کراچی سے کاورے تک: جہاز ہے تیرے لیے


بچپن میں سر سے گزرتے، آسمان پر اڑتے جہازوں کو شوق سے دیکھنے کا لطف کس کس نے نہیں اٹھایا ہو گا۔ ہم کمرے میں ہوں، برآمدے میں ہوں یا کہیں کھانا کھا رہے ہوں، جہاز کی آواز کانوں پر پڑتے ہی لپک اٹھتے، ننگے پیر دوڑتے، گردن کو جہاز کی گونج کی سمت گھماتے رہتے، اور نظروں کو سب سے پہلے جہاز دیکھنے کے مقابلے میں دوڑاتے رہتے۔ یہ سب لطافتیں بچپن کے اتوار کی طرح آج مجھے بھی یاد آ رہی ہیں۔ مگر آج نہ وہ بچپنا ہے نہ وہ اتوار۔

آج منگل ہے اور منگل میں جنگل نہیں، جہاز ہے جہاز۔ وہ بھی قطر ائرویز کا۔ پی آئی اے ہوتا تو جنگل کا منگل ہو سکتا تھا۔ البتہ ملیر جیسے پراسرار علاقے میں رات کے ایک بجے بذریعہ کریم گاڑی ائرپورٹ تک آتے ہوئے مجھے جنگل کا ہی گمان ہوا۔ ائرپورٹ محض بیس منٹ کے فاصلے پر تھا۔ ڈرائیور سے گپیں ہانکتے یہ ذرا سا فاصلہ منٹوں ہی میں طے ہوا۔ مجھے وی لاگ بنانے کی لت ایسی لگی ہوئی تھی کہ یہ ہوش ہی نہیں رہا کہ سیکورٹی والے روک بھی سکتے ہیں۔

پوچھنے پر میں نے بھی بتا دیا کہ میں صحافی ہوں۔ بس پھر جناب نے خطرناک آدمی کہہ کر اس شرط پہ جانے دیا کہ آنکھیں کھلی رکھیں اور کیمرہ بند رکھیں تو سفر میں آسانی ہوگی۔ میں نے اس مفید مشورے پہ جناب کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی ائرپورٹ کے روانگی دروازے سے اندر داخل ہوئی۔ تقریباً 1 بج کر 35 منٹ پر ائرپورٹ میں داخلہ ہو گیا۔ حسب معمول مسافروں اور مسافروں کے پیاروں کا ہجوم تھا۔ کچھ اپنے پیاروں کے اندر داخل ہوتے اور بائے بائے کرتے ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے اور کچھ واپس آتے اپنے عزیزوں اور پیاروں سے لپٹ کر گلے مل رہے تھے۔

کچھ فلائیٹ کا وقت پوچھنے میں ادھر ادھر چکر لگا رہے تھے اور کچھ میری طرح انتظار کی اذیت میں مبتلا تھے۔ بالآخر میرا انتظار تو ٹوٹا، کوئٹہ سے برآمد ہونے والی ثناء اپنے دوست کے ہمراہ آن پہنچی اور ہم بھی بین الاقوامی دروازے کے اندر داخل ہوئے۔ ثناء پی ٹی وی کؤٹہ میں بطور رپورٹر وابستہ ہیں اور اس فلائیٹ پہ ہم دو ہی تھے جو کھٹمنڈو ٹریننگ کے لیے جا رہے تھے۔

مجھے ذرا سی پریشانی ضرور تھی کیوں کہ یہ میری زندگی کی پہلی اور وہ بھی بین الاقوامی فلائیٹ تھی۔ ہر نئی جگہ ہر نئے شخص کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ مگر کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے کہ وہ اسی حیرت انگیزی سے لطف لے اور لمحوں کو جیتے جی جی لے۔ ہم بورڈنگ ہال پہنچے۔ پاسپورٹ اور کووڈ سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے لیے ادھر ادھر گھومتے رہے۔ بالآخر یہ مرحلہ طے ہوا تو ہمیں ٹکٹ موصول ہو گئے۔ ہم دونوں نے اپنے سوٹ کیس ائرپورٹ والوں کو کھٹمنڈو تک بخشش میں دے دیے۔

ثنا نے ایک پیارا سا بیگ اپنے ساتھ رکھا جس سے وہ کافی زیادہ بیزار ہو چکی تھی۔ وہ اسے پیار سے اٹھا اٹھا کر گھومتی اور وہ بچے کی طرح ضد کر کر کے اسے تھکا دیتا۔ مگر مجھے اس بیگ پہ پیار آ رہا تھا اس کی ایک وجہ ہے جس کا انکشاف دوحہ میں ہو گا۔ بہر حال ایک اور لمبے انتظار کے بعد قریباً ساڑھے چار بجے ہم نے اپنے باہمت قدم قطر ائر ویز پر جما کے رکھے اور کھڑکی سے متصل تین نشستوں پہ ہم دونوں نے اپنی جاگیر سمجھ کر قبضہ کیا۔

مگر یہ قبضہ خواب خرگوش ثابت ہوا اور حسن نامی ایک بھائی نے آ کر ہم دونوں کی پسندیدہ ونڈو سیٹ پر قبضہ کیا اور ہم دونوں اپنا سا منہ دیکھتے رہ گئے۔ لیکن پھر بھی ہم نے ہار نہیں مانی۔ موبائل سے جی بھر کے ہم نے ونڈو سیٹ سے باہر کی تصویریں کھینچی۔ جہاز ٹیک آف ہوتے وقت میں نے کچھ سیکنڈ کے لیے آنکھیں بند کیں۔ ثناء نے مسکراتے ہوئے کہا بہادر آدمی، آنکھیں بند نہیں کرو، دعائے سفر پڑھو۔ میں زیر لب مسکرایا۔ سے کیا معلوم کہ میں خوف کی کیفیت میں نہیں شکر کی کیفیت میں ہوں اور واقعی میں دعائے شکر پڑھ رہا تھا۔

کیوں کہ یہ میری تمنا تھی کہ جب بھی زندگی کی پہلی فلائیٹ ہو تو وہ بین الاقوامی ہو اور وہ کسی غیر ملکی ائرپورٹ پہ لینڈ کرے۔ تو بس ٹھیک 5 بجے کراچی انٹرنیشنل ائرپورٹ سے دوحہ کے لیے قطر ائرلائن 644 اڑان بھر چکا تھا۔ ہم زمین زاد کراچی کو کھڑکی سے چمکتے قمقموں کی مانند زمین پر چھوڑ کر فلک زاد ہو چکے تھے۔ کانوں کی سماعت میں کمی آ چکی تھی۔ ٓواز میں تبدیلی محسوس ہونے لگی۔ میری دائیں جانب کراچی سے حسن نامی ایک نوجوان تھا جو کہ اعلی ٰ تعلیم کے سلسلے میں برلن جرمنی جا رہا تھا۔

بائیں جانب ثنا بیٹھی ہوئی تھی جو کہ سوتی جاگتی گفتگو کرتی اپنی نیند کو بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس ہستی سے بھی میری پہلی ملاقات تھی، لیکن لگ نہیں رہا تھا کہ ہم پہلی مرتبہ مل رہے ہیں۔ ابتدا میں ہی ہم نے چیزوں پہ بحث کرنا شروع کر دی تھی اور ان بحثوں کے کافی اچھے نتائج نکلے۔ لیکن نیند ہی وہ واحد رکاوٹ تھی جو ہماری باتوں اور بحثوں کو توڑتی۔ اور ہم، خاص طور پر میں پھر چپ ہوجاتا۔ لیکن میں خاموشی میں بھی اپنے فضائی سفر سے خوب لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس پہلی فضائی سفر میں مجھے کسی بھی قسم کی پریشانی یا کسی انہونی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ زمین سے فضا تک جاتے جاتے میں کافی پرسکون تھا اور مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاز ہے تیرے لیے تو نہیں جہاز کے لیے

جہاز میں سناٹا چھا چکا تھا۔ کراچی سے دوحہ تک کا یہ سفر دو گھنٹے کا تھا۔ حسن سو چکا تھا۔ جہاز کی کھڑکی سے گہری تاریک سطح کی ایک سیدھی لکیر کے اوپر ہلکا سا آسمان جس پر ہلکی پھلکی سورج کی سرخی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اللہ بھلا کرے قطر ائرویز والوں کا، زندگی کا یہ پہلا ناشتہ تھا جو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے میں تناول فرما رہا تھا۔ ناشتے میں ایک بن، آملیٹ، دہی اور فروٹ تھا۔ بقول ثنا کے میزبانی میں، چیزیں منظم رکھنے میں اور وقت کی پابندی میں قطر ائرویز کا کوئی ثانی نہیں۔

ناشتہ ختم کرنے کے بعد سب پہ غنود گی سی طاری ہونے لگی۔ میرے اڑوس پڑوس کے سارے مسافر سو چکے تھے اور میں اکیلا ہی مسٹر بین بنا بیٹھا سب کو آبزرو کر رہا تھا۔ سب کو سوتا پا کر میں نے نظریں کھڑکی پہ جمائیں اور فضائی نظاروں کو محسوس کر رہا تھا۔ اتنے میں نیند نے مجھے بھی گرفت میں لینے کا سوچا۔ سو میں نے بھی اخلاقاً عار نہیں کیا۔ بس پھر ہم بھی سو گئے نظارے دیکھتے دیکھتے۔ ٹھیک پونے گھنٹے کے بعد اناونسر کی آواز پہ آنکھ کھلی۔

چھ بج چکے تھے۔ جہاز دوحہ کے حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ کھڑکی سے زمین کی طرف دیکھا تو سمندر کے درمیانے حصے یا کنارے پر جزیرہ نما ٹکڑے نظر آرہے تھے۔ شاید ہم کسی سمندر یا جزیرے کے اوپر سے گزر رہے تھے۔ عملے کے ساتھ ساتھ مسافروں کی افراتفری شروع ہو چکی تھی۔ ہم بس ادھر ادھر کی افراتفری سے حظ اٹھانے لگے۔ شکر خدا کا کہ ہم پہلی منزل یعنی الحماد انٹرنیشنل ائرپورٹ دوحہ پہ بخیریت لینڈ کر چکے تھے۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments