”سب رنگ“ کو زندہ کرنے والے جیالے


اپنے تئیں تو اب تک یہی سمجھتی تھی کہ میں ”سب رنگ“ کی بڑی جیالی اور سچی عاشق ہوں۔ ایسا سمجھنا کچھ غلط بھی نہ تھا کہ خمیر میں کہانی کا رچاؤ ماں کے پیٹ سے ہی تھا۔ جنجال پورہ جیسے باڑے میں چچی، پھوپھی بازار کا کوئی کام کرنے کا کہتیں اور میرے ہاں الکسی سے بھرے انکار پر چھوٹی خالہ اونچی آواز میں چلاتیں۔ اری موری والا پیسہ اس کی تلی پر رکھ۔ یہ بازار سے دو طلسمی کہانیاں کرایہ پر لے گی اور پھر چاہے بازار کے چار چکر لگوا لینا۔

پان شاپ کا بھا جمیل بڑا کائیاں تھا۔ رسیوں پر لٹکتی کہانیوں پر جمی لالچی نظریں اور خالی ہاتھ پہنچاتا تھا۔ ادھار کی ترغیب اسی نے دی اور جب بارہ آنے جیسی بھاری بھرکم رقم کی مقروض ہو گئی تو گھر چلا آیا اماں بیچاری کے تو ہاتھوں کے جیسے طوطے ہی اڑ گئے کہ ہیں یہ ناہنجار اکلوتی بیٹی ایسی آپ پھدری نکلی ہے کہ بارہ آنے قرضہ چڑھائے بیٹھی ہے۔

اب ان کے لتر تھے اور میرا جسم تھا۔ میرا چیخنا چلانا ویسا ہی تھا جیسا کپل شرما اپنے شو میں غریبڑے بچوں کی ماں کے ہاتھوں دھنائی کی تصویر کھینچتا ہے۔

عالم شباب میں جب میں پور پور افسانوں، ناولوں کی جادو نگری میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایک نیا دلدار میری زندگی میں داخل ہوا۔ کیا بات تھی۔ بڑی انوکھی چھب والا۔ دھیرے دھیرے یہ جسم و جان میں حلول ہوتا گیا۔ یہ ”سب رنگ۔“ ڈائجسٹ تھا۔

برصغیر کے بڑے لکھنے والوں کے بہترین ناولٹ، افسانوں سے سجا، اجنبی سرزمینوں کی کہانیوں، نئی ثقافتوں اور تہذیبوں سے شناسائی دیتا، طلسماتی دنیا کی سیریں کرواتا کیسا نگار خانہ تھا یہ۔ اف ایک ایک کہانی کو چٹخاروں کے ساتھ پڑھا جاتا۔ پرچہ ختم ہونے پر افسوس بھرا دکھ اندر اتر جاتا کہ ہائے اتنی جلدی پڑھ بھی لیا۔ بدیسی ادب سے شدید پیار اور چاہت اسی نے دی۔ شکیل عادل زادہ کا اداریہ سچی بات ہے اگر اس کے خیالات و افکار کا خوبصورت آئینہ دار تھا تو وہیں ان کا تبوں کے نوک قلم کے کمال فن کا بھی بہترین نمونہ تھا۔ دو صفحے کا مواد اس حسن سے ایک صفحے پر بچھتا کہ لگتا جیسے موتی قطار در قطار سجا دیے ہوں۔ وہ کاتب اور ان کا فن کہاں گیا؟ مشینوں نے بہت کچھ کے ساتھ انہیں بھی نگل لیا۔

یہ میرے دلبر کے ماہ کامل بننے کا زمانہ تھا۔ اس کی آمد کس دھوم دھڑکے سے ہوتی کہ بک سٹال بینروں اور پوسٹروں سے سج جاتے۔ ہاکر اخبار پھینکتے ہوئے چلاتے ہوئے اس کا اعلان کرتے۔ اوپر تلے کے تین بچوں کا ساتھ اور میرا جنون کہ میری الماری اس کے ہر شمارے سے مزین ہو۔ نسبت روڈ کے کباڑیوں کی دکانوں اور انارکلی کے کتابوں کے ڈھابوں میں رسائل کی بلند ڈھیر یوں میں سے اس کے پرچے نکالنا گویا سمندر کی تہوں سے موتی نکالنے والی بات تھی۔

پانچ چھ گھنٹوں کی اس مشقت بعد گھر پہنچنے پر اماں کی من من بھر صلواتیں سننے کو ملتیں کہ میرے شتونگڑوں نے انہیں ستا ستا کر بے حال کر رکھا ہوتا۔ میں ایک نظر اپنے خزینے پر ڈالتی اور اماں کے پیار بھرے کوسنوں کو گھی شکر کی طرح معدے میں اتار لیتی۔

پھر اس چاند کے گھٹنے کا زمانہ شروع ہو گیا۔ شکیل عادل زادہ پر غصہ آتا۔ اس کی وضاحتیں ہر گز مطمئن نہ کرتیں۔ اور پھر ایک دن یہ گھٹتے گھٹتے ڈوب گیا اور ایک المناک یاد اور کسک اپنے چاہنے والوں کے سینوں میں چھوڑ گیا۔

اب ایسے میں جو جیالا اور سچا عاشق اٹھا تو وہ کون تھا؟ حسن رضا گوندل۔ واقعی وہی اس اعزاز کا حقدار تھا جس نے ذات سے بالا ہو کر سوچا کہ دنیا کا بہترین فکشن جسے بڑی تگ و دو کے بعد اکٹھا کیا گیا تھا اس سے نئی نسل محروم رہے گی اور وہ ضائع ہو جائے گا۔ اس کی خوش قسمتی دنیا جدید ٹیکنالوجی میں داخل ہو گئی۔ پاکستان بھی انٹرنیٹ سے فیض اٹھانے اور نئے دروازوں کے کھولنے میں دلچسپی لینے لگا تھا۔

پہلا کام برطانیہ میں مقیم اس پرعزم نوجوان حسن رضا گوندل نے فیس بک پر سب رنگ پیج اور سب رنگ ڈائجسٹ لورز کلب گروپ بنایا۔ سب رنگ کے چاہنے والے پروانوں کی طرح اکٹھے ہوئے۔ اب اس نے سب رنگ کو محفوظ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی۔ اس ضمن میں وہ برطانیہ سے پاکستان آیا اور شکیل عادل زادہ سے ملا۔ اپنی تجاویز اس کے سامنے رکھیں۔

ایک ایسا شخص جس نے بہترین تخلیقات کو پرچے کی زینت بنا کر خود کو منوایا۔ جس نے پرچہ بند کرنا قبول کیا مگر معیار پر سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ ٹوٹ گیا مگر جھکا نہیں۔

اب اپنے سامنے بیٹھے اس نوجوان کو دیکھتے ہوئے اس نے سارے خدشات اس کے سامنے رکھ دیے اور بولا۔ ”اس کا احیاء تو میری تمنا ہے اور طلب گار بھی بڑے ہیں مگر سنجیدہ کتنے ہیں؟ یہاں میں تذبذب کا شکار ہوں۔ حسن رضا سمجھا اور واپس برطانیہ چلا گیا۔

اب شماروں کی ڈیجیٹلائز کرنے کا کام ایک معروف کمپنی سے کروایا۔ شماروں کی اسکیننگ کروائی۔ فائلیں بنوائیں۔ پاکستان آ کر شکیل عادل زادہ کی خدمت میں پیش کیں۔ آئی پیڈ کی سکرین پر ہر شمارہ پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا۔

شکیل عادل زادہ اب سمجھ گئے تھے کہ نوجوان کس قدر مخلص اور جنونی ہے۔

انہیں کتابی شکل میں لانے کا مرحلہ جہلم بک کارنر کے بانی شاہد حمید کے ہونہار بیٹوں امر شاہد اور گگن شاہد جنہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں کتابوں کی اشاعتی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے نے آگے بڑھ کر اس عظیم ورثے کو اس کے شایان شان شائع کرنے کا عندیہ دیا۔

حسن رضا گوندل، امر شاہد اور گگن شاہد میں کس قدر مشکور ہوں آپ کی۔ آپ نے مجھے میرا گزرا ہوا وقت، میری گزری ہوئی یادیں میرے شب و روز جو میں نے سب رنگ کے ساتھ گزارے تھے سب اصل اور سود کے ساتھ لوٹا دیے ہیں۔

میری لائبریری اب پھر سجے گی ان ہیروں اور جواہر کے ساتھ جو میری کزنز میرے گھروں کی ہجرتوں کے دوران سب رنگ کے پرچوں کو لوٹانے کے وعدوں پر لے گئی تھیں مگر پھر کبھی ان کی واپسی نہیں ہوئی۔

دعائیں محبتیں تم سب کے لیے۔ اردو فکشن کو تم نے مالا مال کر دیا ہے اور کتاب کو بھی نئی زندگی دی ہے۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments