عربی سے طب تک(7)


اسحٰق واحد منگلا سکول میں مجھ سے دو سال آگے تھا۔ وہ سکول کے فنکشنز میں اکثر تقریر کیا کرتا تھا۔ اس میں بلا کی خود اعتمادی تھی۔ وہ آواز کے زیر و بم کا استعمال خوب جانتا تھا۔ اپنے جذبات کے اظہار میں تندی و تیزی اس کا درجہ کمال تھے۔ میں کالج پہنچا تو وہ اس وقت بی اے کے آخری سال میں تھا۔ کالج آنا جانا اکٹھے ہو تا تھا۔ اگرچہ وہ کالج میں ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتا تھا لیکن میں نے اسے کالج میں تقریر کرتے نہیں دیکھا۔ کسی وجہ سے اس کی اس صلاحیت کو زنگ سا لگ گیا تھا۔ کالج کا میگزین شائع ہوا تو اس میں میرا افسانہ بھی تھا۔ ہم بس میں بیٹھے تھا۔ اسحٰق نے کہا :

میں نے تمہارا افسانہ پڑھا ہے۔

آپ نے اسے کیسا پایا، میں نے کہا۔ میں اسحق کا معترف تھا اور اس کی زبان سے اپنے بارے میں کوئی کلمہ خیر سننا چاہتا تھا۔

میں نے اس کا پہلا پیرا ہی پڑھا تو پوری کہانی سمجھ میں آ گئی۔ مجھے پتہ تھا آگے آپ نے کیا لکھا ہو گا اس لئے اس سے آگے میں نے پڑھا ہی نہیں۔

اسحٰق نے میرے انا کے غبارے کو بہت زیادہ پھولنے سے پہلے ہی سوئی چبھو دی تھی۔
آپ نے بھی اسی شمارے میں ایک کہانی لکھی ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آئی۔
سائنس پڑھنے والے لوگ ادب کے ادب آداب کیا جانیں؟

وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ نے کہانی کے عنوان کے نیچے لکھا ہے ’روسی ادب سے ماخوذ‘ کیا آپ روسی زبان جانتے ہیں۔

میں روسی زبان نہیں جانتا مگر بہت سے روسی ادب کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔

میں اس سے اور مرعوب ہو گیا۔

ایک بار ہم میرپور سے بس میں بیٹھے، اسحٰق بھی ہمارے ساتھ تھا۔ کنڈیکٹر کہے جا رہا تھا کہ سٹوڈنٹس کھڑے رہیں، سیٹوں پر نہ بیٹھیں۔ ان دنوں طلباء کے لئے کرائے میں رعایت کے معاملے پر بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں سے اکثر بحث و تکرار ہوتی تھی۔ ہم سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ اسحٰق نے کہا : سٹوڈنٹس کیا کوئی کم درجے کے انسان ہوتے ہیں؟ وہ کنڈیکٹر کوئی گرم مزاج شخص تھا۔ جہاں وہ کھڑا تھا، میں اس کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ وہ سمجھا شاید یہ بات میں نے کہی ہے۔

اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور میرا گریبان پکڑ لیا۔ نرم مزاج یا حلیم الطبع میں بھی نہیں تھا۔ ہم وہاں پانچ چھے طلباء تھے، ہم اس کنڈیکٹر کی ٹھیک ٹھاک پٹائی کر سکتے تھے۔ لیکن ہمارا ہر روز کا آنا جانا تھا اور انہی لوگوں سے روزانہ واسطہ پڑتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ بات آگے بڑھے۔ میں نے نہایت تحمل سے اسے کہا کہ وہ میرا گریبان چھوڑ دے، میں نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔ اسی دوران اسحٰق جو آگے بیٹھا تھا نے کنڈیکٹر کو اشارہ کیا اور کہا ادھر مجھ سے بات کرو۔ جو کچھ بھی کہا ہے، میں نے کہا ہے۔ تم اس کے ساتھ کیوں الجھتے ہو؟ اسحٰق نے جس طرح اسے اپنے پاس بلایا تھا اور اس سے گفتگو کی، کنڈیکٹر کا طیش و تاؤ ہوا ہو گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔

ایک دن میں منگلا کے سول بازار سے گزر رہا تھا۔ وہاں ایک ڈھابہ نما ہوٹل تھا۔ اسحٰق نانبائی کے روپ میں تندور پر روٹیاں لگا رہا تھا۔ میں بڑا حیران ہوا کہ اسحٰق یہاں کیا کر رہا ہے۔ میں کچھ دیر وہاں کھڑا رہا۔ اسحٰق نے مجھے دیکھا تھا لیکن انجان بن کر وہ اپنے کام میں مگن رہا۔ میں نے بعد میں کسی ساتھی سے اس کا ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ اسحٰق کے گھر میں سوتیلے پن کا معاملہ ہے۔ اس کے اور سوتیلے بہن بھائی بھی ہیں۔

سکول کی حد تک اس کی پڑھائی مفت میں ہوتی رہی۔ کالج کی پڑھائی میں فیس کے علاوہ کاپیوں کتابوں اور ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی ہے۔ کالج میں داخل ہوتے وقت اسے بتا دیا گیا کہ اسے اپنا خرچہ خود برداشت کرنا پڑے گا۔ اب اسحٰق بی اے کے آخری سال میں تھا اور عزت نفس کی پاس داری کے لئے تندور پر اپنا خون جلا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ایک انسان کو اس کی شخصیت سازی کے لئے کن کن مراحل سے گزارتی ہے۔ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی۔ اسحٰق واحد کا بعد میں پتہ نہیں چل سکا کہ کہاں گیا اور زندگی نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

افسانہ میرا بن گیا

اگست 2010ء میں اختتام ہفتہ تھا۔ برطانیہ میں اپنے گھر میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ ٹیلیفون اٹھایا تو غازی علم الدین صاحب بول رہے تھے۔ اس سے پہلے ان سے تفصیلی نہیں، غائبانہ سا تعارف تھا۔ کہنے لگے میں نے آپ کی کتاب ’میر کے خطوط‘ دیکھی ہے۔ ما شاء اللہ آپ اچھا لکھتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک خط گورنمنٹ کالج میرپور کے مجلے ’سروش‘ کے نام بھی ہے۔ اس میں آپ نے اپنے ایک افسانے کا ذکر کیا ہے کہ جب آپ ایف ایس سی کے سال اول میں تھے تو اسے اپنی اصلی شکل میں شائع نہیں کیا گیا تھا۔

میں نے سروش کے سب پرانے شمارے نکالے لیکن مجھے آپ کا افسانہ نہیں ملا۔ پھر ’شاہین‘ * کے شمارے دیکھے تو اس میں آپ کی تحریر مل گئی۔ کیا آپ کے پاس اس افسانے کا اصلی مسودہ موجود ہے۔ اگر وہ تحریر مل جائے تو میں ’سروش‘ (کالج کے اصل میگزین ) کے اگلے شمارے میں اسے اس کی اصلی حالت میں چھاپ دوں گا۔ میں تو اسی بات پر حیرت زدہ تھا کہ پروفیسر غازی علم الدین کس طرح کے استاد ہیں کہ علم کی جستجو میں وہ کسی کو تلاش کرنے پہ آئیں تو دوریاں اور نا آشنائیاں ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں۔

گویا وہ ایسے تیشہ بردوش کوہ کن ہیں جو سنگلاخ پہاڑوں سے بھی جوئے ادب نکال لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 1967 ء میں لکھے گئے افسانے کے مسودے کو میں پینتالیس سال بعد کہاں تلاش کرتا۔ میں افسانوی دنیا سے کب کا نکل چکا تھا۔ اب تو زندگی کی حقیقتوں سے واسطہ تھا۔ میں نے کہا وہ مسودہ کہیں موجود تو ہو گا لیکن شاید منگلا میں اپنی پرانی کتابوں کے کوڑ کباڑ میں۔ میں جب وہاں آیا تو ڈھونڈ کے آپ کی نذر کر دوں گا۔ پروفیسر صاحب ’سروش‘ کے لئے مجھے کچھ اور بھی لکھنے پر اکسا رہے تھے۔ میں نے سوچا قلم تو کب کا ہاتھ سے چھوٹ چکا۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد قلم کی بجائے نشتر ہاتھ میں تھما دیا گیا تھا۔ اب اسی کے استعمال کا سلیقہ آتا ہے۔ قلم تو اب زنگ آلود ہو چکا۔

اتفاقاً دوسرے دن میں نے کسی کاغذ کی تلاش میں ایک دراز کھولا تو ایک پرانی فائل نظر آئی۔ اس فائل میں سب سے اوپر اسی افسانے کا پینتالیس سالہ پرانا مسودہ پڑا تھا۔ میں نے اسے سکین (Scan) کر کے ای میل کے ذریعے انہیں بھیج دیا۔ غازی صاحب نے نہ صرف وہ افسانہ اپنی اصلی حالت میں شائع کیا بلکہ سروش کے نام خط ’بہت دنوں کی بات ہے‘ کی بھی اسی شمارے میں مکرر طباعت کی۔

رب کا شکر ادا کر بھائی

کالج کے زمانے میں فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے روگ تو تھے ہی ان پر اضافہ ایک گائے نے کر رکھا تھا جو دودھ کے لیے ہم نے پال رکھی تھی۔ یہ گائے دودھ لیٹروں کی بجائے سیروں میں دیا کرتی تھی۔ بے چاری حجم کے اعشاری نظام سے واقف نہیں تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی یہ پیمانے رائج ہی نہیں ہوئے تھے۔ چونکہ اسے ہمارے گاؤں کے مستری پیراں دتہ کی طرح گنتی صرف ایک تک ہی آتی تھی اس لیے دودھ بھی دونوں وقتوں میں صرف ایک ایک سیر ہی دیا کرتی تھی۔

کبھی کبھی تو اس کے تھنوں سے ایک سیر دودھ برآمد کرنا بھی جوئے شیر نکالنے کے مترادف ہو جایا کرتا تھا۔ اس گائے کے اندر دودھ میں پانی ملانے کا خود کار نظام موجود تھا جبھی تو اس کا دودھ اتنا پتلا ہوتا تھا کہ گوالے کا دیا لگتا تھا۔ گائے کھونٹے سے بندھی مجھے ٹکر ٹکر دیکھا کرتی تھی۔ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ اس کے جذبات بھی میرے بارے میں مجھ سے مختلف نہیں تھے۔ چھٹی کے دن والدہ مجھے اکثر اسے چرانے کے لیے باہر لے جانے کا کہا کرتیں۔

میں ان کے حکم کی تعمیل میں گائے اور کتابوں کو ساتھ لیے باہر نکل جایا کرتا تھا۔ کسی مناسب جگہ ڈیرہ جما کر فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی سے دو دو ہاتھ کیا کرتا تھا۔ جب میں نیوٹن کے قوانین حرکت اور آئین سٹائن کے نظریہ اضافت کی بوالعجبیوں میں کھو جاتا تو مجھے دنیا و مافیا یہاں تک کہ گائے کی خبر بھی نہ رہتی۔ ہماری گائے حساب میں تو کمزور تھی لیکن علم نباتات میں خاصی طاق تھی۔ وہ بڑی اچھی طرح سمجھتی تھی کہ کھیتوں میں اگائی ہوئی فصل کی غذائیت (Caloric Value) جنگل کی خود رو گھاس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

بڑی گھاگ تھی، مجھے پڑھائی میں منہمک دیکھ کر اندازہ کر لیتی تھی کہ میں اب دو گھنٹے سے قبل طبیعات کی تخیلاتی دنیا سے نکل نہیں سکوں گا اور واقعی جب میں مابعد الطبیعات (یعنی طبیعات پڑھنے کے بعد ) آگے پیچھے نظر دوڑاتا تو گائے کہیں نظر نہ آتی۔ میں پریشان ہو کر کتابیں سمیٹتا اور گھر کی راہ لیتا۔ گھر آ کر دیکھتا تو سیر شکم گائے کھونٹے سے بندھی میرا منہ چڑا رہی ہوتی۔ والدہ پوچھتیں ”تم کہاں رہ گئے تھے؟“ مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑتا تو میں کھسیانی بلی کی طرح کتابیں نوچنے لگتا۔ والدہ سرزنش کرتے ہوئے کہتیں ”تمہیں گائے کے ساتھ بھیجنے کا کیا فائدہ؟“ یہ ہر دفعہ کھیتوں میں سے ہو کر زمیندار کے ہاتھوں گھر پہنچ جاتی ہے۔ ان کے گلے شکوے الگ سننے کو ملتے ہیں۔ میں سر نیہوڑائے سوچنے لگتا کہ مولوی اسمٰعیل میرٹھی نے کیا سوچ کر

کہا تھا: ’رب کا شکر ادا کر بھائی۔ جس نے ہماری گائے بنائی‘
تبسم کا فسوں

کالج میں کبھی کبھی شغل میلہ بھی ہو جاتا تھا۔ کالج میں قیام کے آخری پانچ چھے ماہ پروفیسر محمد نذیر تبسم سے بھی نیاز حاصل رہا۔ بیالوجی کے شعبہ میں پروفیسر ارشد شیخ استاد اور عبدالعزیز ’بھا‘ ڈیمانسٹریٹر تھے۔ جب ہم دوسرے سال میں تھے تو عبدالعزیز کالج کی ملازمت چھوڑ کر برطانیہ چلے آئے۔ اب ان کی جگہ نذیر تبسم صاحب ڈیمانسٹریٹر مقرر ہوئے۔ یہ بیالوجی کے پریکٹیکل میں ہماری راہنمائی کیا کرتے۔ ایک دن پریکٹیکل کے لئے مناسب ساز و سامان (Specimens) بر وقت نہ پہنچ پایا۔

نذیر تبسم صاحب پابندیوں سے ماوریٰ ’تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا‘ کے فلسفے پر کاربند کھلے ڈلے ذہن کے مالک تھے۔ کہنے لگے کسی کو گانا آتا ہے۔ سر سنگیت سے میرا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ امیر افضل میر بہت اچھا گاتا تھا۔ اس نے محمد رفیع کا گایا ہوا گانا : ’تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا۔ ہو رہے گا ملن یہ ہمارا تمہارا‘ گایا اور سماں باندھ دیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ریاض احمد وہیں کلاس میں بیٹھا رہا۔

ریاض ہمارا ہم جماعت تھا اور بڑا پکا ڈاھڈا مسلمان تھا۔ مسلمان تو ہم بھی تھے لیکن اسلام کے ساتھ ہمارا بندھن ذرا کچے دھاگے سے بندھا تھا جو بات بے بات ٹوٹ ٹوٹ جاتا۔ چند ہفتے قبل پروفیسر مشتاق سلیم، جو ہمیں فزکس پڑھایا کرتے تھے، کی عدم موجودگی میں ڈیمانسٹریٹر افضل مرزا لیکچر لینے آئے تو وہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ ان کی فرمائش پر محمد اکرم راہی ؔنے گانا گایا۔ محمد اکرم منگلا سے تھا اور ہمارے ساتھ کالج آیا کرتا تھا۔

بڑے سریلے گلے کے ساتھ بہت اچھا گائیک تھا۔ وہ مہدی حسن کے تتبع اور انداز میں گاتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ اس نے گانے میں خاص تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ جوں ہی اس نے گانا شروع کیا تو اس غیر اسلامی حرکت پر احتجاج کے طور پر ، ریاض نے اپنی کتابیں اٹھائیں اور کمرے سے تیر کی تیزی سے نکل گیا۔ لیکن آج ریاض وہیں بیٹھا رہا۔ لگتا تھا کہ اسلام سے اس کے بندھن کی ڈور بھی قدرے کمزور پڑ گئی ہے۔ امیر افضل میر کی آواز بہت اچھی تھی اور راگ الاپنا بھی اسے خوب آتا تھا۔

اس کا گانا ختم ہوا تو سب کی نگاہیں میری طرف اٹھیں۔ مجھے گانا گانا تو دور کی بات ہے، اچھے طریقے سے رونا بھی نہیں آتا تھا لہذا میں اپنی جگہ پر خاموش بیٹھا رہا۔ تھوڑی سی رد و کد کے بعد ظفر نعیم نے سعید خان رنگیلا کا گایا ہوا گانا : ’گا میرے منوا گاتا جا رے۔ جانا ہے ہم کا دور‘ شروع کیا۔ ظفر کی آواز میں کھنک تھی نہ کھرج اور نہ ہی سر میں کوئی تال میل۔ جب وہ اس مصرع پر پہنچا ’جانا ہو گا توڑ کے اک دن دنیا کے دستور‘ تو میں نے بڑے زور سے سسکتے ہوئے آہ بھری تو پوری محفل کشت زعفران بن گئی، اتنے زور کا قہقہہ پڑا کہ ظفر کا گانا کہیں درمیان میں رہ گیا۔ نذیر تبسم نے ظفر کی دل جوئی کے لئے کہا :اس گانے کی لے خاصی مشکل ہے، اسے گانے کے لئے بڑا ریاض چاہیے۔

بیالوجی کے گروپ میں ہم29 طلباء تھے۔ ان میں سے تیرہ ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوئے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جب میں 1974ء میں نشتر میڈیکل میں ایم بی بی ایس کے آخری سال میں تھا تو میرے ایف ایس سی کے ہم جماعت، دوسرے سے لے کر چوتھے سال تک ہر کلاس میں موجود تھے۔ ریاض، افضل اور ظفر سبھی ڈاکٹر بنے۔ ریاض میرپور میں اور افضل ڈڈیال میں ہوتے ہیں۔ ظفر اسلام آباد میں تھے۔ چند سال قبل وفات پا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

ہمارے بعد نذیر تبسم نے کالج میں خاصا ہنگامہ خیز وقت گزارا۔ پتہ نہیں کب انہوں نے بیالوجی کو خیر باد کہا اور انگریزی زبان کے لٹریچر اور فلسفہ پر دھاوا بول دیا۔ کالج سے فراغت کے بعد برطانیہ تشریف لے آئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا مسلک اختیار کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بہت اچھا لکھتے ہیں لیکن کھانا اس سے کہیں زیادہ اچھا پکاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں تلخی یا ترشی ہو سکتی ہے لیکن کھانے میں نہیں۔ اگر آپ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ایک بار کھا لیں تو ان کی تحریر سے رغبت پیدا ہو نہ ہو ان کے پکائے ہوئے کھانے سے بے رغبتی پیدا ہونے کا سؤال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (جاری ہے )

ڈاکٹر جمیل احمد میر

*پچھلی قسط میں، میں نے ’شاہین‘ کو سہواً کہکشاں لکھ دیا تھا۔ گورنمنٹ کالج میرپور کے دو میگزین تھے، اصل سالانہ میگزین ’سروش‘ تھا، ’شاہین‘ ، ششماہی شمارہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments