بوسنیا کی چشم دید کہانی – تیسری قسط۔


تاریخ میں سرائیوو کا پہلا ذکر پندرہویں صدی کے دور میں ملتا ہے۔ اس مقام پرایک قلعہ ”ورہ بوسنا“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1429 ء میں عثمانیوں نے اس قلعہ کو فتح کیا اور یہاں ”بوسنا سرائے“ نامی قصبے کی بنیاد ڈالی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام بدلتے ہوئے ”سرائے اواس“ ہوا اور پھر سرائیوو۔ 1507 ء میں اسے سانجک ( ضلع) کا درجہ دیا گیا۔ ولایت خدیجے اس کے پہلے گورنر مقرر ہوئے۔ دھیرے دھیرے یہاں کے طرز حیات میں بڑی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں جن میں ایک مذہب کی تبدیلی تھی۔

زیادہ تر سلاؤ آبادی مسلمان ہونا شروع ہوئی۔ یہ لوگ بوسنئیک کہلائے اور آج بھی اسی نام سے معروف ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہ قصبہ پھیلا۔ اس کا بیرونی دنیا سے روابط کا آغاز ہوا۔ طرح طرح کے ہنر مندوں نے اس شہر کا رخ کر کے دریائے ملیکا سے ذرا ہٹ کے آباد ہونا شروع کیا۔ یوں باش چارشیہ ( مرکزی بازار) وجود میں آیا۔ سولہویں صدی میں یہاں تاجروں کی آمد و رفت عام ہوئی۔ اس وقت تک یہاں پچاس سرائے قائم ہو چکی تھیں جو ”ہان“ کہلاتی تھیں۔

ان میں سے ایک موریکا ہان آج بھی موجود ہے۔ وینس، ویانا اور وسطی یورپ سے آنے والے تاجروں کا ٹھکانہ یہی سرائے ہوا کرتی تھی۔ شہر میں تجارتی سرگرمیاں بڑھنے سے بازار پھیلے اور استنبول کی طرز کے چھتے ہوئے بازار بھی تعمیر ہونے لگے۔ یہ عرف عام میں ”بیزستان“ کہلاتے تھے۔ ان میں سے دو بازار اب بھی باش چارشیہ میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک غازی حصر بیگ بیزستان اور دوسرا بروسہ بیزستان ہے۔

اب شہر میں تیزی سے وسعت آئی۔ نئی نئی عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں جن میں نمایاں تعداد مساجد، مدرسوں اور تکیوں ( خانقاہوں ) کی تھی۔ اس دور کی لاثانی عمارت جامعہ غازی حصر بیگ ہے جو 1551 میں تعمیر ہوئی۔ عثمانیوں نے آئندہ تین سو سال تک بوسنیا میں راج کیا لیکن اس مسجد سے بڑھ کر کوئی مسجد تعمیر نہ کر پائے۔

ع۔ معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود

سرائیوو 1551 میں بوسنیا کا دارالحکومت بنا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عثمانیوں کے اقتدار کے باب میں طاؤس و رباب کے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس کے 28 برس بعد بوسنیا ان کی سلطنت کا حصہ نہ رہا۔ آنے والے زمانے میں بیسویں صدی میں یہ شہر دو مرتبہ اجڑا۔ پہلی مرتبہ 1914 میں جب آسٹرین شہزادے فرانسس فرڈی ننڈ کا اس شہر میں قتل پہلی جنگ عظیم کا نکتہ آغاز ثابت ہوا اور دوسری مرتبہ 1992 میں جب سربوں نے اس شہر کا محاصرہ کیا اور ثنا خوان انسانی حقوق کی ناک کے نیچے بر بریت کا بازار گرم رہا۔

انشاء جی یاد آ گئے۔
یہ نگر پہلے کبھی اس قدر ویراں نہ تھا
کہنے والے کہتے ہیں قریہ نگاراں تھا۔

بوسنیا ہرزیگووینیا کے طول و عرض میں قائم بین الاقوامی پولیس، IPTF کے پچاس سٹیشنوں میں سٹولک کی حیثیت ایک نومولود کی سی تھی۔ اس کے قیام کو دو ماہ سے بھی کم عرصہ گزرا تھا۔ میرا اور اقبال کا انتخاب اس سٹیشن کے لیے کیا گیا۔ یہ ضلع ترے بینیا کا حصہ تھا جس میں دوسرے دو سٹیشن ترے بینیا اور نوے سینیا تھے۔

13 جون کی صبح کو ہم اپنے سامان کے ہمراہ ایک بار پھر سرائیوو ریجنل ہیڈ کوارٹر کے استقبالیہ میں موجود تھے کہ دو باوردی پولیس افسران ہمارے پاس آئے۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ ان میں سے ایک کا نام بولک اور دوسرے کا کرس تھا اور دونوں کا تعلق پو لینڈ سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سٹولک اور تریبینیا جانے والے افسران کو لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم نئی منزل کو روانہ ہو گئے۔

میں اور اقبال بولک کی گاڑی میں سوار تھے۔ دوران سفر تفصیلی تعارف ہوا تو بولک نے بتایا کہ وہ کرنل کے عہدے کا پولیس افسر ہے جبکہ اس کا ساتھی کرس لفٹین۔ لیکن یو این والے بھی چونکہ دیوانگان عشق کی طرح الٹی چال چلنے کی روش رکھتے ہیں لہٰذا یہاں عہدے کی بجائے مشن کا سابقہ تجربہ معیار گردانا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کرس سٹیشن کمانڈر ہے اور میں اس کا ماتحت۔ اقبال نے اس موقع پر اپنے سی ایس ایس کے ناکام امتحانوں کی تیاری کے سلسلے میں پڑھے گئے بین الاقوامی تعلقات کے مضمون کے حوالہ جات کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بولک کے ساتھ کی گئی زیادتی یو این کا پرانا شعار ہے اور اس رویے میں اس کا اگر کوئی ثانی ہے تو صرف اور صرف میر کی محبوبہ۔ یہاں وہ حوالے کے طور پر روانی میں میر کا شعر بھی پڑھ گیا۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کہ کرامات کرو ہو۔

لیکن اگلے ہی لمحے جب بولک کو سمجھانے کے لیے اسے اس شعر کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کشٹ اٹھانا پڑا تو اس نے اپنے آپ کو،

ع۔ بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی،

کی منزل پہ پایا۔ تاریخ اور ادب کا آہنگ لیے اقبال نے یہ تقریر یو این کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے پاکستان پولیس کی علمیت کا سکہ جمانے کے لیے جھاڑی تھی، ماسوائے محبوبہ میر کے اس کے باقی مندرجات بولک کی دلچسپی کا باعث نہ بن سکے۔ لہٰذا وہ بولا، اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک عرض کروں۔ میرے خیال کے مطابق تو اگر مشرق کی شاعری کو تعزیرات کے معیار پر پرکھا جائے تو شاید ہی کوئی شاعر دست اندازی پولیس سے محفوظ رہ سکے۔

بولک نے تھوڑے وقفے کے بعد غیب سے آمدہ مضمون کا بیان جاری رکھا۔ اب اسی شعر کی مثال لے لیجیے۔ یہاں اگر کوئی جرم ثابت نہ بھی کیا جا سکے تو بھی میر جی موقع کے گواہ تو ہیں ہی، کیوں؟ اقبال کا بشکریہ سی ایس ایس علم بولک کی نکتہ آفرینی کے مقابلے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے متقاضی تھا کہ بولک سے اتفاق کر لیا جائے۔ اس موقع پر اگرچہ پاکستان پولیس کے تاثر کو بہتر بنانے کی روش نے مجھے بھی ایک بیان کے لیے آمادہ کر رکھا تھا لیکن بولک اب ایک اور تقریر سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔

بولک اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے بولا۔ کرس چونکہ میرا ہم وطن اور دوست ہے لہٰذا اس کی سٹیشن کمانڈر کی حیثیت میرے لیے باعث فخر ہے۔ ویسے بھی یو این کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس کے نظام کو للکارنا اچھی بات نہیں ہے۔ آپ چونکہ نئے ہیں لہٰذا میں نہیں چاہوں گا کہ اس ادارے کے بارے میں آپ کا تاثر شک آمیز ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments