مشکل فیصلے


بحیثیت فرض شناس پاکستانی قوم ہم نے کبھی اس بات کا عمیق مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے کہ جب کبھی ارض مقدس پاکستان معاشی مشکلات کے گورکھ دھندوں میں پھنسا ہے تو ہمارے نام نہاد جمہوریت پسند راہنما (قطع نظر کسی بھی سیاسی جماعت کے ) ہم عوام کو ہی کیوں دو دھاری تلوار کے نیچے کاٹتے ہیں۔ ہمیشہ ہی عوام کو کیوں کہا جاتا ہے کہ قربانی کے لئے تیار ہو جائیں کیونکہ مشکل حالات ہیں اور ہمیں ملکی معیشت اور عوام کی بہتری کے لئے اب مشکل فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ اب نہیں تو کبھی نہیں، اب اگر عوام نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش نہ کیا تو پھر ملکی حالات مزید دگرگوں ہوتے ہوتے ڈیفالٹ کی طرف چلے جائے گا۔

اب عوام کے پاس چونکہ قربانی کے لئے ماسوا ایک لنگوٹ کے اور کچھ ہے نہیں کہ جسے قربان کیا جا سکے، اس لئے اب تو مختلف مکاتب فکر اور عوامی حلقوں سے یہ آوازیں بھی سنائی دی جانے لگی ہیں کہ خاکم بدہن کہ ایک بار ملک دیوالیہ ہو ہی جائے تو بہتر ہے کیونکہ دوریوں کے نزدیک منزل اور مشکلات کے بھنور سے ہی آسانیوں کی لہریں اٹھا کرتی ہیں۔

پاکستان کی سات دہائیوں پر مشتمل تاریخ شاہد ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت کا بہانہ کرتے ہوئے قربانی عوام سے ہی مانگی ہے۔ اگر عوام نے قربانی نہ سی دی تو خاکم بدہن ملک دنیا کے نقشہ سے مٹ جائے گا۔ مجھے یہ بات سنتے سنتے چالیس سال ہو چکے ہیں اس لئے میں عوام کو بتا نا چاہتا ہوں کہ ان نام نہاد جمہوریت کے چاچے ماموں کی بات نہ سنیں، انشا اللہ یہ ملک تاقیامت سلامت رہے گا۔ ہاں یہ سلامت نہیں رہیں گے۔ کیونکہ اگر ملکی معاشی حالات اتنے ہی مخدوش ہیں تو پھر ان کی اپنی جائیدادیں کیونکہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی جاتی ہے۔ ان کے اثاثوں میں کبھی کمی کیوں نہیں آتی۔ ملکی سٹیل مل بند ہو جاتی ہے، پی آئی اے خسارہ میں ہے، ملکی بجٹ خسارہ در خسارہ میں جا رہا ہے، قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کی ائر لائن اور ملز سب کی سب ترقی کے آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم بہتر انتظامی امور کا تجربہ رکھتے ہیں، میرا معصومانہ سوال یہ ہے کہ ان کا یہ تجربہ ملکی معاشی امور کو بہتر بنانے میں کیوں کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ نیت میں کھوٹ ہو تو ثواب بھی گناہ میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ بلکہ یہ ضرب المثل ان پر بعینہ صادق آتی ہے کہ ہاتھی کے دانے کھانے کو اور دکھانے کو اور۔

اب تو یہ بات بھی سوشل میڈیا پر شب و روز گردش کر رہی ہے کہ کس کس نے آسٹریلیا، امریکہ، لندن، بیلجیم اور دبئی وغیرہ میں جائیدادیں بنائی ہیں اور کون کس ملک میں کیسی زندگی گزار رہا ہے۔ سچ ہی لوگ کہتے ہیں کہ

جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے
سرخرو مگر ظل الہی ہوں گے

یعنی یہ میمز درست ثابت ہو رہی ہے کہ ہمیں قومی ترانے کے پیچھے لگایا ہوا ہے اور خود قومی خزانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ یا پھر ساڈے واسطے ترانے تے اپنے واسطے خزانے۔ اسی لئے تو ان کی اپنی عیاشیاں، فحاشیاں، شاہانہ اخراجات اور اصراف اس قدر حد سے تجاوز کر چکے ہیں کہ جسے تیراکی بھی نہیں آتی وہ بھی کروڑوں روپیہ سوئمنگ پول پر سرکاری خرچ سے ٹھیک کروا رہا ہے کہ کبھی دل ہی کر جاتا ہے کہ اس پول کے کنارے بیٹھا جائے، کیونکہ تیرنا تو آتا نہیں۔

خود نہیں تو کیا بچے تو یہ کام کر ہی سکتے ہیں۔ اور مجھے تو کبھی کبھی کیا سو فیصد یہ بات درست محسوس ہوتی ہے کہ یہ جمہوریت پسند حکمران عوام کی قربانی ملک کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ اپنی اولادوں کے مستقبل کے لئے مانگتے ہیں۔ اسی لئے تو ان کے اثاثے ایسے بڑھتے ہیں جیسے الاسٹک۔ عوام کا قربانی دینا تو ان کی مجبوری ہے کیونکہ وہ نہ بھی کریں گے تو پھر بھی ٹیکسز کی ایسی بھرمار ہونی ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ انہیں ٹیکسز کی چکی میں پسنا ہی پسنا ہے۔

لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر اب کی بار پبلک سڑکوں پر اس لئے آئے کہ اس بار ہم نہیں آپ حکمران بشمول تمام پارٹیز قربانی دیں بلکہ انہیں ملک پہ قربان کریں۔ پٹرول اگر مہنگا ہے تو تمام حکمران سے بیوروکریسی کے عہدیداران سرکاری پٹرول استعمال نہ کریں بلکہ اپنی جیب سے خرچ کریں، ماہانہ سرکاری اخراجات بند کریں اور اپنے اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکلو کر خرچ کریں، سرکاری رہائش، گاڑی، پروٹوکول، تنخواہیں، الغرض ہر وہ چیز جس پر سرکار کا لیبل لگا ہوا ہے اسے سرکار کو لوٹا دیں کہ ملک معاشی بہتری کی طرف گامزن ہو سکے یقین جانیے صرف ایک عمل سے اربوں روپیہ ملک بچا سکتا ہے۔

ان کے اللے تللے تو کسی طور کم ہونے کو ہے نہیں اور ہر شام ٹاک شوز میں کس ڈھٹائی اور بے شرمی سے سب کہہ رہے ہوتے ہیں کہ عوام پر مشکل وقت آن پڑا ہے اس لئے جمہوریت کی بقا ور عوام کے بہتر اور وسیع تر مفاد کی خاطر عوام ہی قربانی دے۔ یقین جانیے مشکل کا حل ان سب کو مشکلات میں ڈال کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ ہر وہ شخص جسے ملک سے پیار ہے اسے ہر اس سیاسی جماعت یا لیڈر کا ساتھ دینا چاہیے جو مشکل وقت میں عوام کے ساتھ کھڑا ہو نہ عوام کو مشکل میں ڈال کر اپنے فارم ہاؤس میں بیٹھ کر لوگوں کی مشکلات کا مذاق اڑائے۔ کارل مارکس شاید سچ ہی کہتا تھا کہ

وہ جنہوں نے سردی، گرمی کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ اب وہی لوگ قیادت کر رہے ہیں جنہوں نے دونوں کو ایسے ہی محسوس کیا ہو جیسے کہ کتابوں میں پڑھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments