سابق صدر پرویز مشرف کو وطن واپسی پر کن قانونی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے؟

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


مشرف
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف گذشتہ کئی برسوں سے دبئی میں مقیم ہیں جہاں ان کو لاحق ایک پیچیدہ بیماری کا علاج جاری ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی ایک ٹویٹ کے بعد پرویز مشرف کی وطن واپسی کے بارے میں شروع ہونے والی بحث مختلف رہنماؤں اور پاکستانی فوج کی جانب سے دیے گئے بیانات سے ہوتی ہوئی اب اس بات پر پہنچ گئی ہے کہ سابق فوجی صدر کو وطن واپسی پر کن قانونی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔

حال ہی میں سیاسی رہنماؤں اور پاکستانی فوج کے ترجمان کی جانب سے دیے گئے بیانات کے بعد پرویز مشرف کی فیملی کی جانب سے 19 جون کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وطن واپسی اور اس میں سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع کی طرف سے رابطہ کیا گیا ہے۔ ہم اس ابتدائیے پر تہہ دل سے مشکور ہیں کیونکہ پاکستان اُن (پرویز مشرف) کا گھر ہے۔‘

پرویز مشرف کی صحت کو لاحق خطرات، علاج اور ادویات کی پاکستان میں عدم دستیابی اور سکیورٹی چیلنجز کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کے ’اہلخانہ کو اہم قانونی چیلنجز پر بھی غور کرنا ہو گا۔‘

خیال رہے کہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے نو جون کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’جنرل مشرف کی خراب صحت کے پیش نظر ان کو وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘

اس ٹویٹ کے چند روز بعد پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھی ایک ٹویٹ میں یہ کہا کہ ’اگر پرویز مشرف وطن واپس آنا چاہیں تو حکومت انھیں ہر ممکن سہولت فراہم کرے۔‘

جس کے بعد فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ فوج کی جانب سے جنرل مشرف کی واپسی کے بارے میں ان کے خاندان سے رابطہ کیا گیا ہے۔

جہاں پاکستان میں سوشل میڈیا پر پاکستان مسلم لیگ ن کے ان بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں اب یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر سابق صدر پاکستان واپس آتے ہیں تو انھیں کن قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شہری کو اپنے ملک واپس آنے سے تو نہیں روکا جا سکتا لیکن پرویز مشرف کو وطن واپس آنے کے بعد ان کے خلاف درج ہونے والے زیر التوا مقدمات میں عدالتی کارروائی اور ان کی عدم موجودگی میں دیے گئے عدالتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ سابق فوجی صدر اس وقت چار مختلف مقدمات میں اشتہاری ہیں، جن میں سے ایک آئین شکنی کا مقدمہ، دوسرا سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ، تیسرا تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلٰی عدلیہ کے ججز کو حبسِ بےجا میں رکھنے کا مقدمہ جبکہ چوتھا مقدمہ لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے قتل سے متعلق ہے۔

ان مقدمات میں عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے سے متعلق بھی احکامات جاری کر رکھے ہیں۔

مشرف

پرویز مشرف پر تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلٰی عدلیہ کے ججز کو حبسِ بےجا میں رکھنے کا مقدمہ بھی درج ہے

پرویز مشرف کو سزائے موت سُنائے جانے کے مقدمے کا کیا بنا؟

آئین شکنی کے مقدمے میں پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سُنایا تھا۔

اس خصوصی عدالت کے سربراہ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’مجرم پرویز مشرف جب بھی وطن واپس آئیں ان کو موت کی سزا دینے کے بعد تین روز تک ان کی لاش کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔‘

تاہم خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے تین ہفتے بعد ہی لاہور ہائی کورٹ نے ایک شہری کی درخواست پر 13 جنوری 2020 میں خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس کے بعد بعض قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ عدالت کی تشکیل غیر آئینی ہونے کے بعد اس عدالت کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے اس بنیاد پر خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل کا معاملہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر دیا گیا تھا۔

سابق فوجی صدر نے بھی خصوصی عدالت کی طرف سے ان کو سُنائی جانی والی سزا کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فروری 2020 میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے سپریم کورٹ کے وکیل توفیق آصف کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی بھی قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایک ایسے شخص کو جو آئین شکنی کا مرتکب ہوا ہو اور اس کے علاوہ اعلٰی عدلیہ کے ججز کو حبسِ بے جا میں رکھا ہو اس کو کیسے پروٹوکول دیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجرم کے خلاف عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی انھیں طبی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔‘

توفیق آصف کا کہنا تھا کہ ’سابق فوجی صدر نے خصوصی عدالت کی طرف سے ملنے والی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن عدالت عظمی نے درخواست یہ کہہ کر واپس کر دی تھی کہ جب تک پرویز مشرف خود کو قانون کے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک ان کی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جا سکتا۔‘

واضح رے کہ توفیق آصف نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور گذشتہ ڈھائی سال سے اس اپیل کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔

لال مسجد

پرویز مشرف پر لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے قتل کا مقدمہ بھی درج ہے

باقی تین مقدمات کے بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟

سابق فوجی صدر کے خلاف باقی تین مقدمات اسلام آباد اور راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں تاہم ان مقدمات پر عدالتی کارروائی شروع ہونا پرویز مشرف کی متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونے سے مشروط ہے۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی شخص چاہے اس پر کتنے ہی سنگین الزامات کیوں نہ ہوں لیکن اگر اس کی صحت ٹھیک نہیں ہے تو پھر اس کو طبی امداد دی جائے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’صحت کی بحالی کی صورت میں ہی ملزم کے خلاف عدالتی کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ملکی قانون میں بھی اس بات کی گنجائش ہے کہ کسی بھی ملزم کے بنیادی حقوق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’آئین شکنی کا مقدمہ سابق فوجی صدر کے خلاف غلط بنایا گیا ہے۔ اگر پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 میں ایمرجنسی کے بعد اعلٰی عدلیہ کے 30 ججز کو گھر بھیجا تو سپریم کورٹ نے اس اقدام کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے 80 سے زائد ججز کی نوکریاں ختم کیں۔‘

دوسری جانب ماہرِ قانون حامد خان کی رائے ہے کہ ’وطن واپس آنے کی صورت میں پرویز مشرف کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا چاہے وہ بسترِ مرگ پر ہی کیوں نہ ہوں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرنے کی صورت میں ملزم کو طبی بنیادوں پر علاج کی غرض سے جلد ضمانت مل جاتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پرویز مشرف کی موت کی افواہ کیسے پھیلی اور وہ کس بیماری میں مبتلا ہیں؟

وہ کون سی دوائی ہے جو پرویز مشرف کو پاکستان میں نہیں مل سکتی؟

’پرویز مشرف کو معاف کرنے کا حق شریف خاندان کے پاس نہیں‘

پرویز مشرف کون ہیں؟

حامد خان کا کہنا تھا کہ ’بااثر حلقوں کی طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہیں ان پر کوئی عدالتی کارروائی نہ ہو اور وہ پاکستان آ کر اپنی زندگی کے دن پورے کریں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دینے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست ڈھائی سال سے سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہے لیکن ابھی تک کسی بھی چیف جسٹس کو اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس درخواست پر فیصلہ ہو جانا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ درخواست اعلٰی عدلیہ کے چہرے پرایک بدنما داغ بن کر رہ جائے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments