کیا پاکستان کو بڑھتی آبادی پر پالیسی سازی کی ضرورت ہے


  

اقوام متحدہ کی شماریاتی مواد اکٹھا کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق پاکستان کی آبادی جون 2022، تک بائیس کروڑ بیانوے لاکھ ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس رفتار سے بڑھتی آبادی 2030 تک چھبیس کروڑ تک جا پہنچے گی۔ پاکستان ایشیائی ممالک تیزی سے ترقی کرتی معیشت کا حامل ملک ہے۔ تحفظ حیات کے حوالے سے بھی اسے دنیا کی نویں مضبوط ترین افواج کا حامل ملک مانا جاتا ہے۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے اس کی خوبصورتی اور اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔

مزید اعداد و شمار دیکھتے ہوئے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر پانچ سیکنڈ میں ایک پیدائش سے آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور ہر بیس سیکنڈ میں ایک موت واقع ہوتی ہے۔ یومیہ تقریباً سولہ ہزار چار سو سے زائد بچوں کی پیدائش ہوتی ہے اور تقریباً چار ہزار دو سو سے زائد افراد اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے کراچی پہلے نمبر پر اور لاہور دوسرے نمبر پر ہے جبکہ دیگر گنجان آباد شہروں میں فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، حیدر آباد، گوجرانوالہ، پشاور، رحیم یار خان، کوئٹہ شامل ہیں۔

مرد و خواتین کی اوسط عمر 23 سے 24 سال تک معلوم ہوتی ہے۔ اٹھارہ سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 13 کروڑ سے زائد ہے۔ مختلف مالیاتی اداروں کے مطابق اس کی مجموعی گھریلو پیداوار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس کی مجموعی گھریلو پیداوار دو سو ننانوے بلین جب کے اقوام متحدہ کے مالیاتی ادارے کے مطابق دو سو بلین سے زائد ہے۔

ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنے کے باوجود پاکستان میں عام آدمی تک صحت کی سہولیات نہ پہنچنے کی بڑی وجہ یہ ہے کے عوام کو بنیادی صحت اور حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں متواتر رہنمائی میسر نہیں۔ اگر خواندگی کی شرح کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بیشتر افراد کو سرکاری سہولیات سے مستفید ہونا نہیں آتا۔ بیماری لاحق ہونے کی صورت میں تشخیص سے علاج تک تاخیر سے کام لیا جاتا ہے جس میں کافی حد تک تو انتظامی مسائل اس کا سبب بنتے ہیں اور کہیں مریض کی اپنی لا پرواہی اس کے منفی جذبات کو مزید اشتعال بخشتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ہر چار میں سے ایک پاکستانی کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے۔ اس بارے میں معلومات عامہ پر مبنی پیغامات کا سلسلہ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کی جانب سے شروع کیا جانا چاہیے اور نجی چینلز کو بھی ایسے پیغامات اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی پر مبنی پروگرام اپنی نشریات کا حصہ بنانے چاہئیں۔ گیلپ کے سروے کے مطابق اخبارات میں شائع ہونے والے بیشتر کالمز سیاسی موضوعات کو فروغ دینے کے لیے شائع کیے جاتے ہیں۔

ان اقدامات کی وجہ آگاہی کے ذریعے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس کے لیے رہنمائی فراہم کی جائے۔ بنیادی حقائق بتائی جانے چاہئیں اور شعوری معیار بلند کرنے میں عوام کی مدد کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر ”اگر وسائل نہیں ہیں تو آپ کو اولاد کے حصول کے لیے بہت زیادہ محتاط ہو کر خاندانی منصوبہ بندی کرنی چاہیے“ محض فرسودہ روایات کو معاشرے کی بد نمائی کی تصویر پیش کرنے سے روکنے کے لیے اس بات کا یقین کرنا ہو گا کے اگر بغیر وسائل کے خاندان کے افراد میں اضافہ ہو گا تو ان کی تعلیم، صحت اور حتمی مقصد جو کہ اولاد کو معاشرے کا ایک اچھا اور باشعور شہری بنانا وہ قطعاً حاصل نہیں ہو سکے گا۔ مزید یہ کہ اس حوالے سے مذہب یا اللہ کا نام استعمال کر کے اپنی خود غرضی کو نظر انداز کرنے جیسی روایات کا تدارک صرف اسی طرح ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

بقول علامہ اقبال کے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

آئندہ چند سال تک تو بحیثیت قوم ہمیں شدید نظم و ضبط درکار ہے۔ ہمیں یوم آزادی کے موقع پر، عید یا مذہبی تہواروں پر، عید میلاد النبی کے موقع پر اور کسی بین الاقوامی مہمان کی آمد پر، ان تمام مواقع پر ہونے والی روایتی بد تہذیبوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ یہ ایک مجموعی کوشش کے نتیجے میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایسی تعلیمی و آگاہی سرگرمیوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔ آبادی میں افزائش اور حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں مکمل منصوبہ بندی اور ملک گیر آگاہی مراکز کے قیام کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments