کالا پانی: ہندوستان کی جنگ آزادی کی وہ ’قربان گاہ‘ جہاں ہر قیدی موت کی خواہش کرتا تھا

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق


وہ کہانی تو آپ کو یاد ہو گی کہ سنہ 1857 میں انگریز انتظامیہ کے خلاف پنجاب میں مزاحمت کرنے والے احمد خان کھرل کی جان لے لی گئی تو ان کے کچھ ساتھیوں کو پھانسی دی گئی، کچھ توپوں کا نشانہ بنے اور باقی ’کالا پانی‘ بھیجے گئے۔

’کالا پانی‘ کی ترکیب برصغیر میں عام طور پر دور دراز مقام کے لیے استعمال ہوتی آئی ہے۔ محاورے میں طویل فاصلے کے لیے ’کالے کوس‘ جیسے الفاظ عرصے سے رائج ہیں۔ قدیم ہندوستانی تصورات تھے کہ وطن سے دور سمندر پار کرتے ہوئے کوئی بھی شخص ’مقدس گنگا‘ سے الگ ہونے کے باعث اپنی ذات سے محروم ہو جائے گا اور وہ سماج سے نکل جائے گا۔

سیاسی زبان میں کالا پانی سے مراد بحر ہند میں وہ جزیرے ہیں جہاں انگریز حکمران قیدیوں کو جلا وطن کرتے تھے۔ کلکتہ سے 780 میل جنوب میں چھوٹے اور بڑے ان تقریباً ایک ہزار جزیروں کا مجموعہ جزائر ’انڈمان نکوبار‘ کہلاتا تھا اور دارالحکومت کا نام ’پورٹ بلیئر‘ رکھا گیا۔

تاریخ دان اور محقق وسیم احمد سعید اپنی تحقیق ’کالا پانی: گمنام مجاہدین جنگ آزادی 1857‘ میں لکھتے ہیں کہ ’انگریزوں نے یہاں اپنا پرچم لہرانے کے علاوہ قیدیوں کی بستی اور نو آبادیات کے لیے سنہ 1789 میں پہلی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ بعد میں سنہ 1857 کا ہنگامہ برپا ہوا تو پھانسیوں، گولیوں اور توپ سے انقلابیوں کی جانیں لی گئیں۔ عمر قید بھی دی گئی مگر کسی دور دراز مقام پر ایک تعزیری بستی یا قیدیوں کی کالونی کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ انگریزوں کے ’باغی‘ پھر سے بغاوت یا مزاحمت نہ کر سکیں۔ نظر انتخاب جزائر انڈمان ہی پر گئی۔‘

یہ جزائر کیچڑ سے بھرے تھے۔ یہاں مچھر، خطرناک سانپ بچھووں، جونکوں اور بے شمار اقسام کے زہریلے کیڑوں اور چھپکلیوں کی بھرمار تھی۔

فوجی ڈاکٹر اور آگرہ جیل کے وارڈن جے پی واکر اور جیلر ڈیوڈ بیری کی نگرانی میں ’باغیوں‘ کو لے کر پہلا قافلہ 10 مارچ سنہ 1858 کو ایک چھوٹے جنگی جہاز میں وہاں پہنچا۔ کھرل کے ساتھی ممکنہ طور پر اسی جہازمیں لے جائے گئے ہوں گے۔ پھر کراچی سے مزید 733 قیدی یہاں لائے گئے اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔

سعید لکھتے ہیں کہ ’کالا پانی ایک ایسا قید خانہ تھا جس کے درودیوار کا بھی وجود نہ تھا۔ اگر چار دیواری یا حدود کی بات کیجیے تو ساحل سمندر تھا اور اگر فصیل کی بات کیجیے تب بھی ٹھاٹھیں مارتا ہوا ناقابل عبور سمندر ہی تھا۔ قیدی قید ہونے کے باوجود آزاد تھے لیکن فرار کے سارے راستے مسدود (بند) اور فضائیں مسموم (زہریلی)۔‘

’جب قیدیوں کا پہلا قافلہ وہاں پہنچا تو خوش آمدید کہنے کو صرف پتھریلی و سنگلاخ زمین، گھنے اور سر بفلک درختوں والے ایسے جنگل تھے، جن سے سورج کی کرنیں چھن کر بھی زمین بوس نہیں ہو سکتی تھیں۔ کھلا نیلگوں آسمان، ناموافق اور زہریلی آب و ہوا، پانی کی زبردست قلت اور دشمن قبائل۔‘

دلی کے ان محقق کے مطابق انڈمان ہی کو ہندوستان کی جنگ آزادی کی قربان گاہ قرار دیا جانا چاہیے۔

پورٹ بلیئر

کلکتہ سے 780 میل جنوب میں تقریباً ایک ہزار جزیروں کا مجموعہ جزائر انڈمان نکوبار کہلاتا تھا اور دارالحکومت کا نام پورٹ بلیئر رکھا گیا۔

’فرنگیوں، ان کے مصاحبین، ملازمین اور عملے کے دیگر افراد کے لیے تو خیمے نصب ہو گئے لیکن قیدیوں کو جھگی، چھونپڑیاں اور اصطبل نما احاطے بھی عرصے بعد ہی نصیب ہو سکے۔ جہاں نہ کوئی فرش تھا نہ رہائش کی اشد ضروریات کا کوئی سامان۔ جھونپڑیوں کا یہ حال تھا کہ بارش کے دوران اندر اور باہر یکساں کیفیت ہوا کرتی۔ سارا دن قید بامشقت کی وجہ سے بے پناہ اور ناقابل تصور محنت کرنا، ظلم وتشدد کا شکار رہنا اور پھر بدترین غذا پر قناعت کر کے مسلسل موت کے لیے زندہ رہنا ہی قیدیوں کی قسمت تھی جس کی وجہ سے ہر قیدی موت ہی کا متمنی رہتا تھا کیونکہ مصائب سے نجات کا واحد ذریعہ موت ہی تھی۔‘

عالمِ دین، غالب کے ہم عصر اور دوست علامہ فضلِ حق خیر آبادی سنہ 1857 کی جنگ آزادی کے پیش رو تھے۔ لکھاری ثاقب سلیم کے مطابق انھوں نے انگریزوں کے خلاف جامع مسجد دلی میں ’جہاد‘ کا فتویٰ دیا۔

خیر آبادی کو 4 مارچ سنہ 1859 کو قتل پر اکسانے اور بغاوت کے الزام میں بطور شاہی قیدی تا زندگی حبس (قید) بعبور دریائے شور (کالا پانی) اور تمام جائیداد کی ضبطی کی سزا سنائی گئی۔

خیر آبادی نے اپنی کتاب ’الثورۃ الہندیہ‘ میں قید کا احوال لکھا۔ نیچے دیے گئے چند جملے اسی کتاب سے ترجمہ ہیں:

’ہر کوٹھری پر چھپر تھا جس میں رنج و مرض بھرا ہوا تھا۔ ہوا بدبوداراور بیماریوں کا مخزن تھی۔ بیماریاں بے شمار خارش و قوبا (وہ مرض جس سے بدن کی کھال پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے) عام تھی۔ بیمار کے علاج، تندرست کے بقائے صحت اور زخم کے اندمال کی کوئی صورت نہ تھی۔ دنیا کی کوئی مصیبت یہاں کی المناک مصیبتوں پر قیاس نہیں کی جا سکتی۔ جب کوئی ان میں سے مر جاتا ہے تو خاکروب اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتا ہوا غسل و کفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریگ کے تودے میں دبا دیتا ہے۔ نہ اس کی قبر کھودی جاتی ہے، نہ نمازجنازہ پڑھی جاتی ہے۔‘

گھنے جنگل میں زنجیروں میں جکڑے قیدیوں کو جزائر راس، ہیولاک اور چتھم پر مشقت کا حکم دیا گیا۔ غیر آباد جزیرے کے جنگلات کی صفائی کی مشقت خیر آبادی اور ان کے ساتھیوں کو کرنا ہوتی تھی۔ رات میں ان غیر آباد علاقوں میں بھی زنجیروں میں قید کر کے رکھا جاتا تھا۔

خیر آبادی کہتے ہیں کہ ’اپنی آنکھوں سے دوسرے قیدیوں کو بیمار ہوتے ہوئے بھی بیڑیاں پہنے اور زنجیروں سے کھینچے جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ ایک سخت، تیز اور غلیظ انسان تکلیفوں پر تکلیفیں پہنچاتا اور بھوکے پیاسے پر بھی رحم نہیں کھاتا۔ صبح و شام اس طرح بسر ہوتی ہے کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا ہے۔ روح کو تحلیل کر دینے والے درد و تکلیف کے ساتھ زخموں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔وہ وقت دور نہیں جب یہ پھنسیاں مجھے ہلاکت کے قریب پہنچا دیں۔‘

فضل حق خیرآبادی نے انڈمان میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

جعفر تھانیسری ریاست ہریانہ کے علاقے تھانیسر سے تھے۔ پہلے سزائے موت اور پھر کالا پانی کی سزا ہوئی۔ اپنی کتاب ’کالا پانی المعروف تواریخ عجائب‘ میں 11 جنوری سنہ 1866 کو جزائر انڈمان کے ساحل پر پہنچنے کا منظر یوں بتاتے ہیں:

’دور سے سمندر کے کنارے کالے پتھر ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے بھینسوں کے جھنڈ کے جھنڈ پانی میں پھر رہے ہوں۔‘

تب تک وہ علاقہ نسبتاً صاف ہو چکا تھا۔ قیدی جنگلات کی صفائی کے ساتھ ساتھ نئے درخت بھی لگا رہے تھے۔ اس سے پہلے انگریز انتظامیہ نے خواتین قیدیوں کو بھی وہاں بھیجنا شروع کر دیا تھا۔

خواتین قیدی اور شادی

حبیب منظر اور اشفاق علی کی تحقیق ہے کہ ابتدائی دور میں برطانوی انتظامیہ، شادی اور پھر بچوں کی پیدائش کو قیدیوں کی بحالی اور سدھار کا ایک ذریعہ سمجھتی تھی۔

مدراس، بنگال، بمبئی، شمال مغربی صوبہ، اودھ اور پنجاب وغیرہ سے ایسی خواتین کو بھی انڈمان بھیجا گیا جو سزا کے کچھ سال برطانوی ہندوستان کی جیلوں میں گزار چکی تھیں۔

پورٹ بلیئر کے سپرنٹنڈنٹ نے گورنمنٹ آف انڈیا کو خط لکھا کہ ’پورٹ بلیئر میں خواتین قیدیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور اگر پچھلے تین سال میں بھیجی جانے والی تعداد سے زیادہ خواتین قیدیوں کو نہ بھیجا گیا تو نہ پانچ سال کی سزا بھگت لینے کے بعد ان کی شادی کا نظام جاری رکھا جا سکے گا اور نہ کاتنے، بننے کے وہ کام ہو سکیں گے جن سے حکومت کو بہت زیادہ بچت ہوتی ہے۔‘

سیلف سپورٹر قیدی اگر شادی کرنا چاہتے تو وہ ایک مخصوص دن خواتین قیدیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اگر وہ راضی ہوتی تو انتظامیہ ان کی شادی کروا دیتی اور اسے قانونی شکل دے دیتی۔ سیلف سپورٹنگ جوڑے کو ایک سیلف سپورٹنگ گاوں میں رہنے کو جگہ دے دی جاتی۔

تاہم خواتین قیدیوں کے انڈمان بھجوانے کا سلسلہ چند برس ہی چل سکا۔ سنہ 1897 میں 2447 سیلف سپورٹرز میں 363 خواتین تھیں۔ بیماری اور موت کی شرح خواتین میں بھی زیادہ تھی۔

تھانیسری نے جن کشمیری خاتون سے شادی کی وہ بن بیاہی ماں بننے اور بچے کو مارنے کے جرم میں سزا پا رہی تھیں۔ تھانیسری سترہ سال دس ماہ کے بعد انڈمان سے 9 نومبر سنہ 1883 کو ہندوستان روانہ ہوئے۔ وہ تب وہیں تھے جب سنہ 1872 میں پورٹ بلیئر کے دورے کے دوران وائسرائے آف انڈیا لارڈ میو کو ایک قیدی نے قتل کر دیا تھا۔

فرار کی کوشش پر پھانسیاں

دینا پور کی چھاؤنی میں بغاوت کے مجرم قیدی نارائن پہلے شخص تھے جنھوں نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ انھیں پکڑا گیا، ڈاکٹر واکر کے سامنے لایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔

’تاریخ انڈمان جیل‘ میں لکھا ہے کہ مارچ سنہ 1868 میں 238 قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی۔ اپریل تک وہ سب پکڑے گئے۔ ایک نے خود کشی کر لی اور واکر نے 87 کو پھانسی دینے کا حکم دیا۔

جب پھانسیوں کی خبر کلکتہ پہنچی تو کونسل کے صدر جے پی گرانٹ نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک خط لکھا کہ ’میں پھانسی کے جواز کے طور پر ان کے [واکر کے] خیالات میں سے کسی کو تسلیم نہیں کر سکتا۔‘

لیکن واکر سرکاری مذمت سے بچ گئے اور گرانٹ کے حکم پر ایسا بندوبست کیا گیا کہ قیدی دوبارہ کبھی بھاگنے اور ’عوام کو اکسانے‘ کے قابل نہ ہوں۔

تاہم قیدی مہتاب اور چیتن 26 مارچ 1872 کو فرار ہو ہی گئے۔ خلیج بنگال میں 750 میل سفر خود ساختہ رافٹس پر کیا۔ ایک برطانوی بحری جہاز کے عملے کو انھوں نے قائل کیا کہ وہ تباہ ہونے والی کشتی کے ماہی گیر ہیں۔ آخر کار انھیں لندن میں سٹرینجرز ہوم فار ایشیاٹکس میں چھوڑ دیا گیا۔

دونوں کو کھلایا گیا، کپڑے پہنائے گئے اور ایک بستر دیا گیا لیکن جب وہ سو رہے تھے تو مالک کرنل ہیوز نے ان کی تصاویر کھینچیں اور حکومت کو بھجوا دیں۔ ایک صبح جب مہتاب اور چیتن بیدار ہوئے تو اپنے آپ کو بیڑیوں میں جکڑا پایا، پھر کچھ دن بعد انھیں ہندوستان جانے والے جہاز پر سوار کر دیا گیا۔

انیسویں صدی کے آخر تک تحریک آزادی نے زور پکڑ لیا۔ یوں انڈمان بھیجے جانے والے قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور ایک اعلیٰ حفاظتی جیل کی ضرورت محسوس کی گئی۔

قیدیوں ہی کو جیل تعمیرکرنا پڑی

اگست سنہ 1889 سے برطانوی راج میں ہوم سیکرٹری چارلس جیمز لائل کو پورٹ بلیئر میں تعزیری آبادی پر تحقیق کا کام بھی سونپا گیا۔(یہ وہی لائل ہیں جن کے نام پر 1890 میں لائل پور کی بنیاد پڑی اور سنہ 1979 میں اسے فیصل آباد کا نام دیا گیا)

لائل اور برطانوی انتظامیہ کے ایک سرجن اے ایس لیتھ برج نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جزائر انڈمان بھیجنے کی سزا اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے اور یہ کہ مجرموں نے ہندوستانی جیلوں میں قید رہنے کے بجائے وہاں جانے کو ترجیح دی۔

لائل اور لیتھ برج نے سفارش کی کہ جلاوطنی کی سزا میں ایک ’تعزیزی مرحلہ‘ ہونا چاہیے، جس کے تحت قیدیوں کو آمد پر سخت سلوک کا نشانہ بنایا جائے۔

ایلیسن باشفورڈ اور کیرولین سٹرینج کے مطابق اس کا نتیجہ ’سیلولر جیل‘ کی تعمیر تھا، جس کو ’دور دراز تعزیری مقام کے اندر اخراج اور تنہائی کی جگہ‘ کہا گیا۔

سنہ 1896 میں سیلولر جیل کی تعمیرکا آغاز ہوا۔ برما سے اینٹیں آئیں اور طرفہ تماشا دیکھیے کہ تعمیر انھی قیدیوں کو کرنا پڑی، جنھیں خود اس میں قید ہونا تھا۔

پانچ لاکھ سے زائد روپوں کے خرچ سے سیلولر جیل کی تعمیر سنہ 1906 میں مکمل ہوئی۔ جیل کے درمیان ایک ٹاور سے قیدیوں کی سخت نگرانی کی جاتی، جن کو ساڑھے تیرہ فٹ لمبے اور سات فٹ چوڑے سات سو کمروں میں رکھا گیا تھا۔

جیل کے کمروں میں روشن دان کے لیے گنجائش پیدا کی گئی تو کچھ اس انداز سے کہ اس سے ہوا بھی نہ آ سکے۔ پیشاب اور پاخانے کے لیے صبح دوپہر اور شام کے اوقات مقرر کیے گئے۔ اس دوران کسی کو حاجت ہو تو اسے سپاہیوں کے ڈنڈے کھانا پڑتے۔ پھانسی گھر بھی بنایا گیا تاکہ انگریز جسے چاہیں ٹھکانے لگا سکیں۔

قیدیوں کے ذہنی تشدد کے لیے جیلر کوٹھریوں کو بند کر کے چابی اندر پھینک دیتے تھے تاہم تالے اس انداز سے بنائے گئے تھے کہ قیدی جیل کے اندر سے تالے تک نہ پہنچ سکیں۔

جیل کے اندر ہر کوٹھری میں صرف ایک لکڑی کی چارپائی، ایک ایلومینیم کی پلیٹ، دو برتن، ایک پانی پینے کے لیے اور ایک رفع حاجت کے لیے اور ایک کمبل۔ اکثر اوقات قیدیوں کے لیے ایک چھوٹا سا برتن کافی نہیں ہوتا تھا اور اس لیے انھیں رفع حاجت کے لیے کوٹھری کے ایک کونے کا استعمال کرنا اور پھر انھیں اپنی ہی گندگی کے قریب لیٹنا پڑتا تھا۔

قید تنہائی نافذ کی گئی کیونکہ برطانوی نوآبادیاتی حکومت یقینی بنانا چاہتی تھی کہ سیاسی قیدیوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے۔

سیاسی قیدیوں میں فضل حق خیر آبادی، یوگیندر شکلا، بٹوکیشور دت، بابا راؤ ساورکر، ونائک دامودر (ویر)ساورکر، سچندر ناتھ سانیال، ہرے کرشنا کونار، بھائی پرمانند، سوہن سنگھ، سبودھ رائے اور تریلوکیا ناتھ چکرورتی، محمود حسن دیو بندی، حسین احمد مدنی اور جعفر تھانیسری کے نام نمایاں ملتے ہیں۔

موت کے منھ میں

1911-1921 کے درمیان جیل میں قید دامودر ساورکر نے اپنی رہائی کے بعد ان خوفناک حالات کے بارے میں لکھا جن کا انھیں سامنا کرنا پڑا۔

ان کے مطابق سخت گیر جیلر ڈیوڈ بیری خود کو ’پورٹ بلیئر کا خدا‘ کہلاتے۔ ساورکر نے لکھا کہ جیل کے دروازے بند ہوتے ہی انھیں لگا کہ وہ ’موت کے منھ میں داخل ہو گئے ہیں۔‘

قیدی ایک دوسرے سے ایسے الگ رکھے جاتے کہ ساورکر کو تین برس بعد پتا چلا کہ ان کے بڑے بھائی بھی اسی جیل میں قید ہیں۔

برطانوی روزنامے دی گارڈین کی سنہ 2001 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ’برطانوی راج نے ہندوستانی مخالفین اور بغاوت کرنے والوں کو ایک ایسے ’تجربہ‘ کے تحت ایک دور دراز نوآبادیاتی جزیرے میں بھیجا جس میں تشدد، طبی آزمائشیں (دواؤں کے فارماسیوٹیکل ٹرائلز، جن میں بہت سے لوگ بیمار ہوئے اور جان سے گئے)، جبری مشقت اور بہت سے لوگوں کے لیے موت شامل تھی۔‘

اخبار کے لیے کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی نے سرکاری ریکارڈ چھانا اور جیل سے بچ جانے والوں سے بات کی۔

سیلولر جیل میں ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے قیدیوں، جن میں بعد میں دیگر جرائم میں سزا پانے والے بھی شامل تھے، کو سخت اذیتیں دی جاتی تھیں۔

سنہ 1909 اور 1931 کے درمیان سیلولر جیل کے جیلر ڈیوڈ بیری کو نئے نئے انداز میں سزا دینے کا ماہر مانا جاتا تھا۔ ڈیوڈ بیری کا کہنا تھا کہ ان کی قسمت میں یہ لکھا ہے کہ وہ اپنی ملکہ کے دشمنوں کو بجائے پھانسی دینے یا گولی مارنے کے تشدد اور شرمناک مظالم ہی سے ختم کر دیں گے۔ ان میں چکی پیسنا، تیل نکالنا، پتھر توڑنا، لکڑی کاٹنا، ایک ایک ہفتے تک ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں کھڑے رہنا، تنہائی، چار چار دن تک بھوکے رکھنا وغیرہ شامل تھیں۔

تیل نکالنے کا کام اور بھی درد ناک تھا۔ عموماً یہاں سانس لینا بہت دشوار ہوتا تھا، زبان سوکھ جاتی تھی، دماغ سن ہو جاتے تھے، ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔

لکھاری رابن ولسن نے ایک بنگالی قیدی سشیل داس گپتا کے بیٹے سے ملاقات کی۔ سشیل 26 سال کے تھے جب انھیں برطانوی راج سے آزادی چاہنے پر گرفتار کیا گیا اور 17 اگست 1932 کو جزائر انڈمان بھیج دیا گیا۔

گپتا کے بیٹے کے مطابق ’شدید دھوپ میں چھ گھنٹے کی سخت محنت کے بعد، گپتا کے ہاتھ اپنے ہی خون میں رنگے ہوتے۔ ان کا جسم ریشے بنانے کا دن کا کوٹا پورا کرنے کے لیے ناریل کوٹتے کوٹتے تھک جاتا۔ ان کا گلا سوکھ کر کانٹا ہو چکا ہوتا۔ سست روی پر بھیانک سزائیں منتظر رہتیں۔ ان کے بیت الخلا کے وقفوں پر بھی سختی کی جاتی۔ کسی بھی قیدی کو رفع حاجت کے لیے گارڈ کی اجازت تک گھنٹوں رکنا پڑتا۔ قیدیوں سے غلاموں کی طرح کام لیا جاتا۔ کچھ پاگل ہو جاتے، دوسرے خود کشی پر مجبور ہو جاتے۔‘

قیدی اندو بھوشن رائے نے تیل خانے کی نہ تھمنے والی مشقت سے تنگ آ کر پھٹے ہوئے کُرتے کے ساتھ خود کو پھانسی پر لٹکا لیا۔ قیدی تیل کی چکیوں کے زندہ جہنم میں ہوتے لیکن بیری اور دیگر برطانوی اہلکار راس جزیرے پر پانی کے پار خوشحالی میں رہتے تھے۔ ان کے انتظامی ہیڈ کوارٹر کی دیگر عمارتوں میں ان کا اپنا ٹینس کورٹ، ایک بیکری، ایک سوئمنگ پول اور افسران کے لیے کلب ہاؤس تھا۔

قیدی اُلاسکر دت پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ پاگل ہو گئے۔ انھیں جزیرے کے ایک علاقے ہڈو میں پاگل خانے میں 14 سال تک رکھا گیا۔ جب دت کے والد نے وائسرائے ہند کو بار بار خطوط لکھے اور ان سے پوچھا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا تو کوئی جواب نہیں ملا۔ مزید آٹھ خطوط کے بعد آخر کار انھیں انڈمان کے جزیرے کے چیف کمشنر کا ایک خط ملا، جس میں لکھا تھا کہ ’مریض کا پاگل پن ملیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہے۔ اس کی موجودہ حالت ٹھیک ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

1857 کی ’جنگِ آزادی‘: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھا

تاتیا ٹوپے: انگریزوں کے چھکے چھڑانے والے ’باغی‘ جن کی موت آج بھی ایک معمہ ہے

چپاتیوں پر ہونے والی ’خفیہ پیغام رسانی‘ جس نے برطانوی راج کی نیندیں اڑا دیں

قیدیوں کی بغاوت

ایسے ہی مظالم پر قیدیوں نے بغاوت کر دی۔ ایک بار 1930 کی دہائی کے اوائل میں سیلولر جیل کے کچھ قیدیوں نے سخت سلوک کے خلاف احتجاج کے لیے بھوک ہڑتال کی۔

مئی 1933 میں قیدیوں کی بھوک ہڑتال نے جیل حکام کی توجہ حاصل کی۔ کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی کے مطابق حکومت ہند کے محکمہ داخلہ کے ریکارڈ میں سے انھوں نے صوبائی گورنروں اور چیف کمشنروں کو دیے گئے احکامات میں انگریز انتظامیہ کا ردعمل دیکھا۔

’بہت خفیہ: بھوک ہڑتال کرنے والے سکیورٹی قیدیوں کے بارے میں، واقعات کو رپورٹ ہونے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے، جن قیدیوں کو زندہ رکھنا ضروری ہے انھیں کوئی رعایت نہ دی جائے۔ انھیں روکنے کے دستی طریقے بہترین ہیں اور اگر وہ مزاحمت کریں تو پھر میکانیکی۔‘

33 قیدیوں نے اپنے علاج کے لیے احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی تھی۔ ان میں بھگت سنگھ کے ساتھی مہاویر سنگھ (لاہور سازش کیس)، موہن کشور ناماداس اور موہت موئترا (آرمز ایکٹ کیس میں سزا یافتہ) بھی شامل تھے۔

آروی آرمورتی کے مطابق ان تینوں کی موت زبردستی کھانا کھلانے کی وجہ سے ہوئی۔ زبردستی کھلانے کی کوشش میں ان کے پھیپھڑوں میں دودھ چلا گیا، جس کے نتیجے میں انھیں نمونیا ہو گیا اور اسی سے ان کی موت واقع ہوئی۔ ان کی لاشوں کو پتھروں سے باندھ کر جزیرے کے آس پاس کے پانیوں میں ڈبو دیا گیا ۔

سنہ 1937 اور 1938 میں بھی بھوک ہڑتالیں ہوئیں۔ اس کے بعد موہن داس گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور نے مداخلت کی۔ حکومت نے 1937-38 میں سیلولر جیل سے سیاسی قیدیوں کو وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

جاپان کا انڈمان کے جزیروں پر قبضہ

سنہ 1941 میں ایک زبردست زلزلہ آیا، سونامی پیدا ہوا ہو گا مگر جانی اور مالی نقصان کے اعدادوشماردستیاب نہیں۔

جاپان نے مارچ 1942 میں انڈمان کے جزیروں پر قبضہ کر لیا۔ سیلولر جیل میں اس کے بعد پکڑے گئے برطانوی، برطانیہ کے مشتبہ ہندوستانی حامیوں اور بعد میں انڈین انڈیپنڈنس لیگ کے ارکان کو قید کیا گیا۔

این اقبال سنگھ لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو وہاں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مار دیا گیا۔

وسیم احمد سعید لکھتے ہیں کہ 30 جنوری 1944 کو جاپانیوں نے 44 مقامی قیدیوں کو سیلولر جیل سے نکالا اور ٹرکوں میں بھر کر ہمفرے گنج کے مقام پر لے گئے جہاں ایک خندق پہلے ہی کھودی جا چکی تھی۔ ان لوگوں کو انگریزوں کے لیے جاسوسی کے شبہے میں گولیوں سے بھون کر ان کی لاشوں کو ٹھوکر مار کر اس خندق میں پھینک دیا گیا اور اوپر سے مٹی اور کوڑا کرکٹ ڈال کر خندق کو پاٹ دیا گیا۔

خوراک کی قلت بڑھتی گئی، اس لیے جاپانیوں نے بوڑھے اور ایسے قیدیوں سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جو کام کرنے کے قابل نہ تھے۔ ٖ

ڈیوڈ ملر کے مطابق 13 اگست 1945 کو 300 ہندوستانیوں کو تین کشتیوں پر لاد کر ایک غیر آباد جزیرے پر لے جایا گیا۔ جب کشتیاں ساحل سمندر سے کئی سو گز دور تھیں تو ان قیدیوں کو سمندر میں کودنے پر مجبور کیا گیا۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی ڈوب گئے اور جو ساحل تک پہنچ پائے وہ بھوک سے مر گئے۔ جب برطانوی امدادی کارکن چھ ہفتے بعد پہنچے تو صرف 11 قیدی زندہ تھے۔

اگلے دن 800 قیدیوں کو ایک اور غیر آباد جزیرے پر لے جایا گیا جہاں انھیں ساحل پر چھوڑ دیا گیا۔ 19 جاپانی فوجی ساحل پر آئے اور ان میں سے ہر ایک کو گولی مار دی یا بونٹ مار دیا۔ بعد میں فوجی دستے تمام لاشوں کو جلانے اور دفنانے آئے۔

اکتوبر 1945 میں جاپانیوں نے متحدہ فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور جزائر دوبارہ انگریزوں کے قبضے میں آ گئے۔ اس بار مظلومین میں جاپانی بھی شامل تھے۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے ایک ماہ بعد انگریزوں نے 7 اکتوبر 1945 کو یہ تعزیری بستی ختم کر دی اور قیدیوں کو ہندوستان کے مختلف مقامات کی جیلوں میں منتقل کردیا۔

ریکارڈ کے مطابق تقریباً 80 ہزار ہندوستانیوں کو سنہ 1860 سے سزا کے طور پر انڈمان بھیجا گیا۔ آزادی پسندوں کی اکثریت بنگال، پنجاب اور مہاراشٹر سے تھی۔ وہ زیادہ تر ہندو، سکھ اور مسلمان تھے اور تمام ذاتوں اور برادریوں سے تھے۔

سنہ 1957 میں جنگ آزادی کی یاد میں انڈیا اور پاکستان میں 100 سالہ تقریبات ہوئیں۔اس موقع پر مزاحمتی شاعر ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ ’برطانیہ کو جنگ آزادی کے قتل عام پر نہ سہی لیکن کالے پانی کے مظالم پر برصغیر کے لوگوں سے ضرور معافی مانگنا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments