پردہ کہا گیا ہے۔

دوسری طرف اب زمانہ کافی بدل گیا ہے۔ انگریزی کے حوالے سے تو گویا ایک انقلاب آ گیا ہے۔ کسی زمانے میں ہو گا لیکن اب انگریزی محض دکھاوے یا کسی کو متاثر کرنے کے لیے بولنے کی بجائے کسی قدر ضرورت بن گئی ہے۔ اب جس طرح کے تعلیمی نظام اور ماحول سے بچے پڑھ کے نکلتے ہیں وہ ’بائی ڈیفالٹ‘ Bilingual ہوتے ہیں۔ چنانچہ فی زمانہ کئی لوگ واقعتاً محض ایک زبان میں موقف پیش نہیں کر سکتے۔ لہذا ان کی گفتگو میں آپ کو دو تین زبانوں کا مرکب نظر آتا ہے۔ ان میں سے کئی لوگ بہت فطری سے انداز میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کا بہت خوبصورت استعمال کرتے ہیں۔ ان کے انداز سے کسی تصنع یا بناوٹ کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ انگریزی اور اردو اور بعض اوقات پنجابی کے الفاظ اس سلیقے اور روانی سے ملاتے ہوئے بولتے ہیں کہ انہیں سنتے ہوئے مزا آ تا ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہمارے ہاں انگریزی مضمون کی تعلیم چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی۔ اس زمانے میں انگریزی زبان ایک ہوا تھی۔ بے شمار طلباء کے ترک تعلیم کے فیصلے کے پیچھے خیر سے انگریزی مضمون کا ”ہاتھ“ ہوتا تھا۔ اور شرح خواندگی کم رہنے کی بھی ایک وجہ یہی تھی۔ اس زمانے میں انگریزی پڑھانے سمجھانے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ تھا ’مولا بخش ”۔ لہذا اس کا جو نتیجہ نکلا وہ اتنا غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ ان دنوں کسی قصبے کے سکول میں اگر کوئی استاد کوئی ٹوٹا پھوٹا ایک آدھ جملہ انگریزی کا بولتا تھا تو طلباء اس کے منہ کو دیکھتے رہتے اور اس استاد کی انگریزی دانی کی تعریف کرتے رہتے۔

تب انگریزی بول کر دوسروں کو متاثر کرنے کا سلسلہ عام تھا۔ ہم دیہات والے جب تعلیم کے لیے شہروں میں آئے اور وہاں لوگوں کو کسی قدر انگریزی الفاظ جملے بولتے دیکھتے تو خاصی حیرت ہوتی۔ بعد میں ایم اے انگلش کرنے کے دوران کھلا کہ بعض لوگ غلط انگلش بھی ایسے اعتماد سے بولتے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ بہرحال ان دنوں انگریزی سمجھنے کے لیے بارہ Tenses سیکھنے ناگزیر تھے۔ اور زیادہ تر طلباء یہیں آ کر پھنستے تھے اور یہیں سے ان کی انگریزی کے ساتھ نفرت شروع ہوجاتی تھی۔

ہماری سکول کی آدھی زندگی یہی بارہ Tenses یاد کرتے گزر گئی۔ یہ سچ ہے کہ بہت سارے طلباء کا تعلیمی مستقبل ان Tenses کی بھول بھلیوں کی نذر ہو گیا۔ آج کل جب انگلش پڑھنے، سننے اور بولنے کا ایک سیلاب سا آیا ہوا ہے تو“ Its mean ”جیسی بنیادی سی غلطیوں پہ حیرت ہوتی ہے اور اس سے زیادہ حیرت اس بات پہ ہوتی ہے کہ آس پاس والے ایسی غلطیوں کی اصلاح بھی نہیں کرتے۔ شاید وہ بھی اسے درست سمجھتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).