پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں تباہی کا شکار کیوں؟


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ایک طرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے کامیاب خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی پارٹی جس کی بنیاد پنجاب کے شہر لاہور میں رکھی گئی وہاں مسلسل مسلسل بد حالی کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد جب 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو مخالفین اور پنجاب کے بیشتر عوام کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو محترمہ کی شہادت کی وجہ سے لوگوں نے ہمدردی کا ووٹ دیا ہے یہ بات سراسر غلط ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا۔

کیونکہ اگر کوئی ووٹ ہمدردی کا ہوتا تو پاکستان پیپلز پارٹی زیادہ تعداد میں سیٹس حاصل کرتی اور اپنی حکومت بنا کر آزاد فیصلے کرتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو سوچ سے کم سیٹس حاصل ہوئیں لیکن اس وقت آصف علی زرداری نے مفاہمت کی سیاست کو ترجیح دیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ملا کر ملک چلانے پر ترجیح دی۔ یہ پاکستان اور عوام کے لئے خوش آئند فیصلہ تھا لیکن صدر زرداری بھول گئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی مفاہمت کی نہیں مزاحمت کی سیاست کی وجہ سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔

2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی نے آئین کو اپنی اصلی حالت میں بحال کرنے کے علاوہ جو بیشتر کام کیے لیکن ان کی تشہیر کرنا مناسب نہ سمجھا جبکہ پنجاب میں ایک کہاوت ہے جو دکھتا ہے وہ ہی بکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا اصل مسئلہ ہی یہ رہا ہمیشہ کام تو کافی کیے لیکن کبھی اس کی درست یا مناسب تشہیر نہ کر پائی۔ پتہ نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کب سمجھے گی کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ میرا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور پنجاب کا ایک چھوٹا سا جیالا ہوں۔ میں گواہ ہوں اس چیز کا کہ پاکستان پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں نے اپنی مٹی کو بھی سونا کر بیچا اور پاکستان پیپلز پارٹی جس نے اپنے سونے جیسے کاموں کی تشہیر نہیں کی ان کے سونے جیسے کام بھی مٹی ہوئے۔

اسکی سب سے بڑی وجہ خراب میڈیا مینجمنٹ سٹرٹیجی اور مینجمنٹ اور عدم تشہیر پالیسی ہے۔ پاکستان میں جو بھی حکومت آئی انہوں نے پہلی حکومتوں کے منصوبوں پر تختیاں لگا کر کارنامے گنوائے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک اور مثال پیش کرتا ہوں کہ سندھ جس کے بارے میں ہمیشہ جھوٹا پروپiگنڈا اور منفی تاثر دیا گیا وہاں کے ترقیاتی کاموں کو آج تک دوسرے صوبوں کی عوام تک نہ پہنچایا جا سکا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارناموں کی لسٹ لمبی ہے لیکن مختصر آپ کو بتاتا چلوں کہ سندھ میں صحت کے معاملے میں سندھ حکومت کا شاندار منصوبہ جس کی مثال پورے پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتی نیشنل انسٹیٹiوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزز کا منصوبہ ہے۔

یہ منصوبہ NICVD کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس منصوبے کی پاکستان بھر میں مثال نہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی کی میڈیا مینجمنٹ اس منصوبے کی آگاہی لوگوں تک نہیں پہنچا سکے۔ کیونکہ سندھ میں صحت کے معاملے کو لے کر مخالفین نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو کہ قابل فکر بات ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں جگر، کینسر، مصنوعی دل، کی پیوندکاری کے جدید علاج کیے جا رہے ہیں جن کی لاگت بھی صفر ہے۔ یہاں تک کہ اب کچھ دن پہلے امریکہ سے ایک خاتون بھی اپنے جگر کی پیوند کاری کے لئے سندھ کے گمبٹ میں کامیابی سے کروا چکی ہے۔ اس کے علاوہ پڑھائی کے معاملے میں یونیورسٹیاں کیڈٹ کالج وغیرہ کا قیام بھی خوش آئند ہے۔ کراچی اور بڑے شہروں کے لئے ائر کنڈیشن بسیں بھی منگوانے کا کام جاری ہے اس کے علاوہ ترقیاتی کام بھی تیزی سے جاری ہیں۔

2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اس میں پاکستان پیپلز پارٹی والوں کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور جب مخالفین پوچھتے کیا کام کیا تو کام کرنے کے باوجود عام لوگ جیالے یا ورکرز کے پاس ان کو دینے کے لئے کوئی ٹھوس جواب نہ ہوتا۔ اس دوران حقیقت میں دہشت گردی عروج پر تھی جس کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کو مشکلات رہی اور مشکل و سخت فیصلے کرنے پڑے۔ پاکستان کی کافی عوام اور سیکورٹی اداروں کے لوگ بھی اس دہشت گردی میں شہید ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اس دہشت گردی کے خلاف دیہی علاقوں میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا جن میں جو علاقے شامل تھے ان میں سوات، وزیرستان، مالا کنڈ، وغیرہ شامل تھے اور جو آپریشن شروع ہوئے ان میں آپریشن شیر دل، راہ حق، راہ راست، راہ نجات جیسے آپریشن شامل ہیں۔ ان آپریشن کرنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے سخت فیصلے کیے اور اپنے سیکورٹی اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ اسی دوران ان آپریشن کے خلاف مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے لوگوں نے مخالفت کی۔

جبکہ بعد میں نون لیگ کی حکومت میں بھی پیپلز پارٹی نے ان آپریشن کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے اس آپریشن کو جاری رکھتے ہوئے 2011 کے حملے کے بعد جب پاکستان کے فوجی جوان شہید ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی نے کسی بھی قسم کی پروا کیے بنا امریکہ کی نیٹو سپلائی بند کر دی۔ جو شاید 8 ماہ تک بند رہی اور امریکہ کی سرکاری سطح پر لکھ کر معافی مانگنے کے بعد اس کو کھولا گیا۔ نیٹو سپلائی بند کرنا سخت فیصلہ تھا جس سے امریکہ کو تاثر گیا کہ پاکستان کی عوام اور حکومت خود مختار ہے وہاں دوسری طرف نیٹو سپلائی کی مد میں ملنے والی رقم بھی اس عرصہ پاکستان کو وصول نہ ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر کافی برا اثر پڑا۔

اسی دوران 2010 میں آنے والے سیلاب نے معیشت کی کمر توڑی اور ملک مزید پریشانیوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ اس سیلاب میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ پاکستان کی لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ ہو گئیں، ہزاروں کلو میٹر سڑکیں اور ریلوے ٹریک تباہ ہو گئے۔ اس سیلاب کی وجہ سے اس وقت جو حساب لگایا گیا سیلاب اور معیشت کو 60 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان بھی ہوا۔

پھر 2011 میں کوہستان میں سیلاب آیا تو اس سے بھی دس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ ان دو سیلابوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ ان 5 سالوں میں سیلاب کی تابہ کاری کے ساتھ مخالفین میں مسلم لیگ نون نے بجائے حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے ان کو جگہ جگہ تنگ کیا۔ کبھی لوڈ شیڈنگ کا بہانہ بنا کر سڑکوں پر بیٹھی تو کبھی کالا کوٹ پہن کر عدالتوں میں گئی۔ ہر بہانہ دیکھا جس سے پاکستان پیپلز پارٹی کو بدنام کیا جائے، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا۔

جس وقت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں آئی اس سے پہلے 2006 میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6.18 تھا اور اسی دوران لال مسجد جیسا واقعہ رونما ہوتے ہی 2006۔ 2007 میں یہ گر کر 4.83 پر آ گئی۔ 2007۔ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے پہلے یہ گروتھ 1.71 پر آ گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی 1.71 گروتھ کو اٹھا کر 2013 تک 150 سے زائد اضافے کے ساتھ 4.4 پر لے آئے۔ اس کے بعد نون لیگ کی حکومت میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا۔

کیونکہ اس وقت بھی صدر زرداری کا ایک ہی نعرہ تھا ایڈ نہیں ٹریڈ۔ سٹاک مارکیٹ جو 2007 میں 4800 پوائنٹ پر تھی اس کو 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 18500 پوائنٹ پر پہنچائی۔ ان 5 سالوں میں 5600 میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کی گئی اور 578.24 میگا واٹ کے سستی بجلی بنانے کے نئے منصوبے کا آغاز بھی کیا گیا۔ یاد رہے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے وزراء اور لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے ابھی مشکلات ہیں لیکن 2018 تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔

جن میں قمر الزمان کائرہ صاحب ہیں جو اس وقت بڑی دلیل کے ساتھ عوام کو یہ بتایا کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ عوام کو کوئی نہ بتا سکا یہ وہ ہی منصوبے ہیں بعد میں جن کا کریڈٹ مسلم لیگ نے لینا شروع کر دیا اور کامیاب بھی رہی۔ صدر زرداری نے اپنے دور حکومت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بھی آغاز کیا جس سے غریب عورتوں کو کافی مدد ملی۔ اس سے 70 لاکھ سے زیادہ گھرانے مستفید ہوئے۔ وسیلہ حق پروگرام کے تحت تین لاکھ روپے تک کا بلا سود قرض بھی دیا۔

لاکھوں نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں فنی تربیت دی گئی اور ان کا 6000 ماہانہ وظیفہ بھی دیا گیا۔ اور یہ پروگرام آج بھی جاری ہیں اور کامیاب پروگرام میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ زراعت کے حوالے سے بھی کافی اقدامات کیے ۔ جن پر کسانوں کو کافی سہولیات ملیں۔ صدر زرداری کے دور حکومت میں پبلک پرائیویٹ سیکٹر میں 70 لاکھ کے قریب ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پینشن میں ریکارڈ اضافہ کیا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ 1973 کے آئین کی اصل شکل میں بحالی، صدارتی اختیارات کی پارلیمنٹ کو کامیابی سے منتقلی، مکمل صوبائی خودمختاری، اور 18 وزارتیں بھی صوبوں کے حوالے کی گئیں۔

ججوں کی تعیناتی کے لئے نظام کی تشکیل۔

آغاز حقوق بلوچستان پیکج کی ابتداء کی گئی ناراض بلوچ بھائیوں سے معافی مانگ کر ان کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کی گئی۔ صوبہ سرحد کو عوامی مطالبے پر خیبر پختونخوا کی حیثیت دی گئی۔ گلگت بلتستان کو صوبے کی حیثیت دی گئی۔ فاٹا میں پرانے نظام کے خاتمے کی منظوری بھی صدر زرداری کے دور میں دی گئی۔ یہ سب کام جو بتائے جا رہے ہیں ان کو صرف سیاسی اور ایک جمہوریت پسند لوگ ہی جان سکتے ہیں کہ ان کی ویلیو کیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا صدر زرداری کی سربراہی میں ایک بہت اہم اور احسن کام پاکستان کا چین کے ساتھ دوستی کی تجدید ہے کیونکہ پچھلے کافی عرصہ سے چین کو جان بوجھ کر اگنور کیا جا رہا تھا۔ گوادر بندرگاہ کو ہانگ کانگ سے لے کر دوست ملک چین کے حوالے کرنے کا معاہدہ اہم کام ہے جس کے تحت خنجراب سے لے کر گوادر شاہراہوں کی تعمیر ہونا تھی۔ یہ منصوبہ آج سی پیک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صدر زرداری کے اس اقدام پر سخت مخالفین نے بھی صدر زرداری کی تعریف کی۔

اور یہ کریڈٹ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کا جس کو بعد میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے اپنے سر لینے کی کوشش کی۔ دوسری طرف پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ شروع کیا جس کی تکمیل 2014 میں ہونی تھی لیکن مسلم لیگ نون نے امریکہ کے دباؤ کے تحت یہ منصوبہ روک دیا۔

اسکے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈھیروں کارنامے ہیں جن کو عوام تک بتانے کی اشد ضرورت تھی اور شاید ابھی بھی ہے اس کے علاوہ زراعت کے ساتھ ہیومن ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں بیش بہا کام کیے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی ان سب منصوبوں کے باوجود 2013 کے الیکشن میں کوئی فائدہ نہ اٹھا پائی کیونکہ اس نے ان کاموں کی صفر تشہیر کی اور پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کی مقامی قیادت نے بھی اپنا کوئی خاص کردار ادا نہ کیا۔

صدر زرداری نے اپنے دور حکومت میں کسی صوبے کے فنڈ نہ روکے کسی ایم این اے نے اس حکومت میں یہ نہیں کہا کہ اس کے حلقے کے فنڈ روکے گئے۔ صدر زرداری نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام سیاسی حریفوں کو بھی معاف کیا جنہوں نے ان پر ہمیشہ ظلم کیا۔ صدر زرداری نے اپنے دور حکومت میں پنجاب پر بہت شفقت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں صرف اس وجہ سے ناکامیوں کی طرف گئی کیونکہ یہاں کی مقامی قیادت نے اپنی پارٹی کے ساتھ وفادار رہنا مناسب نہ سمجھا۔

ممبر اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ہر شہر کے عہدے داروں نے صدر زرداری سے مکمل مفاد حاصل کیے جن کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ انہوں نے پنجاب کے عہدے داروں کا ہر وہ کام کیا جو انہوں نے کہا اس کے علاوہ معذور لوگوں کے لئے ہزاروں کی تعداد میں وہیل چیئرز، غریب عورتوں کے لئے سلائی مشینیں، لوگوں کے لئے سائیکل، رکشہ جیسی چیزیں دیں۔ لیکن بیشتر عہدے دار یہ فائدے یا تو اپنے رشتے داروں ملازموں کو دیتے رہے یا انہوں نے سامان کو بازار میں بیچنے کو ترجیح دی۔

ایسے عہدے دار پورے پانچ سال اپنے فائدے اٹھانے میں کامیاب رہے اور ممبرز اسمبلی جنہوں نے 5 سال بعد پارٹی چھوڑی ان ممبرز اسمبلی نے بھی مکمل فنڈ اور حلقے کے لوگوں کے لئے نوکریاں لیں اور 5 سال اپنے حلقے میں اپنی ریپوٹیشن خراب ہونے پر پارٹی سے راستہ الگ کر لیا اور یہ کہا کہ آصف علی زرداری ملک کو کھا گیا؟ یہ جملہ ہر پارٹی چھوڑنے والے نے عوام میں جا کر کہا لیکن آصف علی زرداری کا بڑا پن ہے کہ ان سے حساب لینا چاہتے تو لے سکتے تھے لیکن انہوں نے سب کو آزاد کر دیا۔

پنجاب میں پارٹی کی تباہی کا ذمہ دار وہ عہدے دار ہیں جو آج بھی پارٹی سے مکمل طور پر ذاتی مفاد لے رہا ہے لیکن پارٹی کے لئے اس کا کام بالکل صفر ہے۔ پنجاب میں کچھ لوگ شاید اعلی قیادت کو بلیک میل کرتے ہیں یا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے بنا پارٹی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ شاید اسی وجہ سے بار بار قیادت ایسے لوگوں کے دھوکے میں آجاتی ہے۔ شہروں کی تنظیموں نے تنخواہ پر ملازم رکھے ہوئے ہیں جو ان سے اپنا سوشل میڈیا چلواتے ہیں اور وقت آنے پر اعلی قیادت کے سامنے اپنے حق میں نعرے لگواتے ہیں ایسے لوگ پارٹی پر مسلسل بوجھ ہیں اور کچھ نہیں۔

اب لوگوں کی توجہ کا مرکز چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں تو ان کا کہنا اور سوچنا ہے کہ کامیاب خارجہ پالیسی چلانے والا شخص اپنی پارٹی کو بہتری کی طرف کیوں نہیں لا پا رہا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کے بارے میں اب پارٹی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا! چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو چاہیے کہ اپنے ہم عمر لوگوں کو پنجاب میں موقع دیں۔ ان کو آگے لے کر آئیں۔ پنجاب فتح کرنے کے لئے لاہور فتح کرنا بہت ضروری ہے اور یہ ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ لاہور کی جو یوتھ نواز شریف اور ان کے خاندان سے نفرت کرتی ہے وہ عمران خان کی طرف گئی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو چاہیے لاہور کی یونیورسٹیوں اور کالجز میں جا کر ان سے خطاب کریں اور اس یوتھ کو آگے لانے کے لئے کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments