جب باپ بیٹی کا رشتہ مردہ ہو جائے


منٹو کا اللہ دتا اور زینب زندہ ہیں!
” کیا لکھتی ہیں آپ؟ کن گھروں کے قصے سناتی ہیں؟ کیا ابا ابا کرتی رہتی ہیں؟

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کی یہ کہانیاں ہم جیسوں کے زخموں سے کھرانڈ اتار دیتی ہیں۔ جن ٹیسوں کو مشکل سے بھلایا ہے، وہ نئے سرے سے زندہ ہو کر جینا مشکل کر دیتی ہیں ”

فادرز ڈے گزر گیا۔

اپنے اپنے ابا کی سب نے تصویریں لگائیں، نظمیں لکھیں، یادیں تازہ کیں، آنسو بہائے۔ جو حیات ہیں ان کی طویل عمر کے لیے دعا کی، جو گزر گئے ان کے لیے جنت میں اعلی مقام کی تمنا کی۔

یہ تمہید ایک گہری افسردگی کے عالم میں باندھی جا رہی ہے کہ ایک بچی نے ہم سے کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ایسے زخم پر لپٹی پٹی اتاری ہے جس سے اس قدر سڑاند اٹھتی ہے کہ سانس لینا مشکل ہے۔

”کہاں ہوتے ہیں ایسے باپ؟ کن بیٹیوں کو ملتے ہیں ایسے باپ؟ جھوٹ بولتے ہیں آپ سب، افسانے گھڑتے ہیں۔ کہیں نہیں ہوتے ایسے باپ۔

ہم نے تو وہ باپ دیکھا ہے جو اپنے ہونے کا خراج لینا چاہتا ہے۔ جس کے نزدیک اس کی اولاد اس کی غلطیوں کا ثمر ہے۔ اور اب اولاد کا بوجھ اسے سانس نہیں لینے دیتا۔ وہ ہمیں جیتی جاگتی مخلوق نہیں، کٹھ پتلیاں سمجھتا ہے۔

وہ اشارہ کرے، ہم کھڑے ہو جائیں، انگلی ہلائے بیٹھ جائیں، چیخے چلائے، چپ کر کے سنیں۔ اپنا غصہ ہم پر انڈیلے؟ اپنی ناکامیوں اور مایوسیوں کا بدلہ ہمیں مار پیٹ کر لے تو ہم اف تک نہ کریں۔ ہمیں گالیاں نکالے تو ہم صبر سے سنتے رہیں، ہمیں برا بھلا کہے تو منہ پھیر لیں، ہماری ماں پہ تشدد کرے تو بیچ میں نہ آئیں، ہماری زندگی کا فیصلہ کرے تو سر جھکا کر مانیں۔

کیوں؟

کیوں کہ وہ کما کر لاتا ہے، محنت مشقت کر کے ہمارے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، سارا دن باہر ہلکان ہوتا ہے تو ہمیں گھر کی چھت ملتی ہے۔ اسے یاد نہیں رہتا کہ اس دنیا کے جہنم میں ہمیں لانے والا وہی ہے۔ کیا کریں پھر؟ روٹی اور چھت کہاں سے لیں؟

بس، پیٹ میں روٹی اور سر پہ چھت کے بدلے کٹھ پتلی سی زندگی!
زندگی بھی وہ جس پہ جیل کا شائبہ ہوتا ہے ایک جیلر کے سائے تلے۔

لیکن اگر کسی دن جیلر کو کچھ اور چاہیے ہو اپنی بیٹی سے تو کیا کرے وہ بیٹی؟ نوعمری کی دہلیز پر کھڑی ہوئی، خوف اور بے بسی کے سائے میں گھری وہ بیٹی کس کو بتائے کہ باپ نامی شخص جب نشے کے زیر اثر اپنی پہچان بھولتا ہے تو بیٹی کا رشتہ بھی بھول جاتا ہے۔

سناؤں آپ کو اس رات کا قصہ جب بارہ تیرہ برس کی عمر میں اپنے باپ سے میں ایسے ہی لپٹ کر لیٹی جیسے بیٹیاں باپ سے لپٹتی ہیں۔ لیکن آدھی رات کو باپ یہ بھول گیا کہ ساتھ لیٹی ہوئی بچی کا وہ باپ ہے۔ وہ بھول گیا تھا لیکن میں تو جانتی تھی کہ وہ میرا باپ ہے اور وہ جو کچھ بھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ غلط ہے۔ میں بری طرح رو رہی تھی اور وہ مجھے چھوڑ نہیں رہا تھا۔ آخر جب میری چیخیں بلند ہونے لگیں تو اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور میں وہاں سے بھاگ کر غسل خانے میں بند ہو گئی۔ وہاں بیٹھی خوف کے عالم میں لرزتی رہی اور دعا کرتی رہی کہ جب باہر نکلوں تو وہ سو چکا ہو۔

کچھ عرصے بعد ایک رات جب میں اپنے بستر میں گہری نیند سوئی ہوئی تھی، میں نے اپنے جسم پہ کچھ رینگتا ہوا محسوس کیا۔ گھبرا کر آنکھ کھولی تو وہ دو غلیظ ہاتھ تھے، جو آدھی رات کو میری چھاتی ٹٹول رہے تھے۔ سمجھ جائیے کس کے ہوں گے؟ میری ماں بھی موجود تھی لیکن دوسرے بستر پہ۔ میں نے بڑی مشکل سے کروٹ لے کر ان ہاتھوں کو اپنے سے دور کیا۔

پھر تو یہ معمول بن گیا۔ وہ انگلیاں میرے بدن پر ہر جگہ سفر کرتی تھیں، کسی چھپکلی کی طرح یا شاید دو مونئے سانپ جیسی۔ میں لاکھ کروٹیں بدلتیں، ان منحوس انگلیوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتی لیکن ایک چھوٹی خوفزدہ بچی ایک مرد کے سامنے کیا کر سکتی ہے؟ اور مرد بھی اگر باپ ہو تو؟

رات میرے لیے ایک ڈراونا خواب بن گئی۔ شام ہوتے ہی مجھے لرزہ چڑھ جاتا۔ بہانے بہانے سے ماں کو کہتی کہ اس کے ساتھ سوؤں گی لیکن ماں کے ساتھ تو چھوٹے بہن بھائی سوتے تھے۔ ماں جھڑکتی، تم اب بچی نہیں، جو میری بغل میں گھسو۔ میں ڈر کے مارے ساری رات جاگتی رہتی کہ نہ جانے کب وہ سانپ سی انگلیاں مجھے ڈسنے آئیں گی۔

سردیاں آتیں تو میں کئی سویٹرز پہنتی، جیکٹ چڑھاتی اور دو تین کمبلوں کے نیچے چھپ کر سمجھتی کہ شاید اب مشکل ہو گا۔ لیکن سردیوں کی راتوں میں بھی وہ سانپ مجھے ڈھونڈھ لیتے۔ جیکٹ کی زپ کھولتے اور میری چھاتی پہ رینگتے۔

میں صبح اٹھ کر سکول مشکل سے جاتی۔ صبح کو وہ نارمل ہوتا۔ کسی بات سے اندازہ نہ ہوتا کہ وہ رات کو بیٹی کے جسم کو محض ایک عورت کا جسم سمجھ لیتا ہے۔

ایسا کچھ برسوں تک چلا اور پھر شاید رکا یوں کہ میں کچھ اور بڑی ہو گئی یا شاید میرے باپ کو خوف محسوس ہوا کہ اب میں چیخ نہ پڑوں کہ میرے ہاتھ جھٹکنے میں سختی آ گئی تھی میں نے دن میں بھی قریب جانا چھوڑ دیا تھا، میری آنکھوں سے لہو ٹپکتا تھا۔ میری ماں کو کبھی پتہ نہیں چل سکا کہ اس کے شوہر کے لیے دن کے اجالے میں بیٹی تھی میں اور رات کے اندھیرے میں عورت۔

ان برسوں میں اور نہ ہی آج تلک میرے باپ کے چہرے یا باتوں سے کبھی جھلکا کہ وہ چور ہے اور رات کو اپنی بیٹی کو ہی ہراساں کرتا رہا ہے۔

مجھے خوف آتا ہے اب بھی۔
میں اس کے چہرے کو غور سے دیکھتی ہوں کہ وہ اس قدر مطمئن کیسے ہے؟ اسے وہ سب تنگ کیوں نہیں کرتا؟
اسے کیوں یاد نہیں کہ اس نے بیٹی کے رشتے کو کیسے توڑ پھوڑ دیا تھا؟

میری ذہنی حالت تباہ ہو چکی ہے۔ مجھے یہ گھر ایک جہنم نظر آتا ہے۔ کیا خدا نے جیتے جی مجھے جہنم میں ڈال دیا؟ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے، مجھے پوری دنیا سے نفرت ہے۔

مجھے یہ سوال جینے نہیں دیتا۔ کیوں؟ میرے ساتھ کیوں؟

اور آپ جیسے لوگ ہماری زندگی کو مزید تلخ بنا دیتے ہیں۔ جھوٹ بولتی ہیں آپ۔ کیسے کوئی باپ اپنی بیٹی کی عزت کر سکتا ہے؟ کیسے دوسرے باپ اپنی بیٹیوں کے جسم کو دیکھ کر نہیں للچاتے؟ کچے جسم کی نرمی اور گرمی دیکھ کر ان کے رال کیوں نہیں گرتی؟

میرا جی چاہتا ہے کہ یہ دنیا توڑ دوں، سب کچھ۔ سب کچھ۔ ”
کیا جواب دیں ہم؟

کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ منٹو کو اکیس توپوں کی سلامی دلوائیں۔ کہانی کے پردے میں وہ کچھ لکھ گیا جو بند دروازوں کے پیچھے کی حقیقت تھی۔

لوگوں نے اسے گندی نالی کا کیڑا کہا، لیکن گندی نالی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر نے والوں کو ہم کیا کہیں۔

ہمارے پاس تو منٹو جیسا قلم نہیں کہ ویسے شاہکار تخلیق کر سکیں، ہاں اگر کوئی عورت دل کا حال سنا دیتی ہے تو ہم لکھ کر آپ کو پیش کر دیتے ہیں۔

”اللہ دتا مسکرایا۔ زینب کی ٹھوڑی پکڑ کر اس نے اس کا منہ چوما،
”پگلی۔ ہر بات پر شک کرتی ہے۔ اور باتوں کو چھوڑ، آخر میں تمہارا باپ ہوں۔“
زینب نے بڑے زور سے ہونہہ کی، ”باپ!“ اور اندر کمرے میں جا کر رونے لگی۔
( سعادت حسن منٹو۔ افسانہ اللہ دتا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments