پاکستان کی کہانی قرضوں کی زبانی



انگریزی کی کتاب ”اکنامک ہٹ مین“ دنیا کی شہرت یافتہ کتب میں شامل ہو چکی ہے۔ اس کتاب کا مصنف جان پرکنز آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا سابق ملازم اور سی آئی اے سے منسلک تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کا انکشاف کیا ہے کہ کس طرح دنیا کے مختلف ملکوں کو قرضوں کے شکنجے میں پھنسایا جاتا ہے اور اس کے بعد مقروض ملک سامراج اور عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم کا اسیر ہو جاتا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہی نہیں رہتا۔

بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو قرضوں کی زنجیر میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ان کی قرضوں سے رہائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی کہانی قرضوں کی زبانی انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہے۔ 1947 ء سے 2008 ء تک پاکستان چھ ہزار ارب روپے کا بیرونی قرضوں کا مقروض تھا۔ 2008 ء سے 2022 ء تک جمہوری حکومتیں تسلسل کے ساتھ چل رہی ہیں۔ جمہوری حکمران عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام کے مفادات کا تحفظ اور دفاع کریں گے۔

جمہوری حکومتوں کے 14 سال بیرونی قرضوں کے حوالے سے ہوشربا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2008 ء میں پاکستان کا ہر شخص پانچ سو روپے کا مقروض تھا اور آج 2022 ء میں ہر شخص دو لاکھ ستائیس ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ 2008 ء میں بیرونی قرضوں کا حجم 36 ہزار ارب روپے تھا جو 2013 ء میں 88 ہزار ارب روپے ہو گیا۔ 2018 ء تک بیرونی قرضے ایک لاکھ چوالیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے۔ 2021 ء تک بیرونی قرضے تشویشناک حد تک پہنچ چکے ہیں اور دو لاکھ ستائیس ہزار ارب تک بڑھ چکے ہیں۔

پی پی پی کے دور میں 161 بلین ماہانہ مسلم لیگ نون کے دور میں 235 بلین ماہانہ اور پی ٹی آئی کے دور میں 540 بلین ماہانہ کے حساب سے قرضے لیے گئے۔ اگر ہم 2008 ء سے 2021 ء تک کا ہر سال لیے گئے قرضوں کا ریکارڈ دیکھیں تو دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ 2008 ء میں 45 بلین ڈالر 2009 ء میں 56 بلین ڈالر 2010 ء میں 62 بلین ڈالر 2011 ء میں 64 بلین ڈالر 2012 ء میں 62 بلین ڈالر 2013 میں 56 بلین ڈالر 2014 ء میں 62 بلین ڈالر 2015 ء میں 66 بلین ڈالر 2016 ء میں 73 بلین ڈالر 2017 ء میں 86 بلین ڈالر 2018 ء میں 90 بلین ڈالر 2019 ء میں 95 بلین ڈالر 2020 ء میں 113 بلین ڈالر کے قرضے لیے گئے۔

حیران کن طور پر پی پی پی کے دو سالوں 2012 ء اور 2013 ء میں قرضوں کی شرح میں کمی آئی۔ 2022 ء میں پاکستان کے کل قرضے 127 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور مقتدر اشرافیہ اقتدار اور عیش و عشرت کے نشے میں مست ہے اسے کوئی فکر نہیں کہ پاکستان کے قرضے کون اتارے گا۔ پاکستان کے محب الوطن حلقے جب تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں تو مقتدر اشرافیہ کہتی ہے پاکستان کے قرضے مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے 87 فیصد تک پہنچ چکے جب کہ بنگلہ دیش میں قرضوں کی شرح 30 فیصد چین میں 54 فیصد اور روس میں 19 فیصد ہے۔ قرضے لینے میں کوئی برائی نہیں ہے اگر قرضوں کی سرمایہ کاری ان ترقیاتی منصوبوں میں کی جائے جو منافع بخش ہوں اور قرضوں پر سود اور اصل رقم واپس کرنے کے قابل ہوں۔ پاکستان میں قرضے عام طور پر ایسے منصوبوں پر خرچ کیے گئے جو قرض واپس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔

آج پاکستان قرضوں کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے اور صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قرضوں پر سود کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اگر کسی ملک کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینے پڑیں تو اس ملک کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے۔ قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری سے ہی محروم ہو چکا ہے اور انگریزوں کا بنایا ہوا نوآبادیاتی نظام بھی بدلنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔

ایف اے ٹی ایف کی تلوار پاکستان پر مسلسل لٹک رہی ہے۔ اگر پاکستان کے قرضے اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو پاکستان کو خدانخواستہ ایٹمی اثاثوں سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے۔ ایک جانب قرضے بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ قرضے لے کر وی آئی پی کلچر کو جاری رکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ایک آرڈر پاس کرایا ہے کہ ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہی پروٹوکول دیا جائے جو ان کو حاضر سروس کے دوران دیا جاتا رہا۔

غیر معمولی قرضوں کا تقاضا یہ کہ حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی کی جائے۔ قرضوں کی منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے۔ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا جائے جو مکمل اور شفاف تحقیقات کرے کہ قرضے کیوں لیے گئے اور ان کو کہاں خرچ کیا گیا اور پاکستان قرضوں کی معیشت سے کیسے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ جب تک پاکستان قرضوں کی دلدل سے باہر نہیں نکلے گا کسی صورت معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکے گا۔ پاکستان میں قرضوں کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے حکمران اشرافیہ ٹیکس بھی نہیں دیتی اور غریبوں کے ٹیکس اور قرضوں پر عیش و عشرت کرتی ہے۔

پاکستان میں اگر آئین اور قانون کی حکمرانی نافذ کر دی جائے تو پاکستان کے تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ عوام کو گڈ گورننس حاصل ہو سکتی ہے اور قانون کے خوف سے امیر طبقات ٹیکس دینے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی المناک کہانی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک جانب قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ وی آئی پی کلچر آج تک ختم نہیں ہو سکا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments