ڈمنشیا: برطانوی ہسپتالوں میں ڈمنشیا کے مریضوں کی حالت زار کی افسوسناک کہانیاں

دیتشیانے نیویاناجم اور اما فورڈ - بی بی سی فائل آن 4


ڈیمنشیا
جب ہیتھر لارنس ہسپتال میں اپنی 90 برس کی والدہ سے ملنے گئیں تو وہ اُن حالات کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں جن میں اُن کی بزرگ والدہ کو رکھا گیا تھا۔

ہیتھر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری والدہ کا بستر پیشاب میں بھیگا ہوا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور انھوں نے زیر جامہ نہیں پہن رکھا تھا۔ اس کمرے میں مرد اور خواتین دونوں ہی موجود تھے۔‘

ان کے مطابق ’میرا مطلب ہے کہ وہاں اور بھی لوگ موجود تھے جو گھومتے پھرتے میری والدہ کو کھلے دروازے کے پیچھے دیکھ سکتے تھے، کیونکہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میری والدہ ایک خوددار خاتون تھیں اور وہ بالکل بھی نہیں چاہ سکتی تھیں کہ کوئی انھیں ایسے حالات میں دیکھے۔‘

ہیتھر کی 90 سالہ والدہ وائلٹ ڈمنشیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ انھیں مئی 2021 میں مانچسٹر شہر کے ایک جنرل ہسپتال میں اس وقت داخل کروایا گیا تھا جب وہ اچانک سے گِر گئی تھیں۔

ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد اُن کی صحت بگڑ گئی اور وہ مختلف طبی پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے چند ہفتوں بعد فوت ہو گئیں۔

مرض

’میں واقعی نہیں جانتی کہ اس بارے میں کیسے بات کروں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن (والدہ) سے اُن کا وقار چھین لیا گیا۔ اور یہ ڈمنشیا کے بہت سے مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بس وہ شمار کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‘

جنرل ہسپتال نے ہیتھر کے اپنی والدہ کی دیکھ بھال سے متعلق خدشات پر کچھ خاص نہیں کیا، تاہم ہسپتال کی انتظامیہ کے چند افراد نے ان کی بات سننے اور ان سے ملاقات کرنے کی حامی ضرور بھری۔

نئی تحقیق، جو خصوصی طور پر بی بی سی ریڈیو 4 کی فائل آن 4 پروگرام میں دکھائی گئی ہے، کے مطابق ڈمنشیا کے دیگر مریضوں کو بھی علاج کے دوران اسی طرح کے تضحیک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انھیں مدد کی ضرورت ہے

یونیورسٹی آف ویسٹ لندن میں ’گیلر انسٹیٹیوٹ فار ایجنگ اینڈ میموری‘ سے منسلک ڈاکٹر کیٹی فیدرسٹون نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ کیئر ریسرچ کے فنڈ سے ایک تحقیق کی جس کے لیے انھوں نے انگلینڈ اور ویلز کے تین ہسپتالوں میں ڈمنشیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کے طریقہ کار کا ایک سال تک بغور مشاہدہ کیا۔

انھیں ایسے کئی مریضوں کا معلوم ہوا جنھیں باتھ رُوم تک جانے میں عملے کی جانب سے مدد فراہم نہیں کی گئی تھی اور اس کے بجائے انھیں اپنے ہی پیشاب میں گیلا ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

فیدر سٹون کے مطابق ’ہم نے وسیع پیمانے پر رونما ہونے والے ایک عمل کی نشاندہی کی: ڈمنشیا کے شکار تمام لوگوں کی دیکھ بھال میں مریض کو خشک رکھنے کی غرض سے پیڈ کا روزانہ استعمال۔ اور ان پیڈز کا استعمال اس بات سے قطع نظر کیا گیا کہ آیا مریض کو اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔‘ (یعنی مریض کا پیشاب واقعی خطا ہو جاتا ہے یا وہ پیشاب کے معاملے میں اپنے آپ پر کچھ قدرت رکھتا ہے۔)

مرض

تاہم انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ کام اور چیزیں اچھے انداز میں بھی انجام دیے جا رہے تھے۔ لیکن وقت کے دباؤ اور عملے کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے دیکھ بھال کرنے والے عملے کے افراد سینیٹری پیڈ کو استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

جب 86 سالہ بیسی کو گھر میں گرنے کے بعد سنہ 2019 میں رودرہم جنرل ہسپتال لے جایا گیا، تب بھی وہ خود ہی بیت الخلا جانے کے قابل تھیں یعنی ان کو معلوم ہو جاتا تھا کہ انھیں پیشاب کی حاجت ہو رہی ہے جس کی بنا پر وہ واش روم چلی جاتی تھیں۔ اس کے باوجود، ان کی بیٹیاں جینائن وارڈ اور سوزن نورڈن کہتی ہیں، جب ان کی والدہ نے ٹوائلٹ جانے کی غرض سے عملے سے رابطہ کیا تو عملے نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس کی بیٹیوں کو بے خبری میں رکھتے ہوئے ہسپتال نے آسان طریقہ یہ ڈھونڈا کہ انھیں بھی پیڈ لگا دیا۔

برطانیہ

جینائن اور سوزن نے محسوس کیا کہ ان کی ماں کی خود سے باتھ روم جانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ان کی نازک حالت یہی وہ دو عوامل ہیں، جو گھر پر ایک بار پھر ان کے لیے گرنے کا خطرہ کا سبب بن گئے۔

وہ چاہتی تھیں کہ انھیں اپنے قریب کے نرسنگ ہوم میں منتقل کیا جائے، لیکن ہسپتال اور سوشل سروسز والوں نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بیسی بے قابو تھیں اور انھوں نے اپنے گھر والوں کو اضافی نگہداشت کرنے والے، بیت الخلا اور کانٹینینس پیڈ فراہم کرنے کے لیے ایک نگہداشت کا منصوبہ بنایا (حالانکہ ایسا کبھی ہو نہیں سکا)۔

بیسی جب آئیں تو پہلی رات ان کے ساتھ ان کی بیٹی جینائن تھیں۔ ان کی نگرانی پر معمور عملہ انھیں بیت الخلا تک لے کر گئے۔ جینائن کے مطابق انھوں نے میری والدہ کو سیٹ پر بٹھایا جبکہ اس وقت کمرے میں پردہ کھلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی کھڑکی تھی۔ یہ سب دیکھ کر میں اپنے احساسات بتا نہیں سکتی۔

ان کے مطابق میں نے بس ان سے یہ کہا کہ آپ نے میری ماں کو اس ٹائلٹ پر بٹھایا جس کا پردہ بھی کھلا تھا۔ آپ نے اسے بند کیوں نہیں کیا؟ آپ کب اسے بند کرتے ہیں۔ انھوں نے عملے سے کہا کہ میرے خیال میں پردہ بند کرنے سے وقار بحال رہتا ہے۔

بی بی سی نیوز کے رابطہ کرنے پر رودرہم ٹرسٹ اور کونسل نے بیسی کے اہلخانہ سے معذرت کی اور کہا کہ اس واقعے کے بعد سے مریضوں کی دیکھ بھال میں بہتری آئی ہے۔

ہستپال

یہ بھی پڑھیے

ڈمنشیا:ہر تین سیکینڈ میں نیا مریض، امید کی کوئی کرن

’ویاگرا الزائمر کے علاج میں کار آمد ثابت ہو سکتی ہے‘

ڈمینشیا میں خطرناک اضافہ: ’یادداشت بچانی ہے تو سگریٹ نوشی ترک کر دیں‘

فیدرسٹون کا کہنا ہے کہ ڈمنشیا کے شکار لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک بار جب وہ سینیٹری پیڈ استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں تو باتھ روم کیسے جانا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ڈمنشیا کے ساتھ رہنے والے بہت سے لوگ جو ہسپتال جاتے ہیں وہ اپنے طور پر باتھ روم جانے کے قابل ہوتے ہیں۔

لہٰذا سینیٹری پیڈ استعمال کرنے کے آسان عمل اور اس سے متعلق طریقوں کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ ضرورت پڑنے پر باتھ روم جانے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

اور اس کے بعد میں لوگوں کے لیے حقیقی مضمرات ہو سکتے ہیں۔ یہ خاندانوں کے لیے کسی کی دیکھ بھال کرنا مزید مشکل بنا سکتا ہے اگر انھیں بے ضابطگی سے بھی نمٹنا پڑے۔ اور اس کا مطلب نرسنگ ہوم کا راستہ ہو سکتا ہے۔

برطانیہ

اچھی طرح سے اندازہ کیا جانا چاہیے

پروفیسر جون اینڈریوز، جنھوں نے ڈمنشیا کی دیکھ بھال میں 30 سال سے زیادہ عرصے کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ قیاس آرائیوں سے بچنے کے لیے سخت اور تسلسل سے جائزے ضروری ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں یقینی طور پر ایسی دستاویزات دیکھتی ہوں، جہاں کسی نے اپنے رشتہ داروں سے پوچھا ہو کہ مریض کنٹیننس ہے یعنی (پیڈ استعمال کرتا ہے یا نہیں)۔ اور یہ سب کچھ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کیا گیا ہے۔‘

ان کے مطابق یہ بالکل ضروری ہے کہ خاندان یہ پوچھنا چاہتے ہوں کہ آیا ’کنٹیننس اسسمنٹ‘ کی گئی ہے یا نہیں اور یہ کس نے کی ہے۔ یہ اس قسم کی چیز ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں پوچھے گا تو یہ یاد نہیں رہے گا۔‘

ڈمنشیا یو کے ریسرچ اینڈ پبلشنگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کیرن ہیریسن ڈیننگ، جو رپورٹ کی شریک مصنفہ ہیں کہتی ہیں کہ ’لوگ، ان کے بنیادی حالات اور عمر سے قطع نظر، ’ان کانٹینٹ‘ ہونے کی امید کے لیے ہسپتال نہیں جاتے‘۔

ان کے مطابق ’نہ صرف عملے کو کسی فرد کی آزادی کو فروغ دینے کے بارے میں مخصوص تربیت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیموں کے پاس ایک بوڑھے شخص کی عزت نفس کو برقرار رکھنے کے لیے اختیار اور ذمہ داری ہونی چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments