شطرنج کی بساط اور مشرق و مغرب کا تضاد


زندگی کو اکثر شطرنج کی بساط سے تشبیہ دی جاتی ہے، کیونکہ دونوں میں مہرے کچھ مقرر کردہ اختیارات لے کر بساط پر اترتے ہیں، اور دونوں میں کامیاب بازی وہی کہلاتی ہے جہاں چال چلنے میں عقل، حکمت اور نگاہ دوربین کا استعمال ہو نہ کہ صرف طاقت و اختیار کا اندھا زعم۔

شطرنج جہاں بھی پہنچی وہاں کے سماجی ڈھانچے کے مطابق طاقت اور اختیار کے استعارے بھی بدلتے گئے۔ ہمارے مشرق میں شطرنج میں کوئی نسوانی کردار نہیں دکھائی دیتا۔ شاہ سب سے اہم اور وزیر سب سے طاقتور مہرہ مانا جاتا ہے۔ مگر شطرنج کی تاریخ سے معلوم ہوا کہ جب یہ کھیل مغرب پہنچا تو بساط پر طاقت کے مختلف استعاروں نے جنم لیا۔ فرزیں یا وزیر کی جگہ نسوانی کردار کوئین نے لی اور فیل کی جگہ بشپ نے جو معاشرے میں مذہب کے کردار کی علامت بنا۔

مشرق کے برعکس مغرب کی شطرنج میں مہروں اور چالوں کے ارتقا میں معاشرے کا ایک دلچسپ عکس دکھائی دیا۔ اس سے قطع نظر کہ حقیقی معاشرے میں عورت کے حالات کوئی مثالی نہ تھے، اس کے باوجود میدان کارزار میں عورت کو سب سے طاقتور مہرے کی حیثیت دینا قابل ذکر لگا۔ چاہے شطرنج کی بساط ہی سہی استعاراتی طور پر اس کے وجود کو جگہ تو دی گئی، جبکہ مشرق عورت کے وجود سے ہمیشہ خائف ہی نظر آیا، اور اسی ڈھکا دو، چھپا دو، دبا دو، جھکا دو کے معاشرتی رویے کی جھلک شطرنج کی بساط پراس کی غیر حاضری میں بھی نظر آئی۔

ہماری چھوٹی صاحبزادی نے چھ سال کی عمر میں انگریزی میں شطرنج کے مہروں کے نام اور کچھ ابتدائی اصول سیکھے۔ ایک مرتبہ گھر پہ اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب اسے بتایا گیا کہ کنگ کو شہ ہو تو اسے ہر حال میں بچانا ہے، حتی کہ اگر کوئین بھی قربان کرنی پڑے، کہ کنگ ختم تو کھیل ختم! اس اصول کو سننے کے بعد اس چھوٹی سی بچی نے جو رد عمل دیا وہ میرے لیے بڑا دلچسپ تھا، کہ اپنی معصومیت میں وہ بہت گہرا اور معنی خیز تھا۔ کیونکہ جب میں نے اس کا کنگ اٹھایا تو انگریزی میں بولی کی مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر آپ اس کنگ کو اٹھا لیں کیونکہ یہ تو ایک انتہائی ’یوزلیس اور لیزی‘ ، یعنی نکما اور سست مہرہ ہے، سب سے سمارٹ مہرہ تو کوئین ہے اور جب تک میری کوئین بورڈ پر موجود ہے گیم ختم نہیں ہو سکتی! اور آج اتنے سالوں بعد بھی مجھے اس کے ساتھ اس کے اسی اصول کو مان کر ہی کھیلنا پڑتا ہے!

یہ قصہ یوں یاد آیا کہ کل ایک خبر ملی جس نے جہاں دکھی کیا وہاں ایک عجیب سا احساس تفاخر بھی دیا۔

ہماری ایک عزیزہ کی صاحبزادی جو پاکستان کی اسلامی یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں، انھوں نے خلع کی درخواست دائر کی۔ روایتی مذہبی تعلیم رکھنے والی بچی کے لئے خاوند کو چھوڑ دینے کی جسارت کرنا ایک بہت دلیرانہ قدم نظر آیا۔

مگر جب حالات کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ ان کو اس انتہائی قدم تک جانے کا حوصلہ نہ کسی مذہبی بیانیے سے ملا نہ کسی انسانی طاقت کی بدولت بلکہ اس لئے کہ ان کی زندگی کی یہ بساط مشرق نہیں بلکہ مغرب میں بچھی ہوئی تھی۔ جہاں وہ حجاب و نقاب لینے کے باوجود بھی ایک بے نام اور بے چہرہ وجود نہیں تھی بلکہ ایک جیتا جاگتا حساس انسانی وجود تسلیم کی جاتی تھی۔ یہ واقعہ کینیڈا میں پیش آیا۔ سب جاننے کے بعد اپنے دیس والے تو صلح صفائی کی ہی بات کرتے رہے، مگر بچی اسلامی علم کے ساتھ ساتھ کینیڈا میں اپنے حقوق سے بھی بخوبی واقف تھی اور جب اس نے دیکھا کہ جذباتی تشدد کے بعد اب اس کا شوہر جسمانی تشدد کی جانب بڑھ رہا ہے تو اسے یہ ایک ریڈ لائن کراس ہوتی نظر آئی جس کے بعد اس نے مفاہمت کے بجائے ترک تعلق کو ترجیح دی۔ اور والدین کی مدد سے پولیس کال کی، جو لمحوں میں ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ان کی پشت پر کھڑی تھی۔ لاکھ اور برائیاں سہی مگر جس مستعدی سے بچی اور دو بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا اس سے اس ملک کی عزت دل میں اور بڑھ گئی۔

واقعہ کوئی انہونا نہیں، مگر قریبی جاننے والوں کے ساتھ ہوا ہے تو دکھ بھی گہرا ہے، کہ رفیوجی لڑکے نے شہریت جلد حاصل کرنے کے لیے اس خاندان کے اس کمزور لمحے کا فائدہ اٹھایا جب وہ کینیڈا میں بچی کی شادی کے لئے انتہائی فکرمند تھے۔

مگر جہاں دل بہت دکھی ہوا وہاں اس بات پر اطمینان بھی ہوا کہ اس بچی کے اردگرد خاوند کے آگے سجدے کرنے والی حکایتیں سنانے، اسے منانے اور برداشت کرنے کے مشورے دینے والا معاشرہ نہیں تھا بلکہ اپنی عزت نفس پر سمجھوتہ نہ کرنے کا درس دینے والا معاشرہ تھا۔ اس نہایت شریف، مذہبی اور وضع دار خاندان، کو اس انتہائی قدم اٹھانے کا حوصلہ اس حقیقت نے دیا کہ سسٹم، حکومت اور پولیس انصاف کے حصول کے لیے ان کی پشت پر کھڑی ہے۔

یہی کچھ مملکت خداداد میں ہوتا تو کیا ہوتا، بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں عورتوں کے قاتل سینہ چوڑا کر کے جیلوں سے رہا ہو کے دندناتے پھرتے ہیں، وہاں جسمانی تشدد کی اذیت کے بارے میں پولیس کو زحمت دینا ایک مذاق ہی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہاں اندھی طاقت کی اخلاقیات کا راج ہے نہ کہ انسانیت کا۔ مزید گہرائی میں جائیں تو فرعونی طاقت کا یہ قلعہ ایک مذہبی بیانیے پر بڑی محنت سے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ تاقیامت کوئی اسے مسمار کرنے کی جرات نہ کرے۔

جو قانون دلیل اور عقلی طور پر منوایا یا رائج نہ کروایا جا سکے تو اسے آفاقی خدا کے حکم سے منسوب کر کے مذہبی معاشرے میں منوانا سب سے آسان حل ہے۔ بس یہی کچھ اس ملک میں بھی ہو رہا ہے۔ اندھی طاقت کا راج اور بس اس کا خوف ہے۔ طاقت جب اصولوں کے بجائے نفسانی خواہشات کے تابع ہوتی ہے تو جس کو جب بھی ملے گی بے انصافی اور بے حسی کا اندھیر مچا دے گی۔ ہمارے معاشرے نے مرد کو زمین پر ایک خود ساختہ آفاقی درجے پر فائز کر رکھا ہے۔

ایک عورت کی زندگی کا مقصد بھی تبھی پورا ہوتا ہے جب وہ ایک آدھ مرد کو جنم دے دے۔ چونکہ صرف مرد کا ساتھ ہی عورت کے لئے طاقت کی یقینی علامت ہے تو اس کو جنم دینا ایک ٹرافی حاصل کرنے جیسا ہے یوں طاقت کی اس علامتی ٹرافی کو حاصل کرتے ہی عورت بھی طاقت کے وکٹری سٹینڈ پر جگہ بنا لیتی ہے۔ عورت کا ساس بن کر جابر ہونا بھی اسی پاور پولیٹکس کا حصہ ہے جس کا تعلق کسی صنف سے نہیں بلکہ اختیار اور اس سے ملحقہ طاقت سے ہے۔ اور ابسولیوٹ پاور کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں جو ہر حال میں اپنا غلبہ اور اپنے آگے سر جھکے دیکھنا چاہتی ہیں۔

یہ رویے اجتماعی طور پر سب کے لئے نقصان دہ ہیں، اور اس میں صنف کی کوئی تخصیص نہیں۔ عورت لڑکے کو جنم دینے کے بعد روایتی نا انصاف معاشرے کی فریق اور حامی بھی اسی لیے بن جاتی ہے کہ اب اس کے قبضے میں معاشرتی مقرر کردہ طاقت کا استعارہ موجود ہے، جس کی آزادی پر معاشرہ کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اور یوں وہ عورت بھی اس مردانہ برتری اور آزادی کو قائم رکھنا ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر نبھاتی ہے اور ساتھ اس سے فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔

اور یوں ایک بچے کی تربیت، معاشرتی طاقت کے حصول اور آزادی کے بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ گھر اور گھر سے باہر کھلے میدان میں اس کی پرورش ہوتی ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ بس ایک حکم کی دوری پر مسجود النساء کے رتبے پر فائز ہونے سے رہ گیا تھا لہذا عورت پر حکمرانی دینی تقاضا ہے۔ اور یوں وہ ہر دم عورت کو دبا کر رکھنے اور کنٹرول کرنے کے خبط میں مبتلا رہتا ہے۔ اور جب وہ ایک فرعونی احساس برتری، خود پسندی، اور انا کی خود غرض اخلاقیات کے سائے میں پروان چڑھتا ہے تو یہ پیدائشی تفاخر ان کی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے، جس سے سارے معاشرے کا ماحول متاثر ہوتا ہے۔

پاکستان میں تو اس کی انانیت کا بھرم قائم رکھنے کے تمام وسائل بخوبی موجود ہیں مگر جب یہ بت پاکستان سے باہر پجاری ڈھونڈتا ہے تو مایوسی کا شکار ہوتا اور یہ لڑکے برداشت نہیں کر پاتے اور یوں نشے کی لت بھی لگا لیتے ہیں۔ ایک معاشرے میں تو وہ ’لیزی اور یوزلیس‘ ہو کر بھی شاہ ہی رہتے ہیں، مگر مہذب معاشرے جب انھیں اپنی خود ساختہ خدائی بلندی سے اتر کر انسان بننے اور دوسروں کو بھی انسان سمجھنے کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے اور یوں ان کا اندرونی انتشار اور طوفان ان کے قریب رہنے والے تمام افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

آج کی کوئین، شاہ کے لئے ستی نہیں ہوتی، اور نہ ہی صرف اس کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے اپنا جیون تیاگ دینے کو تیار بیٹھی ہے۔ کہ اب اس کو اپنی طاقت کا ادراک ہو چکا ہے، وہ سمجھ رہی ہے کہ وہ اپنے اعمال کی نہ صرف آپ ذمہ دار ہے بلکہ خدا کو بھی ذاتی حیثیت میں جوابدہ ہے، نہ کہ صرف معاشرے اور اس کے اندھے قوانین کو۔ وہ انصاف پسند معاشرے پر اسی لیے اصرار کر رہی ہے کیونکہ وہ دیکھ رہی ہے کہ اگر معاشرہ مہذب ہو جائے تو کھیل کسی جابر شاہ کی محکومی کے سہارے کے بغیر بھی بخوبی جاری رکھا جا سکتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments