بیلا کی گڑیا


وہ عام سی بچی تھی۔ سب چھوٹی بچیوں کی طرح وہ بھی گڑیا کی دیوانی تھی۔ جہاں گڑیا دیکھتی بھاگی بھاگی جاتی۔ اس کے کھلونوں میں ایک نیلے رنگ کا گھوڑا، بطخ، ہاتھی، چوزہ اور کچھ کلرنگ بکس تھیں۔ اس نے گڑیا کب، کہاں اور کس کی دیکھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ گھر میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا۔ جس کا کھلونا دیکھ کر وہ ضد کرتی۔ جب وہ بازار کپڑے جوتے لینے جاتے۔ تو وہاں دکانیں گڑیا سے بھری ہوتیں۔ وہ لپک لپک کر گڑیا کی طرف جاتی۔ تو ماں باپ اس کا رخ موڑ دیتے۔

بازار میں کھلونوں والی دکان کے شوکیس میں باہر کی طرف نت نئی گڑیا دیکھ کر وہ ماں کو متوجہ کرتی۔ ماں اس کی ہر فرمائش پوری کرتی۔ ہر طرح کے کھلونے لے دیتی سوائے ایک گڑیا کے۔ وہ اپنے کھلونے سے بھرے بیگ خوش نہ ہوتی اور منہ بنائے دکان سے باہر نکلتی۔ وہ روتی چلاتی، ضد کرتی۔ پھر بھی اسے گڑیا نہ ملتی۔

وہ تھوڑا بڑی ہوئی تو مشین کے بکسے میں سے کپڑوں کی کترنیں نکال کر ماں سے کہتی۔ میری گڑیا کے کپڑے بناؤ۔ ایک دو بار ماں نے آڑے ترچھے گڑیا کے کپڑے بنا دیے۔ وہ گڑیا کے کپڑے سنبھال کے اپنے کھلونوں والے بیگ میں رکھتی۔ اس امید پر ایک دن اس کی گڑیا آ جائے گی۔ اور یہ کپڑے پہنے گی۔

گڑیا کے انتظار میں وہ اسکول جانا شروع ہو گئی۔ جہاں اس کی کلاس کی لڑکیاں اپنی گڑیا اور لڑکے گاڑی کی باتیں کرتے۔ کبھی کبھار وہ شوخیاں مارنے کے لیے بیگ میں چھپا کر اپنے کھلونے لے آتے۔ اور بریک ٹائم میں دکھاتے۔ وہ اپنی سہیلیوں کی گڑیا پکڑ کر ان کے سنہری بال چھوتی۔ ان کے گال سہلاتی۔ اور لوری دے کر اپنی گڑیائی ممتا کی تسکین کرتی۔ یہ کچھ لمحے اس کے لیے بہت انمول ہوتے۔ اس کا دل چاہتا بریک ٹائم رک جائے۔ اور وہ گڑیا سے جی بھر کے کھیل سکے۔

وہ جس سہیلی کی گڑیا پکڑتی۔ اس کی جان پر بنی جاتی۔ وہ بار بار سناتی۔ اس کو دھیان سے پکڑو۔ بال خراب ہو جائیں گے۔ اس کی آنکھیں مت کھولو۔ یہ سوئی ہے۔ اٹھ گئی تو پھر تنگ کرے گی۔ ایک دن اس نے صوفیہ کی گڑیا کے کپڑے اتار دیے۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی۔ گڑیا اندر سے کیسی ہوتی ہے۔ ابھی وہ ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پائی تھی کہ صوفیہ اس کے بال کھینچنے لگی۔

”تم نے میری گڑیا توڑ دی، اس کو ٹھیک کر کے دو۔“
وہ سہم گئی۔ میں نے گڑیا توڑی نہیں، بس دیکھا ہے اندر سے کیسی ہوتی ہے۔
”تو اپنی گڑیا لے کر دیکھ لو۔“ صوفیہ پھر سے اس کی ڈھیلی ہوئی پونی کھینچ کر بولی۔
وہ گھر واپس آئی تو دروازے سے اونچی آواز میں روتی آئی۔ ماں اور دادی گھبرا کر باہر صحن میں نکلیں۔
”بیا کیا ہوا بیٹا؟ کس نے مارا ہے؟“
”مجھے گڑیا چاہیے“ وہ بیگ زمین پر پھینک کر ماں سے لپٹ گئی۔
”مما میں صوفی کی گڑیا دیکھ رہی تھی۔ اس نے مجھے مارا ہے۔“
ماں بیٹی کو چپ کرواتی ساس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
” یہ لڑکی بڑی ضد کی پکی ہے، توبہ توبہ“

دادی کانوں کو ہاتھ لگاتی اندر چلی گئی۔ شام کو باپ گھر آیا تو ماں نے بیٹی کی بار بار دہرائی خواہش پھر سے بتائی۔ باپ کا دل بیٹی کے لیے نرم تھا۔ اپنی ماں کی باتوں کو بھول کر قریبی دکان سے گڑیا لے آیا۔ بیلا باپ کے ہاتھ گڑیا دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بھاگ کر باپ کے گلے لگ گئی۔ وہ گڑیا کو اٹھائے اسے گھر دکھانے لگی۔ سارا گھر گھومتے پھرتے وہ دادی کے کمرے تک آ گئی۔

”دادی! یہ دیکھیں۔ میری گڑیا کتنی پیاری ہے۔“

وہ وہیں پلنگ پر بیٹھ کر گڑیا کی فراک ٹھیک کرنے لگی۔ اتنے میں دادی اٹھی اور اس سے گڑیا کھینچ کر توڑ مروڑ کر رکھ دی۔ وہ حیرت و صدمے سے گڑیا کو ٹکڑے ہوتی دیکھتی رہی۔ جس کے سر کے بال، گردن، بازو اور ٹانگیں سب الگ الگ ہو گئی تھیں۔ اب انہیں جمع کر کے دادی باہر لے جا رہی تھی۔ وہ زور سے چیخی اور بھاگ کر ماں کے پاس کچن میں چلی آئی۔

”مما میری گڑیا دادی نے توڑ دی“ ۔ وہ ٹکڑے ہوئے گڑیا ماں کو دکھانے لگی۔
ماں دکھ و تاسف سے بیلا کی ٹوٹی ہوئی گڑیا کے ٹکڑے پکڑ کر جوڑنے لگی۔
—————————

دادی کو عمرے پر گئے دس دن ہو گئے تھے۔ بیلا نے وہی ٹوٹی ہوئی گڑیا کو جوڑ کر اپنے کھیلنے کا آسرا بنایا۔ اب وہ سارا دن بغیر کسی ڈر اور روک ٹوک کے گڑیا اٹھائے پھرتی۔ اسے اپنے دوسرے کھلونوں کی یاد نہ آتی۔ وہ بیلا کو ٹوٹی گڑیا کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر مسکراتے۔ جیسے کہہ رہے ہوں۔ تم لوٹ کے تو ہمارے پاس ہی آؤ گی۔ دن کافی تیزی سے گزر رہے تھے۔ دونوں ماں بیٹی بازار گئیں۔ بازار میں بیلا کو گڑیا دکھائی دی تو اس کا فرمائشی پروگرام پھر سے شروع ہو گیا۔

”مما مجھے گڑیا لے کر دو“ ۔ ماں اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر بمشکل میٹرو بس اسٹیشن تک پہنچی۔ تو وہ وہیں ہاتھ میں پکڑا آئس کریم کا کپ گرا کر ٹانگیں چلا چلا کر رونے لگی۔

ماں بھری سڑک میں بہت شرمندہ ہوئی۔ اس کا دل چاہا یہیں اس کی طبیعت درست کر دے۔ آس پاس گزرتے کافی لوگ متوجہ ہوئے۔ اور رونے کی وجہ جان کر ہنستے آگے بڑھ گئے۔ اس کی ضد میں بس بھی نکل گئی۔ پھر ماں وہاں سے بہلا پھسلا کر رکشے تک لائی۔

”میں تمہارے ساتھ اب بازار نہیں آؤں گی۔“
”بیلا! تمیز سے بات کرو، ایک لگاؤں گی۔“
ماں آنکھیں نکال کر تھپڑ دکھانے لگی تو وہ سر جھکا کر رونے لگی۔
”تمہارے پاس اتنے کھلونے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیلا کرو۔ گڑیا میں کیا رکھا ہے؟“
”مجھے گڑیا اچھی لگتی ہے“ ۔ بیلا زور سے چیخی۔

”پھر وہی بدتمیزی، آہستہ آواز میں بات کرو، اور آئندہ تم نے بیچ سڑک یہ تماشا لگایا تو بہت مار پڑے گی۔ تمہارے باپ کو پتا چلا تو وہ تمہارا ٹھیک علاج کرے گا۔

رکشے کی پھٹ پھٹ میں دونوں ماں بیٹی چلا چلا کر بول رہی تھیں۔
”آئی ہیٹ یو مما“ ۔

یہ تین لفظ سنتے ہی ماں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بیلا مت تنگ کیا کرو، آخر تم سمجھتی کیوں نہیں۔ کب بڑی ہو گی۔ وہ بیٹی کو سینے سے لگا کر سمجھانے لگی۔

”مما میں ابھی چھوٹی ہوں، میری سب فرینڈز کے پاس اتنی بیوٹی فل ڈولز ہیں۔ ان کی جیولری، ڈریسز اور پھر ڈول ہاؤس بھی ہیں۔ وہ سب باتیں کرتی ہیں۔ میں چپ رہتی ہوں۔ میں بہت غریب لگتی ہوں۔ وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔

”اچھا میری جان؟ رو نہیں۔ اس دفعہ شاید تمہاری دادی گڑیا لے آئے۔“
”سچ مما“ وہ چہکی۔

”“ ہاں وہ جو ہمارے گھر کے پاس نسیم باجی رہتی ہیں۔ انہوں نے تمہاری دادی سے اپنی بیٹی کے لیے گڑیا منگوائی ہے۔ تمہاری بھی ضرور ساتھ لائیں گی۔ ”

وہ اتنی سی تسلی پر شانت ہو گئی۔ پہلے جو دن تیزی سے گزر رہے تھے اب گزرنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس نے بہت مشکل سے دن گزارے۔ بار بار ماں باپ سے پوچھتی۔

”دادی کب آئے گی؟“

وہ سمجھتے بیلا دادی سے اداس ہوئی ہے۔ اس لیے بے چینی سے دادی کے آنے کا انتظار کر رہی ہے۔ آخر خدا خدا کر کے دادی گھر آ گئی۔ وہ دادی سے چمٹ کر بیٹھ گئی۔ رات کو ماں مشکل سے اٹھا کے لائی۔ ماں اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ یہ لاڈ پیار سب گڑیا کے لیے ہو رہا ہے۔ صبح جب وہ اٹھی تو دادی سامان کھولے بیٹھی تھی۔ دادی کے عمرے کی واپسی کی خوشی میں وہ اسکول بھی نہیں گئی تھی۔ بیگ سے ایک کے بعد ایک چیز نکل رہی تھی۔ دادی نے بیلا کو ایک چھوٹا سا بیگ اور گھڑی دی۔ تو وہ پاؤں اچک اچک کر میز پر پڑے بیگ میں جھانکنے لگی۔ بیگ سے سب چیزیں نکل گئی تھیں۔ اب وہ بالکل خالی پڑا تھا۔ وہ اپنی چیزیں وہیں چھوڑ کر خاموشی سے اٹھ کر کمرے میں آ گئی۔

کچھ دیر بعد نسیم باجی دادی کو عمرے کی مبارک باد دینے آئی۔ تو دادی نے انہیں ایک بڑا سا شاپر دیا۔ وہ شاپر کھول کر چیزیں دیکھنے لگیں۔ جن میں ایک بڑا سا گڑیا کا ڈبہ تھا۔ وہ پیچھے کھڑی گڑیا کو دیکھ رہی تھی۔ جس کے اتنے لمبے سنہری بال تھے جو اس کی دوستوں میں سے کسی کی گڑیا کے نہیں تھے۔ اور اس کی سبز رنگ کی آنکھیں جو کوئی بٹن دبانے سے روشن ہوتی تھیں۔ اس کی ماں نے بلایا۔ بیلا ادھر آؤ۔ وہ ڈر رہی تھی کہیں وہ پھر سے گڑیا دیکھ کر چیخنے چلانے نہ لگے۔ لیکن آج وہ نہ روئی نہ اس کو دکھ ہوا۔ چپکے سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ماں سے بیٹی کی تکلیف دیکھی نہ گئی۔ ہمت کر کے دادی سے بیلا کی گڑیا نہ لانے کا شکوہ کیا۔ تو وہ اس کے بڑھے ہوئے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے بولی۔

”تم ماں بیٹی نے اچھی گڑیا گڑیا کی رٹ لگا رکھی ہے خدا نہ کرے میرے بیٹے کا آنگن گڑیوں کی نحوست سے بھرے۔ اندر کمرے میں بیلا اپنی ٹوٹی ہوئی گڑیا کو پھر سے جوڑنے لگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments